"KMK" (space) message & send to 7575

ایدھی صاحب کی رخصتی اور احمد جاوید کا ایک فقرہ

یہ قوم شاذ و نادر ہی کسی بات پر اتفاق کرتی ہے۔ عبدالستار ایدھی کی وفات ایسا ہی ایک سانحہ تھا جس پر تقریباً ہر طبقہ دکھی ‘ملول اور غمزدہ نظر آیا اور ایدھی کی فلاحی کاموں کے حوالے سے سرکار کی کارکردگی اور ذمہ داریوں سے اغماز پر طعنہ زن بھی۔ میں نے قوم کے اتفاق پر لفظ 'تقریباً ‘ لکھا ہے کہ صرف مذہبی طبقہ اس اتفاق رائے سے علیحدہ نظر آیا۔ اسے عبدالستار ایدھی کے مقام و مرتبے پر تو کوئی فرق نہیں پڑا البتہ یہ ضرور ہوا کہ ان کے غیر متعلق ہو جانے سے یہ سارا معاملہ ان لوگوںنے ہائی جیک کر لیا جو کسی نہ کسی بہانے سے مذہب کو لتاڑنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ ایسے ایسے ایس ایم ایس چلے کہ عام حالات میں کسی کی شاید جرأت نہ ہو گی ‘مگر موقع ہی کچھ ایسا تھا کہ لوگوں نے جذباتی فضا میں سب کچھ قبول کر لیا۔ مثلاً '' انسانیت سب سے بڑا مذہب ہے‘‘ ...''میں اگلے جہان ایدھی کے مذہب پر اٹھایا جانا پسند کروںگا‘‘ یا ''کون سا فرقہ جنت میں جائے گا؟ صرف عبدالستار ایدھی والا‘‘۔
ہم بیک وقت دو المیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ پہلا یہ کہ ہمارا مولوی دین کی حقیقی تشریح کرنے میں ناکام ہے‘ ایسے دین کی تشریح کرنے میں‘ جس میں انسانیت سب سے افضل ہے۔ جہاں حقوق اللہ سے زیادہ زور حقوق العباد پر دیا گیا ہے۔ جہاں عبادات چھوڑنے کی معافی ہے مگر معاملات میں زیادتی پر معافی کا اختیار مالک کائنات نے اپنے بجائے متاثرہ شخص کے ہاتھ میں دے دیا۔ جس دین میں انسانی حرمت اور خدمت کا درجہ اتنا بلند کیا کہ اسے بذات خود عبادت جیسا مقام عطا کیا۔ یہی وہ چیز تھی جس نے اسلام کو مذہب کے عام درجے سے اٹھا کر دین کے اعلیٰ و ارفع مقام پر فائز کر دیا۔
دوسرا المیہ یہ ہوا کہ مولوی کی غلط تشریح کے مقابلے پر لادین اور لبرل طبقے نے جواباً اپنی مرضی کی تشریح شروع کر دی‘ جس میں تشریح سے زیادہ مقصد مذہبی معاملات کو رگیدنا ‘ مذہبی طبقے کی جہالت کے طفیل مذہب کی نفی کرنا اور خوبصورت الفاظ کے ساتھ لوگوں کو گمراہ کرنے کا فریضہ سر انجام دینا تھا۔ اس کے لیے لبرل طبقے کے سامنے میدان کھلا تھا کہ مقابلے پر موجود مولوی بذات خود دین کو مذہب بنانے پر تلا ہوا تھا۔ ہمہ وقت ہمارے اعمال کو بنیاد بنا کر دوزخ کی ''نوید‘‘ سنانے والے مولوی نے اپنا سارا زور عبادات پر لگا دیا اور اسی کو بنیاد بنا کر گناہ گاروں میں جہنم کے سرٹیفکیٹ تقسیم کرنے شروع کر دیئے اور دین اسلام کے ایک بہت اہم بلکہ دنیا بھر کے باقی مذاہب سے بالکل علیحدہ تشخص دے کر اسے دین بنانے والے لوازمات سے یکسر چشم پوشی کر لی۔ ایدھی کے معاملے میں ہمارا مذہبی طبقہ تھوڑا متشدد تھا اور مجھے اس کی واحد وجہ جو سمجھ آتی ہے وہ چندے کا معاملہ تھا۔ چندہ برصغیر میں صدیوں سے مولوی کا حق سمجھا جاتا تھا بلکہ مولوی اسے اپنا حق سمجھتا تھا اور اس میں کسی کی حصہ داری کو وہ اپنے اس حق پر ڈاکہ تصور کرتا تھا۔ اس حساب سے ایدھی ایک بہت بڑا ''ڈاکو‘‘ تھا مولوی کا ایدھی سے جھگڑا دین کا‘ مذہب کا‘ عبادت کا یا اسلام کا نہیں تھا چندے کا تھا۔
دوسری طرف اسلام کے مقابلے میں انسانیت کو مذہب قرار دینے والوں کا مسئلہ بھی مولوی جیسا ہے۔ ان کا مسئلہ چندہ نہیں‘ غیر ملکی فنڈنگ کا ہے۔ این جی اوزکو ملنے والی امداد کا ہے۔ غیر ملکی آقائوں کی خوشنودی کا ہے اور مذہب کو معاشرے میں بے توقیر کرنے کا ہے۔ ان کی روزی اسی میں ہے اور ان کا رزق بھی اسی سے وابستہ ہے۔''انسانیت تمام مذاہب سے بالاتر ہے‘‘۔۔۔۔ یہ جملہ بظاہر بڑا خوشنما لگتا ہے مگر یہ جملہ بنیادی طور پر مذہب کو ٹیکنیکل ناک آئوٹ کرنے کے مترادف ہے۔ مذہب اور انسانیت کو اس جملے میں متحارب قوتوں کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ مذاہب عالم کے سلسلے میں یہ عاجز کچھ کہنے سے معذور ہے مگر دین اسلام کے سلسلے میں یہ جملہ نہ صرف یہ کہ سرے سے غلط ہے بلکہ باقاعدہ گناہ ہے کہ اسلام کو مذہب سے اوپر اٹھا کر دین بنانے میں مرکزی کردار ہی اس انسانی تکریم کا ہے جسے اللہ اور اس کے رسولؐ نے بے شمار مرتبہ بیان کیا اور اس پر اتنا زور دیا کہ صرف ہمسائے کے حقوق پر شفیع المذنبین کے فرمان پر صحابہؓ نے کہا ہمیں ڈر پیدا ہو گیا کہ کہیں ہمسائے کو ہماری جائیداد میں حصہ دار نہ بنا دیا جائے۔ زکوٰۃ کو ضرورت مند رشتہ داروں‘ عزیز و اقارب‘ یتامیٰ ، غرباء اور مساکین میں تقسیم کرنے کو پانچ بنیادی ارکان اسلام میں شامل کیا۔
مدینے کی گلیوں میں گھومتے ہوئے خلیفۃ المسلمین جناب عمر فاروقؓ کی نظر ایک بوڑھے اور نابینا فقیر پر پڑی۔ آپؓ رک گئے اور پوچھا کہ یہ بوڑھا اور نابینا شخص خیرات کیوں مانگ رہا ہے؟ اس کا بیت المال سے اب تک وظیفہ کیوں نہیں لگایا گیا؟ جواب ملا کہ اے ابن خطاب ! یہ بوڑھا یہودی ہے اور مدینہ کا رہائشی نہیں بلکہ ساتھ والی کسی بستی کا رہنے والا ہے۔ جناب عمر فاروقؓنے یہ سنا تو آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ کہنے لگے یہ کیسے ممکن ہے کہ اسلامی حکومت ہو‘ عمر خلیفہ ہو‘ جوانی میں اس نے ہمیںجزیہ دیا ہو اور بڑھاپے میں خیرات مانگے؟ اس کا بیت المال میں سے وظیفہ مقرر کیا جائے اور اس کے گھر پہنچایا جائے۔ یہ انسانیت ہمیں ہمارا دین سکھاتا ہے اور یہ انسانیت دین اسلام کا حصہ ہے۔
جب انسانیت دین اسلام کا حصہ ہو تو بھلا انسانیت اس دین سے بڑھ کر کیسے ہو سکتی ہے جو انسانیت کے بغیر مکمل ہی نہ سمجھا جاتا ہو؟ بھلا جُز کُل سے کیسے بڑا ہو سکتا ہے؟ اگر مولوی دین کی تشریح درست نہ کر رہا ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ انتقاماً اس سے زیادہ غلط تشریح کی جائے۔
ایدھی شاید اس دور میں وہ واحد آدمی تھا جو دین اسلام میں انسانیت کی اہمیت اور مقام سے حقیقی آگاہی رکھتا تھا۔ وہ اسلام کا عالم نہ سہی مگر عامل ضرور تھا۔ اس کے مسلمان ہونے کے لیے اس کا کلمہ گو ہونا ہی کافی تھا اور ایک بہترین مسلمان ہونے کے لیے اس کے معاملات ہی کافی تھے۔ اللہ کے ہاں کسی اعلیٰ مقام کے لیے کسی کو بھی دنیا میں مذہب کے ٹھیکیداروں سے کسی سرٹیفکیٹ کی نہ تو ضرورت ہے اور نہ ہی یہ سرٹیفکیٹ وہاں کام آئیں گے جہاں ہم سب نے جانا ہے۔ وہاں عالم الغیب جو علیم و خبیر ہے اور سب جانتا ہے‘ کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں کرے گا۔ اعمال کا سارا حساب اس کے اپنے نظام کے مطابق بنایا گیا ہے اور دنیا داروں کی طرف سے عطا کئے گئے شہادت اور کفر کے فتوے اسی فانی دنیا میں رہ جائیں گے۔
ایدھی چلا گیا اور ہم نے بھی یہاں بیٹھے نہیں رہنا۔ کسی نے آج‘ کسی نے کل چلا جانا ہے۔ سورۃ غاشیہ کی آیات اکیس سے چھبیس تک اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوبؐ کو مخاطب کر کے فرمایا: ''تو آپؐ نصیحت کرتے رہو کہ آپؐ نصیحت کے واسطے ہی ہیں۔ آپؐ ان پر کوئی داروغہ نہیں ۔ ہاں ! جس نے منہ پھیرا اور نہ مانا تو خدا اس کو بڑا عذاب دے گا۔ بے شک ان کو لوٹ کر ہمارے پاس آنا ہے اور پھر ان کا حساب ہمیں نے لینا ہے‘‘۔ ایک طرف یہ عالم ہے کہ اللہ قادر مطلق اپنے محبوبؐ کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ آپ صرف نصیحت کے واسطے ہیں اور زور زبردستی نہیں کر سکتے ‘ادھر یہ عالم ہے کہ ہم اپنی مرضی کی تشریحات کو منوانے کے لیے زور زبردستی سے شروع ہوتے ہیں اور تکفیر کے فتوے تک پہنچ جاتے ہیں۔ دوسری طرف یہ عالم ہے کہ ہر طرح سے اسلام کا چہرہ مسخ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اگر ایک طرف اسلام کے نام نہاد دعویدار اپنی کم علمی‘ تنگ نظری‘ دین سے ناآگاہی اور اپنی محرومیوں کے طفیل دین کی حقیقت صورت کوپیش کرنے میں ناکام ہیں تو دوسری طرف لا دین اور لبرل طبقے کے دکاندار اپنے ذاتی تعصب‘ اسلام دشمنی‘ غیر ملکی روزی روٹی‘ بیرونی آقائوں کی خوشنودی اور نام نہاد شخصی آزادی کے نام پر دین و مذہب کو سوسائٹی سے مکمل خارج کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور اس کشمکش میں عام آدمی سوائے کنفیوژ ہونے کے اور کچھ نہیں کر پا رہا۔
ایک ایس ایم ایس آیا کہ آخر ایدھی کے جنازے میں کوئی قابل ذکر دینی رہنما کیوں موجود نہیں تھا؟ اس کے ساتھ ہی ایک فہرست تھی کہ ایدھی کے جنازے میں ان لوگوں میں سے کسی ایک نے بھی شرکت نہیں کی۔ اس فہرست میں کون سا بڑانام ہے جو شامل نہیں؟ ایک اور ایس ایم ایس آیا جس میں شکوہ ہے کہ سارا جنازہ خاکی وردی والوں نے اغوا کر لیا تھا۔ ان دو سوالوں کے درمیان اور بھی بہت کچھ ہے جو سب کو نظر آ رہا ہے مگر کسی کو بولنے کا یارا نہیں۔ ایک دوست کو جو کسی لمحے فوج کو رگڑنے میں تامل نہیں کرتا‘ اس نے پوسٹ لگائی ہے کہ ایدھی صاحب نے منتخب حکومت الٹنے کے لیے جنرل (ر) حمید گل مرحوم وغیرہ کا آلہ کار بننے سے انکار کر دیا تھا‘ اب فوجی قیادت اس کی میت کو توپ گاڑی پر رکھ کر کیوں لائی ہے اور اسے یہ عزت کیوں دی ہے؟ اس پوسٹ کے نیچے ہی ایک اور دوست نے حامد میر کے ساتھ ایدھی صاحب کے ٹی وی انٹرویو کا چھوٹا سا کلپ لگادیا جس میں ایدھی صاحب کہہ رہے ہیں کہ منتخب حکومتیں پانچ سال کے لیے چلنی چاہئیں لیکن فی الوقت چھ ماہ کے لیے فوج حکومت سنبھال لے تاکہ پاکستان سے دولت لوٹ کر باہر لے جانے والوں سے یہ دولت وصول کر سکے۔ میرے ایک اور دوست کا کہنا ہے کہ ایدھی کے جنازے کی پہلی صف میں وہی کھڑے تھے جن سے ایدھی کو تھوڑی بہت توقعات تھیں۔ باقی سب سے تو وہ مکمل مایوس تھے۔ حامد میر کو انٹرویو دینے سے ایک دن پہلے ایدھی صاحب صدر آصف علی زرداری کو مل کر آئے تھے۔
سارا ملک ایدھی صاحب کی وفات پر اپنے اپنے حساب سے دکھ کا اظہار کر رہا ہے مگر یہ سب کچھ اس وقت تک بے فائدہ اور بے کار ہے جب تک قوم خود سادگی اختیار نہیں کرتی‘ اپنے سے کم وسیلہ لوگوں کا درد محسوس نہیں کرتی‘ اپنی ذات سے نکل کر قربانی کا جذبہ پیدا نہیں کرتی‘ اپنی فالتو دولت میں سے حسرت زدہ طبقے کو اس کا حصہ نہیں دیتی‘ نبی آخر الزمان ﷺکے فرمان کے مطابق یتیم کے سر پر ہاتھ نہیں رکھتی‘ غریبوں کے لیے اپنی دولت میں سے خرچ نہیں کرتی‘ اپنی ضرورت سے زائد دولت خیرات نہیں کرتی‘ بھوکے ہمسائے کادرد محسوس نہیں کرتی‘ معاشرے کے ٹھکرائے اور رد کئے گئے طبقے کے لیے سائبان نہیں بنتی؛ سارا دکھ‘ ملال‘ غم و اندوہ اور خراج تحسین زبانی جمع خرچ سے آگے کچھ نہیں۔ بابر جمیل نے ایس ایم ایس بھیجا ہے کہ ''ایک وہ تھا جو جاتے جاتے آنکھیں عطیہ کر گیا اور ایک وہ ہیں جو آتے آتے بھی تیس کروڑ کا ٹیکا لگا گئے‘‘۔ حکمرانوں سے امیدیں وابسطہ کرنا سب کا حق ہے لیکن بقول احمد جاوید: ''اچھا آدمی بننے کی ذمہ داری کو اچھے نظام کی آمد تک معطل نہیں رکھا جا سکتا‘‘۔ معاشرے کی بہتری کا حل اسی ایک جملے میں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں