"KMK" (space) message & send to 7575

آخری حل حکومت کی نجکاری ہے

پی آئی اے کی نجکاری میں اصل رولا یہ نہیں کہ پی آئی اے بیچی جا رہی ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ سب کو یقین ہے کہ (ن) لیگ اسے بیچ نہیں رہی‘ خرید رہی ہے۔ یہ گمان کرنے والے کچھ غلط بھی نہیں ہیں کہ یہاں جو چیز بھی بکی ہے پیاروں کے پاس گئی ہے اور اگر پیاروں کی استطاعت سے باہر تھی تو پھر اس فروخت میں بنیادی کردار بیچی جانے والی چیز یا ادارے کی قیمت کا نہیں کمیشن کا تھا۔ ماضی میں فروخت ہونے والی کسی بھی چیز پر انگلی رکھ لیں درج بالا دو میں سے ایک وجہ صاف دکھائی دے گی۔ ہر فروخت کے ساتھ بے شمار کہانیاں وابستہ ہیں۔ آدھی بھی درست ہوں تو ہوش اڑ جاتے ہیں۔
سمجھدار سے سمجھدار اور ٹھنڈے مزاج کے معتدل شخص سے بھی اس مسئلے پر بات کی تو اسے پی آئی اے کی نجکاری سے سو فیصد ہی نہیں دو سو فیصد متفق پایا مگر اس اتفاق کرنے کے ساتھ ہی اس نے جو پہلا سوال اٹھایا وہ وہی ہے جس کی میں اوپر نشاندہی کر چکا ہوں کہ اس کی شفاف نجکاری کون کرے گا؟ (ن) لیگ کا ریکارڈ اس سلسلے میں کافی خراب ہے۔ ان کے سرکاری دوروں میں کاروباری لوگوں کی شرکت‘ کاروباری دیو ٹائپ لوگوں کے جہازوں پر پورے پورے خاندان سمیت باہر کے دورے اور پیاروں کو نوازنے کی تاریخ نے نجکاری کا سارا معاملہ مشکوک بنا کر رکھ دیا ہے۔
میں پی آئی اے کے مستقل مسافروں میں سے ہوں اور باوجود تمام تر خرابیوں اور مشکلات کے میں جہاں ممکن ہو پی آئی اے پر سفر کرتا ہوں کہ میرا اس سلسلے میں بڑا واضح موقف ہے کہ سفر کٹ رہا ہو تو اس دوران پیش آنے والی مشکلات اور خرابیوں کو بہرحال برداشت کیا جا سکتا ہے کہ کم از کم یہ تسلی ضرور ہے کہ سفر کٹ رہا ہے اور منزل نزدیک آتی جا رہی ہے بمقابلہ اس بات کے کہ آپ درمیان میں کسی جگہ پر آٹھ دس گھنٹے کا ٹرانزٹ لے کر ایئرپورٹ پر ذلیل ہو رہے ہوں کہ اب اکثر ایئر لائنز درمیان میں بارہ گھنٹے کا وقفہ ہونے پر بھی آپ کو ہوٹل وغیرہ کی سہولت نہیں دیتیں اور آپ ایئرپورٹ پر گمشدہ گائے کی طرح مارے مارے پھرتے ہیں۔ پی آئی اے پر آپ کم از کم اس ذلت سے محفوظ رہتے ہیں جسے آپ پی آئی اے کی برائیاں بیان کرتے ہوئے بھول 
جاتے ہیں۔ سامان چھوڑ جانا‘ دوران سفر مسافروں کا خیال نہ رکھنا‘ گھنٹی سن کر نہ آنا‘ کھانے کی خراب کوالٹی‘ دوران سفر کمبلوں اور تکیوں کا نہ ہونا‘ سنی ان سنی کرنا بلکہ بعض اوقات بدتہذیبی اور بدتمیزی کرنا خصوصاً جب مسافر شکل سے ان پڑھ لگ رہا ہو‘ یہ سب معمول کی باتیں ہیں۔ جہازوں کی تاخیر اور بعض اوقات سرے سے فلائٹ کینسل ہو جانا یہ بھی عام سی بات ہے۔ ایسی ایئرلائن کے باقی رہنے کا کوئی جواز نہیں اور سچ تو یہ ہے کہ اگر یہ پاکستان کے بجائے کسی اور ملک میں ہوتی تو کبھی کی بند ہو کر قصہ پارینہ بن چکی ہوتی مگر میرے جیسے وفادار مسافروں اور بے شمار ان مجبوروں کے باعث (ان مجبوروں کا حصہ میرے جیسے لوگوں سے کہیں زیادہ ہے) جو پی آئی اے پر سفر کرنے پر مجبور ہیں کہ ان کے پاس اس کے علاوہ اور چارہ نہیں ہے ‘چل رہی ہے مگر ان ساری خرابیوں کے ساتھ ساتھ مسلسل خسارہ! اور خسارہ بھی لاکھوں کروڑوں میں نہیںاربوں روپے میں۔ بھلا ان حالات میں ایسے سفید ہاتھی کو پالنے کا فائدہ؟ لیکن نجکاری کے معاملے پر سو فیصد اتفاق کے باوجود کیا اس بات پر کوئی شخص یقین کرنے پر تیار ہے کہ نجکاری صاف شفاف ہوگی؟ ''اپنے خریداروں‘‘ کا شک کیا غلط ہے؟ پیاروں کو نوازنے کا گمان کیا گمان سے بڑھ کر نہیں؟ نون لیگ کی ساری ٹیم کا ماضی ان معاملات میں داغدار نہیں؟ کیا ماضی میں ساری نجکاریاں اور فروخت کاریاں لمحہ لمحہ یہ ثابت نہیں کرتی رہیں کہ ان کو کس طرح اندھے کی ریوڑیوں کی طرح بانٹا گیا تھا؟
اور صرف نون لیگ پر کیا منحصر؟ سب نے یہی کیا۔ امریکہ سے آئے ہوئے شوکت عزیز نے کیا کیا؟ ملتان کی پاک عرب فرٹیلائزر‘ کئی بینک اور پی ٹی سی ایل‘ محض چھبیس فیصد شیئر بیچ کر ساری انتظامیہ ان کے حوالے کر دی اور حال یہ ہے کہ ابھی تک اتنے سال گزارنے کے باوجود وہ چھبیس فیصد والے پورے پیسے بھی وصول نہیں ہو سکے۔ ایک پی ٹی سی ایل بیچی اور اپنے حساس متبادل مواصلاتی نظام کو چلانے کے لیے کئی دیگر کمپنیاں بنانی پڑیں۔ سرکاری نمبر جو 92 سے شروع ہوتے تھے ان کو چلانے کے لیے NTC یعنی نیشنل ٹیلی کمیونیکیشن کارپوریشن بنائی۔ دفاعی معاملات کی مواصلاتی حفاظت کے لیے SPD یعنی سکیورٹی پلاننگ ڈویژن تشکیل دینا پڑا۔ SCO نامی ایک ادارہ یعنی سپیشل کمیونیکیشن آرگنائزیشن بنانا پڑا جو آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے معاملات کو دیکھتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ کہ دفاعی مواصلاتی معاملات کو دیکھنے اور اس نظام کی حفاظت کے لیے ایک علیحدہ سے نظام بنانا پڑا۔ علیحدہ آپٹک فائبرز کا پورا نظام کھڑا کیا گیا۔ اتنی آمدنی نہ ہوئی جتنا خرچہ ہو گیا۔ اب بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔
حکومت کی بوکھلاہٹ کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ آئی ایم ایف کی ہدایت سن کر سب شاید گھبراہٹ کی آخری حدوں پر ہیں۔ پنجابی میں اس کے لیے ایک لفظ استعمال ہوتا ہے ''بونتر جانا‘‘ حکومت اس وقت بالکل ہی ''بونتر گئی ہے‘‘ ۔ایک طرف پی آئی اے کو بیچنے کا غلغلہ مچا رہی ہے دوسری طرف پی آئی اے کے ملازمین کو ''لازمی سروس ایکٹ‘‘ Essential Services Act(52) کے تحت ہڑتالوں وغیرہ سے روک دیا ہے۔ مجھ عاجز کو تو یہ سمجھ آتی ہے کہ جو ادارہ اس ایکٹ کے تحت آتا ہو اس کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ملکی سلامتی کے لیے لازمی سروس کے دائرہ کار میں آتا ہے‘ لہٰذا ایسے ادارے میں ہڑتال وغیرہ نہیں ہو سکتی اور دوسری بات یہ کہ ایسا ادارہ جس پر ملکی سلامتی کی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہوں ‘بھلا کس طرح پرائیوٹائز ہو سکتا ہے؟ یا تو یہ لازمی سروس ایکٹ کے تحت نہیں آتا یا یہ فروخت نہیں ہو سکتا۔ دونوں چیزیں بیک وقت نہیں چل سکتیں کہ ملکی سلامتی میں حصہ دار بھی ہو اور قابل فروخت بھی ہو۔ اگر حصہ دار ہے تو قابل فروخت نہیں ہے اور اگر قابل فروخت ہے تو ملکی سلامتی سے غیر متعلق ہے۔
ایک طرف حکومت فرما رہی ہے کہ ہم پی آئی اے کو پرائیویٹائز کرنے جا رہے ہیں اور ملازمین کی مزاحمت پر فرماتی ہے کہ ہم چار ماہ میں نئی ایئرلائن بنا لیں گے۔ اگر حکومت کے پاس نئی ایئر لائن چلانے کی صلاحیت ہے تو وہ اسی کو ٹھیک طرح کیوں نہیں چلا سکتی؟ ایک ایئرلائن چل نہیں رہی اور اسے بند کر کے دوسری چلانے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ حکومتی مشیر معاملات کو جلد از جلد نمٹانے کی افراتفری میں عقل و خرد سے بیگانہ ہو چکے ہیں اور ایک انگریزی لفظ Desperation ہے یعنی کسی کام کے لیے دیوانہ ہو جانا۔ نتائج سے بے پروا ہو جانا۔ حکومت کا بھی فی الحال یہی حال ہے۔
آئی ایم ایف کا دبائو ہے کہ سرکاری ادارے پرائیوٹائز کئے جائیں۔ ان اداروں میں پی آئی اے‘ پاکستان ریلوے‘ سٹیل ملز‘ فیصل آباد الیکٹرک کمپنی (Fesco)‘ ملتان الیکٹرک پاور کمپنی (Mepco)‘ لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی (Lesco)‘ کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی (Qesco)‘ حیدرآباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (Hesco)‘ سکھر الیکٹرک پاور کمپنی (Sepco)‘ گوجرانوالہ الیکٹرک پاور کمپنی (Gepco)‘ اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (Iesco) اور پشاور الیکٹرک پاور کمپنی (Pesco)‘ پی ایس او‘ او جی ڈی سی‘ سوئی نادرن و سوئی سدرن گیس کمپنیز کے علاوہ اور بھی کئی سرکاری ادارے شامل ہیں۔ 
میں ذاتی طور پر امریکی صدر ریگن کے اس جملے کو سو فیصد درست مانتا ہوں جس میں اس نے کہا کہ State has no business with the business یعنی ''ریاست کا کام کاروبار چلانا نہیں ہے۔ تاہم اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ریاست کا بزنس بند کر کے حکمران اپنا بزنس چلانا شروع کر دیں۔ پی آئی اے کی نجکاری کے بارے میں مجھ سمیت ہر پاکستان سے محبت کرنے والے کا نجکاری سے اختلاف نہیں ‘نجکاری کرنے والوں سے خوف ہے کہ ماضی میں ایک مثال بھی ایسی نہیں دی جا سکتی جسے صاف شفاف کہا جا سکے۔
کیا نجکاری ہر بدانتظامی کا حل ہے؟ اگر یہ فارمولہ درست ہے تو بے شمار چیزیں اس قابل ہیں کہ پرائیویٹائز کر دی جائیں۔ مثلاً ایف بی آر‘ ایف بی آر کا کام ٹیکس اکٹھا کرنا ہے لیکن اسے اس میں شرمناک ناکامی کا سامنا ہے۔ تنخواہ داروں‘ فون کارڈوں اور پٹرول وغیرہ پر عائد ڈیوٹی و ٹیکسز کے علاوہ اور کہاں سے ٹیکس وصول ہو رہا ہے؟ ارب پتی تاجر‘ کاروباری دولت مند‘ اوپر کی آمدنی پر موج میلہ کرنے والے سرکاری افسر‘ مریضوں کو لوٹنے والے ڈاکٹر اور پراپرٹی سے کروڑوں کمانے والے لاکھوں لوگ ایک پائی ٹیکس دیئے بغیر دھڑلے سے اس ملک میں مزے کرتے سب کو نظر آ رہے ہیں ‘سوائے RTO'Sمیں بیٹھے ہوئے افسران کے۔ اس ملک میں صرف وہی ٹیکس دے رہا ہے جس کی تنخواہ سے کٹ جاتا ہے‘ جس کے فون کارڈ سے کارڈ لوڈ کرتے وقت کٹ جاتا ہے‘ یا درآمدکے چکر میں پھنس کر کٹ جاتا ہے وگرنہ ایف بی آر کے افسران دس روپے جیب میں ڈال کر سرکار کے ہزار روپے کا سودا کرنے پر کمر باندھے بیٹھے ہیں۔
ہاں! نااہلی‘ بدانتظامی اور نالائقی کی بنیاد پر اگر نجکاری کرنا ہے تو سب سے پہلے حکومت کو پرائیوٹائز کر دیا جائے کہ اس ملک میں ہر بدانتظامی‘ نااہلی اور نالائقی کا ''کھرا‘‘ بالآخر حکومت کے دروازے پر پہنچتا ہے۔ اس حساب سے نجکاری کی سب سے زیادہ مستحق ہماری حکومت ہے۔ اگر اسے بیچا نہ جائے اور صرف ٹھیکے پر ہی دے دیا جائے تو نتائج کم از کم اس سے کہیں بہتر ہونگے جیسے فی الوقت ہیں۔ میرے خیال میں ملک کے سارے مسائل کا واحد حل حکومت کی نجکاری ہے۔ کر کے دیکھیں۔ نتائج ٹھیک نہ نکلے تو پیسے واپس Its money back guarantee نجکاری بالکل ٹھیک ہے لیکن نجکاری کرنے والوں کا ٹھیک ہونا اس سے بھی کہیں ضروری ہے اور ہمارے حکمران اس کام میں پہلے ہی کافی ''نیک نام‘‘ ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں