"KMK" (space) message & send to 7575

آج کے لیے اتنا ہی کافی ہے‘ باقی پھر

کسی نے بھوکے سے پوچھا دو اور دو؟ اس نے جواب دیا چار روٹیاں۔ آج کل سیاست کا بھی یہی حال ہے۔ جس کسی سے بات کریں کہ سیاست کدھر جا رہی ہے؟ جواب ملتا ہے میئر کے لیے ہمارے پاس چالیس چیئرمین ہیں۔ فلاں کے پاس محض بارہ چیئرمین ہیں۔ مسلم لیگ ن کے اکیس اور انیس آزاد ہمارے ساتھ ہیں۔ انشاء اللہ میئر ہمارا ہوگا۔
ملتان‘ شجاعباد‘ جلالپورپیروالہ‘ مظفر گڑھ اور ڈیرہ غازی خان تقریباً ہر جگہ یہی حال ہے اور حقیقت یہ ہے کہ کسی کا بھی کوئی حال نہیں۔ ہر ممکنہ امیدوار اپنا زور لگانے کے بعد آسمان کی طرف دیکھتا ہے اور دل میں دعا کرتا ہے کہ میاں صاحب کی نظر کرم ہو جائے تو جو کمی بھی رہ گئی ہے پوری ہو جائے گی اور اگر میاں صاحب نے کسی اور کی طرف اپنی نظر کرلی تو میرے والے چیئرمین بھی ادھر بھاگ جائیں گے۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ سب زور بھی لگا رہے ہیں اور دعا بھی کر رہے ہیں۔ خرچہ کر بھی رہے ہیں اور خرچہ نہیں بھی کر رہے کہ عجب بے یقینی ہے اور کسی بھی سکائی لیب کے گرنے کا ہمہ وقت امکان بھی۔ ابھی کوئی کھل کر اعلان بھی نہیں کر رہا کہ میاں صاحب کی ناراضگی کا ڈر اتنا ہے کہ سب کے سانس سوکھے ہوئے ہیں اور خون خشک ہوا پڑا ہے۔ عجب بنیادی جمہوریت ہے جس میں جمہوریت کی اپنی کوئی بنیاد ہی نہیں ہے۔
ملتان کی ضعی نظامت کے لیے فی الوقت چار امیدوار موجود ہیں۔ پانچواں بھی تھا مگر اب وہ اپنے والد کی جعلی ڈگری کے باعث خالی ہونے والی قومی اسمبلی کی نشست سے مسلم لیگ ن کا امیدوار ہے۔ ستمبر2014ء میں یعنی ایک سال چار ماہ پہلے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 153 سے مسلم لیگ ن کے ممبر قومی اسمبلی دیوان عاشق حسین جعلی ڈگری کے کیس میں فارغ ہوگئے۔ انہیں الیکشن ٹربیونل نے نااہل قرار دیا۔ وہ حسب روایت (تمام نااہل ہونے والے ارکان اسمبلی کی روایت کے مطابق) سپریم کورٹ چلے گئے۔ وہاں انہیں حکم امتناعی مل گیا اور ان کی قومی اسمبلی کی رکنیت بحال ہوگئی۔ ان کے مخالف امیدوار رانا قاسم نون نے اپنا عدالتی پیچھا جاری رکھا اور پھر انہیں نااہل قرار دلوا دیا۔ دیوان صاحب نے نااہلی کے بعد ایک اور پینترہ بدلا۔ انہوں نے شتابی سے حلقہ این اے 153 کے انٰتخابات پر حکم امتناعی حاصل کرلیا جو تقریباً چھ ماہ تک چلتا رہا۔ اس طرح یہ حلقہ سات ماہ تک قومی اسمبلی میں اپنی نمائندگی سے محروم رہا۔ آئین کہتا ہے کہ کسی بھی خالی ہونے والے قومی اسمبلی کے حلقے میں ساٹھ دن کے اندر اندر الیکشن ہونا ضروری ہے لیکن یہ مظلوم حلقہ مسلسل ایک سو اسی دن تک اسمبلی میں اپنی نمائندگی سے محروم رہا۔ اب اس حلقہ میں قومی اسمبلی کے ضمنی الیکشن کا حکم جاری ہو چکا ہے اور یہاں سے اب دیوان عاشق بخاری کا صاحبزادہ دیوان محمد عباس قومی اسمبلی کا امیدوار ہے۔ وہ پہلے ضلعی نظامت کی امیدواری کی آس میں بھی تھا مگر اب یکسوئی سے اس حلقے میں مسلم لیگ ن سے ایم این اے کی ٹکٹ کا طلبگار ہے۔ اس حلقہ پر تفصیلی کالم جلد ہی لکھوں گا‘ فی الحال تو بلدیاتی الیکشن کا رولا پڑا ہوا ہے۔
ضلعی نظامت کے چار امیدواروں میں فی الوقت سید مجاہد علی شاہ (شجاعباد)‘ رانا شوکت نون (شجاعباد)‘ ملک حسنین بوسن (ملتان) اور ملک ذوالفقار ڈوگر باقی بچے ہیں۔ اسی طرح ملتان کی میئرشپ کے بھی نمایاں امیدواروں کی تعداد چار ہے۔ چوہدری نوید ارائیں‘ سعید انصاری‘منور احسان اور ملک اعجاز رجوانہ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ مندرجہ بالا آٹھ کے آٹھ امیدوار کسی نہ کسی ممبر اسمبلی یا اس سے بھی بڑے چوہدری کے رشتہ دار ہیں۔
سید مجاہد علی شاہ سابقہ ضلعی ناظم ملتان ہے اور شجاعباد سے موجودہ ایم این اے جاوید علی شاہ کا فرسٹ کزن ہے۔ اس کی ساری مہم جاوید علی شاہ چلا رہا ہے۔ رانا شوکت نون مسلم لیگ ہی کے شجاعباد سے ایم پی اے رانا اعجاز نون کا والد ہے۔ ملک حسنین بوسن ایم این اے اور وفاقی وزیر ملک سکندر بوسن اور ایم پی اے ملک شوکت بوسن کا بھانجا ہے اور ملک ذوالفقار ڈوگر جعلی ڈگری میں ممکنہ طور پر نااہل ہونے والے مسلم لیگ ن کے ایم این اے ملک غفار ڈوگر کا بھائی ہے‘ یعنی بنیادی جمہوری نظام میں کوئی عام تام بنیادی سیاسی سماجی ورکر امیدوار نہیں ہے اور علاقے کی اسمبلی میں نمائندگی کرنے والے اب علاقے میں بھی اپنی خاندانی گرفت مضبوط کرنے کی غرض سے انہی بھائی‘ بیٹوں‘ بھانجوں‘ بھتیجوں کو آگے لا رہے ہیں۔
شہر میں میئر کے لیے بھاگ دوڑ کرنے والے امیدواروں میں فی الوقت شو آف پاور کے حساب سے سب سے نمایاں کارکردگی چوہدری نوید ارائیں کی ہے۔ نوید ارائیں سابقہ صوبائی وزیر اور موجودہ صوبائی مشیر چوہدری وحید ارائیں کا بھائی ہے۔ سعید انصاری جو خود بھی سابقہ ممبر صوبائی اسمبلی ہے‘ عامر سعید انصاری کا والد ہے جو 2008ء میں ایم پی اے تھا اور 2013ء میں الیکشن ہار گیا تھا۔ منور احسان سابقہ صوبائی وزیر اور موجودہ ایم این اے احسان الدین قریشی کا بیٹا ہے۔ ملک اعجاز رجوانہ گورنر پنجاب ملک محمد رفیق رجوانہ کا بھائی ہے۔ گورنر صاحب نے گورنر بننے کے بعد ملتان کا سب سے طویل دورہ گزشتہ دنوں کیا ہے۔ اس دوران وہ آزاد جیتنے والے
یونین کونسل کے چیئرمینوں سے ملتے رہے ہیں اور اس کے بعد شنید ہے کہ ملک اعجاز رجوانہ کی پوزیشن کچھ بہتر ہوئی ہے؛ تاہم اس دورے کی خاص بات یہ ہے کہ گورنر صاحب ملتان میں میئر کے تمام امیدواروں سے ملے اور ان کے سرپرستوں سے بھی ملاقات کی مگر چوہدری وحید ارائیں جس کے پاس فی الوقت (مختلف لوگوں سے حاصل کی گئی معلومات کی بنا پر) سب سے زیادہ یعنی تقریباً چالیس کے لگ بھگ چیئرمین موجود ہیں نہیں ملے‘ تاہم کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ تعداد صحیح نہیں ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ اس کے ساتھ اس کے اپنے چیئرمینوں کے علاوہ آزاد جیتنے والے اور دیگر گروپوں کے حمایتی چیئرمین موجود ہیں۔ اسی طرح گورنر پنجاب ملک رفیق رجوانہ کے طویل دورہ ملتان کے دوران چوہدری وحید ارائیں نے اپنے گروپ کے لوگوں کا کھانا کیا اور شو آف پاور بھی کیا مگر اس نے بھی گورنر کو شاید نہیں بلایا۔ ممکن ہے بلایا ہو اور گورنر خود نہ گئے ہوں‘ تاہم ہر دو حضرات ایک دوسرے سے دور دور رہے۔
ابھی کچھ امیدوار پردہ غیب میں ہیں اور اوپر سے آنے والی حکمیہ نامزدگی کے منتظر ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو یہ موجودہ تمام امیدواروں کے لیے نہایت صدمے کی بات ہوگی۔ گو کہ یہ بات بنیادی جمہوریت ہی نہیں بلکہ جمہوریت کے بنیادی نقطہ نظر کے خلاف ہے؛ تاہم اگر کوئی مناسب آدمی اوپر سے آ جائے تو وہ شہر کی صورت بدل سکتا ہے‘ موجودہ امیدواروں سے تو اس کی توقع عبث ہے کہ سارا نظام ہی خاندانی تسلط میں آ جائے گا اور شہر کے بجائے ان کی خاندانی ترقی کی رفتار دگنی تگنی ہو جائے گی کہ تمام سیاستدان ملتان کے حوالے سے ترقی اور بہتری کے معاملے میں ماضی میں بھی کچھ نہیں کر پائے اور مستقبل میں بھی ان سے کسی قسم کی امید رکھنا حماقت کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
ڈیرہ غازی خان میں بھی یہی صورتحال ہے۔ سابقہ تحصیل ناظم محمود قادر لغاری نے بلاشبہ ڈیرہ غازی خان میں اپنے دور میں خاصا کام کیا مگر اب صورتحال انتہائی ابتر ہے۔ ایم این اے اور ایم پی اے اپنا اپنا گروپ بنائے بیٹھے ہیں۔ سردار امجد فاروق کھوسہ‘ انصاری گروپ‘ حافظ عبدالکریم اور عبدالعلیم شاہ اپنے اپنے چیئرمینوں کے ساتھ اپنا اپنا میونسپلٹی کا چیئرمین بنوانے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ ایم این اے حافظ عبدالکریم اور ایم پی اے علیم شاہ اس سلسلے میں بڑی پھرتیاں دکھا رہے ہیں مگر شہر کے سنجیدہ حلقے ڈیرہ غازی خان میں فلاحی کاموں کے حوالے سے نیک نام ڈاکٹر شفیق پتافی کی طرف نظریں لگائے بیٹھے ہیں۔ ڈی ایچ کیو ہسپتال میں گزشتہ کافی عرصہ تین وقت کا مفت کھانا فراہم کرنے‘ ڈائیلسز مشین لگوانے اور صاف پانی کی فراہمی جیسے مفت منصوبے چلانے والے ڈاکٹر شفیق ٹیکنوکریٹس کی سیٹ پر امیدوار ہے اور لوگوں کا خیال ہے کہ اب پیسے کمانے والوں کے بجائے پیسے لگانے والوں کو موقع ملنا چاہیے کہ شہر گزشتہ کئی سالوں سے نوٹ کمانے والی قیادتوں سے تنگ آ چکا ہے۔
ملتان کے سابقہ سٹی ڈسٹرکٹ ناظم فیصل مختار سے بے شمار اختلافات اور تحفظات کے باوجود یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اس نے خود پیسے نہیں کمائے تھے؛ البتہ اپنی کاروباری مصروفیات کے باعث اپنے اردگرد اکٹھے ہونے والے گروپ کے ساتھیوں کو اس کام سے نہ روک سکا۔ اسی وجہ سے مجموعی طور پر کارکردگی زیادہ قابل فخر نہ رہی مگر یہ بات طے ہے کہ اگر تب کوئی روایتی سیاستدان یا سیاسی خاندان کا نمائندہ ملتان کا سٹی ڈسٹرکٹ ناظم بنتا تو ضلعی حکومت کی کارکردگی شاید اس سے بھی کہیں زیادہ کمتر ہوتی۔ ذاتی طور پر بہتر شخص خواہ ناتجربہ کار ہی کیوں نہ ہو بہرحال محض لوٹ مار کے لیے آنے والے تجربہ کار عادی مجرموں سے بدرجہا بہتر ہوتا ہے۔
گزشتہ روز پی ٹی آئی کے رہنما اسحاق خاکوانی سے حلقہ این اے 153 کے حوالے سے گفتگو ہوئی۔ صاحب کا فرمانا بجا مگر میرا اب بھی یہی خیال ہے کہ ان کا متوقع امیدوار پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن کے درمیان شش وبنج کے عالم میں بیٹھا ہے اور چھلانگ لگانے کے لیے ارادہ باندھتا ہے اور توڑتا ہے۔ اس پر بھی ایک دو روز بعد کچھ لکھوں گا‘ فی الحال آج کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں