"KMK" (space) message & send to 7575

ملتان ٹی ہائوس، گلے شکوے، شکریہ اور اچھی خبر کی امید

آج ملتان ٹی ہائوس کی تعارفی تقریب ہے۔ قارئین جب میں ''آج ‘‘ کا استعمال کرتا ہوں تو دراصل آپ کے لیے گزرا ہوا کل ہوتا ہے کہ کالم لکھنے اور چھپنے کے دوران اگلا دن آ جاتا ہے۔ سو آج ملتان ٹی ہائوس کی تعارفی تقریب ہے ہماری بے شمار ایسی خواہشات ہوتی ہیں جو سدا خواہشات ہی رہتی ہیں۔ لیکن ملتان ٹی ہائوس میری ایسی خواہش تھی جو آج تکمیل تک پہنچی۔ رب کریم کا ایک بار پھر شکر گزار ہوں کہ وہ اس عاجز پر ہمیشہ ہی مہربان رہا ہے۔
ملتان پانچ ہزار سال سے مسلسل آباد شہر کے طور پر روئے ارض پر موجود ہے۔ یہ اعزاز بہت ہی کم شہروں کو حاصل ہے۔ گنتی کے چند شہر ہیں جو آج بھی آباد ہیں اور پانچ ہزار سال کی ٹائم لائن کو عبور کر چکے ہیں۔ اتنی قدامت ہو تو اس شہر کی علیحدہ تہذیب اور شناخت ہوتی ہے۔ عرصہ دراز سے روا رکھی جانے والی بے اعتنائی کے باوجود اگر ملتان اپنی شناخت کے ساتھ موجود ہے تو اس کی وجہ صرف اور صرف یہی ہے کہ گہری بنیادوں کو وقت کی دھول دھند لا تو کر سکتی ہے اکھاڑ نہیں سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ ملتان انہی قدیم روایات کو سنبھالے ہوئے ہے یہ روایات ہم تک پہنچانے میں ملتان کے ہنر مند، دستکار، فنکار اور قلمکار، سبھی شامل ہیں۔ یہ ٹی ہائوس دراصل ملتان کی ادبی روایات کے ماضی کو حال سے جوڑنے کی کاوش ہے۔
میں رب العزت کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے حسد کے عذاب سے سدا محفوظ رکھا اور کچھ عرصہ ہوا کہ اس میں مزید آسانی فرمائی ۔ میں جب بھی لاہور جاتا تھا تو ''پاک ٹی ہائوس ‘‘ دیکھ کر رشک کرتا تھا کہ لاہور کے ادیبوں اور قلمکاروں کے پاس بیٹھنے کا مستقل ٹھکانہ ہے اور پھر ملال ہوتا کہ ملتان والوں کے سارے ایسے ٹھکانے کمر شلزم کے طوفان میں باری باری بہہ رہے ہیں۔ گلڈہوٹل، دہلی مسلم ہوٹل، بابا ہوٹل، سٹار ہوٹل، شبر وز ہوٹل ، تاج ہوٹل، گھوڑا ہوٹل اور کئی بیٹھکیں آہستہ آہستہ بند ہو گئیں۔ کچھ تو ہوٹل ہی ختم ہو گئے اور کچھ ہوٹلوں نے ادیبوں کو غیر منافع بخش کمیونٹی شمار کرتے ہوئے انہیں 
بڑے مہذب انداز میں بے دخل کر دیا۔ یہی کچھ لاہور میں پاک ٹی ہائوس میں بھی ہوا اور اس کے مالک نے اسے ٹائروں کی دکان میں تبدیل کر نے کی اپنے تئیں پوری کوشش کی۔ لاہور کے ادیبوں کی مزاحمت اور سول سوسائٹی کے احتجاج نے اس تاریخی جگہ کو ٹائروں کی دکان بننے سے بچالیا۔ کچھ عرصہ کی بندش کے بعد پاک ٹی ہائوس اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ دوبارہ کھل گیا۔ منیر نیازی دوبارہ یہاں نہیں آسکے گا مگر اس کی مہک اس کمرے کے درو دیوار سے پھوٹتی رہے گی۔ منٹو، فیض، احمد ندیم قاسمی، چراغ حسن حسرت اور دیگر بے شمار مشاہیر۔ اردو ادب جن پر سدا فخر کرتا رہے گا۔ آج پاک ٹی ہائوس اپنی ساری تاریخ سمیت زندہ ہے۔ پھر لاہور میں الحمرا میں ادبی بیٹھک بھی بن گئی۔ گو چل نہ سکی مگر سر کار نے کوشش ضرور کی۔ 
ملتان میں آہستہ آہستہ ختم ہوتے ہوئے ادبی ٹھکانوں نے دل کی بے کلی کو اور ہوا دی۔ دل میں ایک شدید خواہش رہی کہ ہمارے پاس کوئی ایسی جگہ ہو جہاں ہم بیٹھ سکیں، مکالمہ کر سکیں، اپنے سینئرز کوسن سکیں۔ ان سے کچھ سیکھ سکیں اور اپنے بچوں کے لیے کوئی ایسی جگہ چھوڑ سکیں جہاں وہ ملتان کی ادبی تاریخ کو دیکھ سکیں۔ ملتان کی ادبی تاریخ کے سفر سے روشناس ہو سکیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہم اہل ملتان کو ایسی جگہ میسر آئی۔ کم از کم اس ایک محرومی کا تو ازالہ ہوا۔
ملتان میں کئی ادب دوست ڈپٹی کمشنر آئے مگر شاید ہر کام کا وقت ہوتا ہے۔ مختار مسعود ملتان میں ڈپٹی کمشنر رہے۔ یہ میرے ہوش سنبھالنے سے پہلے کی بات ہے۔ مجھے اس بات کا پتہ ''آواز دوست‘‘ میں ان کی سید عطا اللہ شاہ بخاری سے ملاقات کے تذکرے کو پڑھ کر ہوا۔ ملتان کے موجودہ ڈی سی او زاہد سلیم گوندل سے ملاقات ہوئی تو ادب پر گفتگو شروع ہو گئی۔ اندازہ ہوا کہ انہیں ادب سے کتابی نہیں 
دلی محبت بھی ہے۔ پتہ چلا کہ انگریزی ادب میں ایم اے کیا ہوا ہے اور کسی زمانے میں شاعری بھی کی ہے۔ افسر سے زیادہ علم دوست لگے۔ دوران گفتگو پوچھنے لگے کہ آپ کے خیال میں ملتان میں کیا کیا ہونا چاہیے؟۔ ایک لمبی فہرست تھی خواہشات اور محرومیوں کی۔ مگر خدا جانے مجھے کیا سوجھی اور کہا کہ ہمارے وسیب کے ادیبوں کے پاس بیٹھنے کے لیے کوئی معقول جگہ نہیں۔ کوئی ایسا ادبی ٹھکانہ نہیں جہاں ملتان کے ادیب بیٹھ سکیں، مکالمہ کر سکیں، چائے کا کپ سامنے رکھ کر ہلکی پھلکی گفتگو اور گپ شپ کر سکیں۔ جہاں یہ ڈر نہ ہو کہ کمرشل کا عفریت انہیں ہڑپ کر جائے گا۔ میں نے با ت کی اور پھر بھول گیا کہ پہلے بہت سے لوگ میری اس خواہش کو بھول گئے تھے۔ لیکن کوئی وقت قبولیت کا ہوتا ہے اور یہ قبولیت کا وقت تھا۔ 
تھوڑے دن بھی نہ گذرے تھے کہ ڈی سی او کہنے لگے کہ ملتان ٹی ہائوس کہاں ہونا چاہئے؟ میں نے کہا کسی پارک کے کونے میں۔ کہیں سبزے کے ساتھ۔ کوئی چھوٹی سی جگہ ہی کیوں نہ ہو۔ بس کوئی ایسا ٹھکانہ ہو جسے ادیب اپنی ملکیت تصور کر سکیں۔ بند ہونے کے خوف سے آزاد فضا چائے کے ایک کپ پر گھنٹوں گزار سکیںاور کائونٹر پر کھڑا مالک انہیں ''گھوریاں‘‘ نہ مارے۔ بس اتنی سی خواہش ہے۔ لیکن ایمانداری کی بات ہے کہ مجھے اب بھی یقین نہیں تھا کہ یہ سب کچھ ہو جائے گا۔ میں تو صرف اس وسیب میں اگنے والی گھاس کی طرح مٹی کی محبت میں فرض کفایہ ادا کر رہا تھا۔ ڈی سی او بھی شاید اسی موڈ میں تھا۔
سال بھی نہیں گزرا اور ایک شاندار عمارت ملتان کے ادیبوں، فنکاروں، قلمکاروں اور ہنرمندوں کی منتظر ہے۔ ایک سو ساٹھ کرسیوں کا شاندار ہال۔ ایک روشن ہوادار اور خوبصورت کیفے، جس کی دیواروں پر ملتان کے مشاہیر کی تصویریں ہیں۔ قلمی سکیچ بھی اور پورٹریٹ بھی۔ علامہ طالوت، کشفی ملتانی، حسن رضا گردیزی، اسد ملتانی اور ہاں اور خواجہ غلام فریدؒ کا سکیچ۔ مرزا ابن حنیف جیسے قدیم ادب کے نابغہ محقق کی تصویر، عرش صدیقی، ارشد ملتانی، اقبال ساغر صدیقی، عاصی کرنالی، لطیف الزمان خان اور عبدالمجید خان ساجد کے علاوہ دو سو کے لگ بھگ موجود اور رخصت ہو جانے والے ادیبوں کی تصاویر۔ پینسٹھ سال کی عمر کی حد عبور کرنے والے ادیبوں کے لیے لائف ٹائم اعزازی رکنیت۔ یہ سب کچھ ابتدا ہے۔ شاندار ماضی کے شہر کا ادبی مستقبل روشن ہے کہ نئے لکھنے والوں کی ایک لمبی فہرست ہے جن سے شہر کی ادبی فضا نے ابھی معطر ہونا ہے۔
یہ جگہ سب کی ملکیت ہے۔ ہر اس شخص کی جو ادب سے جڑا ہوا ہے اور کسی نہ کسی حوالے سے وابستہ ہے۔ وہ ادیب، شاعر، ڈرامہ نگار، کہانی کار، صداکار، گلوکار، مصور، محقق، نقادیے یا محض علم دوست اور ادب پرور۔ ابھی صرف ابتدا ہے فی الوقت اس کے چالیس اعزازی ارکان ہیں جو ہم نے اپنی یادداشت کے زور پر بنائے ہیں۔ جوں جوں ہمیں دیگر نام ملیں گے انہیں یہ رکنیت دے کر ملتان ٹی ہائوس کو مزید معتبر کیا جائے گا۔ اس کا مستقبل نئے لکھنے والے ہیں اور بالآخر اس کو انہوں نے ہی چلانا ہے۔ اسلم انصاری، عزیز شاہد، اقبال ارشد، انور جمال، ڈاکٹر مختار ظفر، احمد خان طارق، اقبال سوکڑی، شاکر شجا عبادی، ڈاکٹر اسد اریب، محترمہ نوشابہ نرگس، صادق علی شہزاد، حفیظ الرحمن خان، حنیف چودھری، ڈاکٹر انوار احمد، ڈاکٹر طاہر تو نسوی، ثریا ملتانیکر، این کلیم اور مظہر کلیم ایم اے کے علاوہ کئی بڑے فنکار، قلمکار اور ادیب اس ٹی ہائوس کے لیے باعث فخر ہیں کہ ان کا نام اس سے جڑا ہوا ہے۔
کچھ لوگوں کو شبہ ہے کہ شاید کوئی خاص ادبی گروہ اس پر قابض ہونے کی سعی کر رہا ہے تو ایسا ممکن نہیں کہ اس کے انتظامی معاملات کے علاوہ کسی چیز کا اختیار کسی فرد کے پاس نہیں کہ یہ سب کی مشترکہ ملکیت ہے اور اسے سب نے مل کر سنوارنا ہے نہ کہ بگاڑنا ۔
ملتان کے صنعتکاروں اور ادب دوستوں نے اس سلسلے میں بڑا تعاون کیا ہے کہ اس قسم کے فورم اور ادارے مالی مشکلات اور باہمی چپقلش میں برباد ہوتے ہیں۔ میاں تنویر احمد شیخ، میاں منیر احمد، خواجہ جلال الدین رومی، آصف مجید ، رحمان نسیم، احسن رشید، چوہدری ذوالفقار، ملک اسرار اعوان، ملک ابراہیم، فیصل حمید، عاشق علی شجرا، ڈاکٹر خالد کھوکھر، میاں حسین فاروق، رانا محمد ظفر، قیصر شبیر کے علاوہ کئی دوستوں نے اس دھرتی سے محبت کا ثبوت دیتے ہوئے غیر مشروط تعاون کیا ہے۔
یہ ایک نئے عہد کی ابتدا ہے اور اس حوالے سے اس شہر کا مستقبل اپنے ماضی میں جھانکنے کی کوشش کرے گا۔ پانچ ہزار سال سے مسلسل آباد شہر کے ادیبوں کیلئے ایسا ہی شایان شان ادبی ٹھکانہ ہونا چاہئے تھا۔ اہل ملتان اپنی مدد آپ کے تحت انشاء اللہ نومبر میں '' ملتان لٹریری فیسٹیول‘‘ برپا کرینگے کہ لاہور والوں نے ملتان کو ایسا فیسٹیول کیا دینا ہے وہ تو ملتان یا جنوبی پنجاب کو ان معاملات میں نمائندگی دینے پر بھی تیار نہیں۔ ابھی بہت سے معاملات پر ہم ملتان اور جنوبی پنجاب والوں نے اپنا حق لینا ہے لیکن ملتان ٹی ہائوس کے حوالے سے ضلعی انتظامیہ، ڈی سی او اور سرکار کا شکریہ۔ گلے شکوے کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ اچھے کام کو سراہا بھی نہ جائے۔ ہمارے گلے شکوے اور اظہار ممنونیت، دونوں درست ہیں۔ امید ہے جب خادم اعلیٰ اس کے باقاعدہ افتتاح کے لیے ملتان آئیں گے تو اس علاقے کی محرومیوں کے ازالے کے لیے اہل ملتان کے لیے اچھی خبر لائیں گے۔ اچھی خبر کی امید رکھنا بری خبر کی امید رکھنے سے ہزار درجہ بہتر ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں