"KMK" (space) message & send to 7575

خلوص اور حماقتوں کا دنگل

حالانکہ پیپلز پارٹی پاناما لیکس کے مسئلے پر اپوزیشن کے لبادے میں چھپ کر اس مسئلے کو کسی حد تک اغوا بھی کر چکی ہے اور بقول خواجہ آصف عمران خان کو ''نُکرے‘‘ بھی لگا چکی ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ یہ سارا معاملہ صرف اور صرف عمران خان کی وجہ سے زندہ ہے۔ پاناما لیکس کے پاجامے میں جو واحد چھچھوندر گھسی ہوئی ہے اور جس کی وجہ سے میاں نوازشریف صاحب دو بار ٹی وی‘ ایک بار پارلیمنٹ میں اور اس کے بعد ایک دن میں تین جلسوں سے خطاب پر مجبور ہوئے ہیں وہ عمران خان ہے۔ باقی ساری اپوزیشن فی الحال تو میاں نوازشریف کی جیب میں پڑی ہوئی ہے؛ خواہ وہ خورشید شاہ ہو‘ اسفندیار ولی ہو‘ آفتاب شیر پائو ہو یا محترم المقام مرد مجاہد محمود خان اچکزئی ہوں ع
بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے
رہ گئے فضل الرحمن! تو وہ باقاعدہ خم ٹھونک کر میدان میں ہیں اور پاناما پیپرز کے بارے میں لب کشائی کرنے والوں کے اوپر بیٹھنے پر تلے ہوئے ہیں۔ بہت سے لوگ صرف اس خوف کے مارے اس بارے میں بولنے سے باقاعدہ ڈر گئے ہیں۔ 
ایک شخص رات دیر سے گھر آیا اور اپنی گرم مزاج بیوی کی پوچھ تاچھ سے بچنے کے لیے خاموشی سے گھر میں آ کر چپکے سے سو گیا۔ اسی رات ایک چور بھی رات گئے چوری کی نیت سے اس گھر میں آ گھسا۔ جب چور نے سامان وغیرہ کی تلاشی لینی شروع کی تو خاتون خانہ کی آنکھ کھل گئی۔ بہت زیادہ صحت کی حامل خاتون کا وزن قریب قریب ایک اشرفی کے برابر تھا۔ وزن کے اس نئے پیمانے 
کے مطابق ایک اشرفی دو سو کلو گرام کے برابر ہوتی ہے۔ اس کے جاگنے پر چور کو احساس ہوا کہ کوئی اٹھ بیٹھا ہے لہٰذا چور چھپنے کے لیے چارپائی کے نیچے گھس گیا۔ خاتون نے سمجھا کہ اس کا شوہر اس سے چھپنے کی غرض سے چارپائی کے نیچے گھس رہا ہے۔ خاتون نے حیرت ناک پھرتی کا ثبوت دیتے ہوئے چارپائی کے نیچے گھستے ہوئے چور کو کمر سے دبوچ کر باہر نکالا اور زمین پر پٹخنے کے بعد جب دیکھا تو وہ اس کے شوہر کے بجائے کوئی اور شخص تھا۔ خاتون نیچے گرے ہوئے خوفزدہ چور کے اوپر چڑھ کر بیٹھ گئی اور آواز لگائی: اوئے بشیر! کتھے ویں؟ (اوئے بشیر! کہاں ہو) اس کا شوہر اسی اثناء میں اٹھ بیٹھا تھا اور سارا منظر دیکھ رہا تھا۔ اپنی اہلیہ کی آواز سن کر وہ چونکا اور کہا کہ وہ یہاں ہے۔ خاتون خانہ نے اسے ہدایت دی کہ وہ فوری طور پر تھانے جائے اور پولیس کو اپنے ساتھ لے کر آئے تاکہ چور کو حوالہ پولیس کیا جا سکے۔ شوہر بادل نخواستہ اٹھا اور ادھر ادھر ٹہلنے لگ گیا۔ خاتون خانہ نے پوچھا: بشیر کیا کر رہے ہو؟ شوہر نے نیم مردہ آواز میں کہا کہ میں کپڑے تبدیل کر رہا ہوں‘ اب اس طرح پاجامے اور بنیان میں تو تھانے نہیں جا سکتا۔ دو چار منٹ کے توقف کے بعد خاتون نے پھر آواز لگائی: بشیر! کہاں ہو؟ بشیر نے جواب دیا: یہیں ہوں اور جوتا ڈھونڈ رہا ہوں۔ خاتون خانہ کے نیچے دبے ہوئے چور نے انتہائی 
اذیت بھری آواز میں کہا: بشیر صاحب! میری جوتی پہن لیں اور جلدی سے تھانے جا کر پولیس کو لائیں تاکہ میری جان اس عذاب سے تو چھوٹے، آپ کو اللہ کا واسطہ ہے کہ راستے میں کہیں رکنا نہیں ورنہ اس جان کا خون آپ کے سر ہو گا۔
شاہ جی پوچھنے لگے اگر وزیراعظم صاحب کی طبیعت اتنی ناساز ہے کہ وہ ایک ماہ میں دو بار اپنے چیک اپ کے لیے لندن تشریف لے جا رہے ہیں تو وہ اپنی اس شدید بیماری کے عالم میں ایک دن میں تین جلسے کیسے کر لیتے ہیں؟ میں نے کہا شاہ جی! آپ سید بادشاہ ہیں، آپ سے زیادہ اس طرح کے معاملات سے کون آگاہ ہو سکتا ہے؟ آپ ہم جیسے عام تام قسم کے لوگوں سے اس طرح کے سوالات کیوں کرتے ہیں؟ راہ سلوک کی منزلوں کے بارے میں آپ مجھ جیسے کورے آدمی سے کس طرح کے مشکل سوالات کر رہے ہیں؟ بھلا مجھے اس قسم کی باتوں کے بارے میں کیا پتا؟ اگر آپ اس عاجز سے سوالات کرنے کے بجائے ازخود ہی ان مسائل کے بارے تھوڑی روشنی ڈال دیں تو بندہ آپ کا شکرگزار ہو گا۔ شاہ جی مسکرائے اور کہنے لگے تم بڑے ''کھچرے‘‘ ہو گئے ہو اور مجھے مکھن لگا کر نہ صرف سوال کا جواب دینے سے بچ رہے ہو بلکہ الٹا مجھ سے جواب مانگ رہے ہو۔ 
دراصل میاں صاحب کی طبیعت کی خرابی صرف اور صرف پاناما پیپرز کی وجہ سے ہے۔ انہیں زندگی بھر ایسے گھٹیا قسم کے سکینڈل سے پہلے کبھی واسطہ نہیں پڑا تھا۔ پہلے جتنے بھی معاملات تھے بڑے لوکل قسم کے تھے اور ان کا علاج بھی مقامی تھا۔ اپنے اسحاق ڈار صاحب قبلہ جو پہلے ان کے چیف اکائونٹنٹ یا فنانس منیجر ٹائپ ہوتے تھے ترقی کرتے کرتے ان کے صنعتی گروپ کے مالی معاملات کے مدار المہام بن گئے۔ ٹیکس کے معاملات‘ بینکوں کے قرضے‘ قرضوں کی ری شیڈولنگ‘ اوور انوائسنگ اور انڈر انوائسنگ جیسے نازک معاملات کو حل کرنے میں ید طولیٰ رکھنے کے باعث پہلے ان کی کاروباری ضرورت بنے اور پھر رشتے دار بن گئے۔ وہ ان کے تمام ایسے مقامی معاملات کو بخوبی ہینڈل کر لیتے تھے، رہی سہی کسر یہ بات نکال دیتی تھی کہ انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے؛ تاہم اس بار معاملہ کافی گڑ بڑ ہے حالانکہ مولانا فضل الرحمن اس معاملے کو میاں صاحب کی حکومت کے خلاف سازش قرار دے رہے ہیں مگر پاناما پیپرز کا معاملہ اتنا وسیع اور بین الاقوامی ہے کہ اس کی زد میں سینکڑوں نہیں ہزاروں لوگ آ رہے ہیں؛ لہٰذا اسے صرف میاں صاحب کے خلاف سازش کہنے والوں کی نہ تو بات میں وزن ہے اور نہ ہی ان کی ایسی بات کو کوئی سنجیدگی سے لے رہا ہے۔ میاں صاحب اپنی سیاسی زندگی میں پہلی بار بری طرح پھنسے ہیں۔
سچ کے بارے میں پرانی کہاوت ہے کہ اسے یاد نہیں کرنا پڑتا۔ سچ صرف سچ ہوتا ہے البتہ جھوٹ بول کر اسے یاد رکھنا پڑتا ہے۔ لیکن جھوٹ کے ساتھ وابستہ سوالات بالآخر جھوٹ کا پول کھول دیتے ہیں اور جب کسی جھوٹ کے ساتھ بہت سے لوگ وابستہ ہوں تو جھوٹ کی یہ ہنڈیا بیچ چوراہے کے پھوٹتی ہے۔ میاں صاحب کچھ فرما رہے ہیں، مریم بی بی کچھ کہہ رہی ہے، حسین نواز کا بیان کچھ اور ہے، حسن نوازشریف الحمد للہ‘ الحمد للہ کہہ کر کچھ اور فرما رہے ہیں اور محترمہ کلثوم نوازشریف کا بیان مختلف ہے۔ وزیر صفائی کا بیان بلکہ بیانات بالکل ہی مختلف ہیں اور وہ اپنے تابڑ توڑ صفائی کے بیانات میں ایسے ایسے الزامات اور ایسی ایسی صفائیاں دے رہے ہیں کہ عقل مائوف ہوئی جا رہی ہے۔ فرماتے ہیں، عمران خان نے 1983ء میں شوکت خانم کے چندے سے لندن میں گھر خریدا تھا۔ میرے دوست کو یاد ہی نہیں رہا کہ 1983ء میں شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال کا وجود ہی نہیں تھا کیونکہ ابھی شوکت خانم صاحبہ حیات تھیں اور شوکت خانم ہسپتال کا تصور شاید عمران خان کے ذہن میں بھی نہیں ہو گا۔ ایک جھوٹ کو نبھانے کی ذمہ داری جب زیادہ لوگوں کے سر پڑ جائے تو پھر وہی ہوتا ہے جو پاناما پیپرز کے معاملے میں حکمران خاندان کررہا ہے۔ (باقی صفحہ13 پر)
کسی کا بیان ہے جدہ کی مل بیچ کر فلیٹ خریدے تھے حالانکہ جدہ کی مل بعد میں فروخت ہوئی اور فلیٹ پہلے خریدے گئے۔ ایک برخوردار کا بیان ہے کہ فلیٹ کرائے پر ہیں اور ہر دو تین ماہ بعد کرایہ پاکستان سے آتا ہے۔ دوسرا برخوردار الحمد للہ کا ورد کرتے ہوئے انکشاف کرتا ہے کہ ان فلیٹس کا مالک ''یہ خادم‘‘ ہے اور ان آف شور کمپنیوں کی مالک ان کی ہمشیرہ ہیں۔ ادھر اس برخوردار کی ہمشیرہ کسی قسم کی جائیداد وغیرہ کی ملکیت سے قطعاً انکاری ہیں۔ اہلیہ محترمہ فرماتی ہیں کہ یہ فلیٹس ان کی حق حلال کی کمائی سے خریدے گئے ہیں۔ اب بندہ پریشان نہ ہو تو کیا کرے؟
معاملہ اب اسحاق ڈار کے بس سے باہر ہے اور اصل پریشانی یہی ہے کہ پہلی بار ان کا ''امرت دھارا‘‘ یعنی اسحاق ڈار صاحب بالکل بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں۔ اب پریشانی میں طبیعت خراب نہ ہو تو کیا ہو؟ اسی طبیعت کی خرابی کو سہارا دینے کے لیے دو بار ٹی وی پر خطاب کیا مگر بات نہیں بنی۔ اسی ناسازی طبع کے باعث پہلے لندن یاترا کی گئی مگر افاقہ نہیں ہوا۔ اسی خرابی کے باعث اسمبلی میں تقریر کرنا پڑی مگر سات سوالات کی جگہ ستر سوالات نے لے لی۔ اسی وجہ سے ایک دن میں تین جلسوں سے خطاب کیا اور اب اسی خرابی صحت کے باعث دوبارہ لندن یاترا کو جانا پڑا ہے۔ شاید اس بار ''مرشد کامل‘‘ سے ملاقات ہو جائے اور بگڑی بات بن سکے؛ حالانکہ مرشد کامل کا نمائندہ خورشید شاہ آدھا میلہ ہائی جیک کر چکا ہے اور بقیہ آدھا میلہ عمران خان اپنی حماقتوں کے طفیل برباد کرنے پر تلا ہوا ہے، مگر انہی پہاڑ جیسی غلطیوں کے باوجود اب بھی پاناما پیپرز کا معاملہ اگر موجود ہے تو اس کا باعث بھی صرف اور صرف عمران خان ہے۔
یہ بات حقیقت ہے کہ پاناما پیپرز کے معاملے میں ساری اپوزیشن ماسوائے عمران خان اور جماعت اسلامی اندر کھاتے میاں نوازشریف سے ملی ہوئی ہے اور خورشید شاہ اس سارے معاملے میں میاں نوازشریف کو تقویت اور عمران خان کو ٹھسہ کروا رہا ہے۔ جماعت اسلامی کے ٹی او آرز بھی دراصل مسلم لیگ نون کے ٹی او آرز کی طرح اتنے پھیلے ہوئے ہیں کہ ان کا فائدہ بھی بالواسطہ طور پر میاں نوازشریف کو ہو رہا ہے۔ سراج الحق بھی جس قسم کا احتساب چاہتے ہیں وہ فی الوقت تو ممکن نہیں اور یہی چیز میاں نوازشریف کو فائدہ پہنچا رہی ہے۔
اس وقت میاں صاحب کے گلے میں صرف عمران خان ہڈی کی طرح پھنسا ہوا ہے اور باقی اپوزیشن کے بارے میں میاں صاحب کو رتی برابر پروا نہیں کہ ان کی تقریر کا آغاز عمران خان سے ہوتا ہے اور اختتام بھی۔ پرویز رشید کی صبح عمران خان کی مذمت سے طلوع ہوتی ہے اور دن عمران خان کی مذمت میں غروب ہوتا ہے۔ بقیہ ساری بینڈ ویگن یہی کچھ کر رہی ہے۔ اگر پاناما پیپرز کے معاملے میں کوئی اور پارٹی میاں صاحب کے لیے باعث تکلیف ہوتی تو مسلم لیگ کا کڑچھا گروپ کسی کی تو مذمت کرتا، کسی کو تو برا بھلا کہتا۔ ساری توپوں کا رُخ صرف عمران خان کی طرف ہے جو ثابت کرتا ہے کہ حکمرانوں کے نزدیک اپوزیشن صرف عمران خان پر مشتمل ہے۔
اس ساری بری صورتحال میں حکمرانوں کے لیے واحد چیز جو باعث تسلی ہے وہ عمران خان خود ہے کہ ٹھیک وقت پر غلط فیصلے کرنے میں اس کا کم از کم موجودہ دور میں تو کوئی ثانی نہیں۔ اس کا واحد ہتھیار اس کا خلوص ہے مگر خلوص اور حماقتوں کا دنگل زیادہ دیر تک چلے تو حماقتیں خلوص پر حاوی ہو جاتی ہیں۔ اللہ ای خیر کرے۔
کسی کا بیان ہے جدہ کی مل بیچ کر فلیٹ خریدے تھے حالانکہ جدہ کی مل بعد میں فروخت ہوئی اور فلیٹ پہلے خریدے گئے۔ ایک برخوردار کا بیان ہے کہ فلیٹ کرائے پر ہیں اور ہر دو تین ماہ بعد کرایہ پاکستان سے آتا ہے۔ دوسرا برخوردار الحمد للہ کا ورد کرتے ہوئے انکشاف کرتا ہے کہ ان فلیٹس کا مالک ''یہ خادم‘‘ ہے اور ان آف شور کمپنیوں کی مالک ان کی ہمشیرہ ہیں۔ ادھر اس برخوردار کی ہمشیرہ کسی قسم کی جائیداد وغیرہ کی ملکیت سے قطعاً انکاری ہیں۔ اہلیہ محترمہ فرماتی ہیں کہ یہ فلیٹس ان کی حق حلال کی کمائی سے خریدے گئے ہیں۔ اب بندہ پریشان نہ ہو تو کیا کرے؟
معاملہ اب اسحاق ڈار کے بس سے باہر ہے اور اصل پریشانی یہی ہے کہ پہلی بار ان کا ''امرت دھارا‘‘ یعنی اسحاق ڈار صاحب بالکل بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں۔ اب پریشانی میں طبیعت خراب نہ ہو تو کیا ہو؟ اسی طبیعت کی خرابی کو سہارا دینے کے لیے دو بار ٹی وی پر خطاب کیا مگر بات نہیں بنی۔ اسی ناسازی طبع کے باعث پہلے لندن یاترا کی گئی مگر افاقہ نہیں ہوا۔ اسی خرابی کے باعث اسمبلی میں تقریر کرنا پڑی مگر سات سوالات کی جگہ ستر سوالات نے لے لی۔ اسی وجہ سے ایک دن میں تین جلسوں سے خطاب کیا اور اب اسی خرابی صحت کے باعث دوبارہ لندن یاترا کو جانا پڑا ہے۔ شاید اس بار ''مرشد کامل‘‘ سے ملاقات ہو جائے اور بگڑی بات بن سکے؛ حالانکہ مرشد کامل کا نمائندہ خورشید شاہ آدھا میلہ ہائی جیک کر چکا ہے اور بقیہ آدھا میلہ عمران خان اپنی حماقتوں کے طفیل برباد کرنے پر تلا ہوا ہے، مگر انہی پہاڑ جیسی غلطیوں کے باوجود اب بھی پاناما پیپرز کا معاملہ اگر موجود ہے تو اس کا باعث بھی صرف اور صرف عمران خان ہے۔
یہ بات حقیقت ہے کہ پاناما پیپرز کے معاملے میں ساری اپوزیشن ماسوائے عمران خان اور جماعت اسلامی اندر کھاتے میاں نوازشریف سے ملی ہوئی ہے اور خورشید شاہ اس سارے معاملے میں میاں نوازشریف کو تقویت اور عمران خان کو ٹھسہ کروا رہا ہے۔ جماعت اسلامی کے ٹی او آرز بھی دراصل مسلم لیگ نون کے ٹی او آرز کی طرح اتنے پھیلے ہوئے ہیں کہ ان کا فائدہ بھی بالواسطہ طور پر میاں نوازشریف کو ہو رہا ہے۔ سراج الحق بھی جس قسم کا احتساب چاہتے ہیں وہ فی الوقت تو ممکن نہیں اور یہی چیز میاں نوازشریف کو فائدہ پہنچا رہی ہے۔
اس وقت میاں صاحب کے گلے میں صرف عمران خان ہڈی کی طرح پھنسا ہوا ہے اور باقی اپوزیشن کے بارے میں میاں صاحب کو رتی برابر پروا نہیں کہ ان کی تقریر کا آغاز عمران خان سے ہوتا ہے اور اختتام بھی۔ پرویز رشید کی صبح عمران خان کی مذمت سے طلوع ہوتی ہے اور دن عمران خان کی مذمت میں غروب ہوتا ہے۔ بقیہ ساری بینڈ ویگن یہی کچھ کر رہی ہے۔ اگر پاناما پیپرز کے معاملے میں کوئی اور پارٹی میاں صاحب کے لیے باعث تکلیف ہوتی تو مسلم لیگ کا کڑچھا گروپ کسی کی تو مذمت کرتا، کسی کو تو برا بھلا کہتا۔ ساری توپوں کا رُخ صرف عمران خان کی طرف ہے جو ثابت کرتا ہے کہ حکمرانوں کے نزدیک اپوزیشن صرف عمران خان پر مشتمل ہے۔
اس ساری بری صورتحال میں حکمرانوں کے لیے واحد چیز جو باعث تسلی ہے وہ عمران خان خود ہے کہ ٹھیک وقت پر غلط فیصلے کرنے میں اس کا کم از کم موجودہ دور میں تو کوئی ثانی نہیں۔ اس کا واحد ہتھیار اس کا خلوص ہے مگر خلوص اور حماقتوں کا دنگل زیادہ دیر تک چلے تو حماقتیں خلوص پر حاوی ہو جاتی ہیں۔ اللہ ای خیر کرے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں