"KMK" (space) message & send to 7575

پھر وہی پرانا قصہ

شکر ہے میرے مالک کا جس نے مایوس ہونے کے بجائے نئے عزم اور حوصلے کے ساتھ جدوجہد کرنے کی توفیق عطا کی ہے۔ میں مسلسل دیوار سے سر پھوڑنے کو عزم و حوصلہ نہیں حماقت جانتا ہوں اور اس لیے دیوار کو ایک دوبار ٹکرمارنے کے بعد کوئی نیا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ مقدور بھر اور ممکنہ حد تک زور لگانے کے بعد بھی جب کوئی چیز یا شخص اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہو تو پھر وہی ناکام اور نامراد لائحہ عمل جاری رکھنا پاگل پن ہے اور بالکل مایوس ہو کر گھر بیٹھ جانا ایک اور سنگین غلطی ہے۔ درمیان میںکوئی اور راستہ نکالنا چاہیے۔ لائحہ عمل میں تبدیلی کرنی چاہئے۔ اپنی کوششوں کو دوسرا رخ دینا چاہیے۔ مایوس ہونے کے بجائے متبادل پر غور کرنا چاہئے اور جس حد تک ممکن ہو اپنے ہدف کے نزدیک رہتے ہوئے نتائج حاصل کرنے کی سعی کرنی چاہئے۔ اپنے مقصد میں ناکامی کا مطلب یہ نہیں کہ باقی سب دروازے بھی بند ہو چکے ہیں۔ ترجیحات کی درجہ بندی کی جائے اور ایک راستہ بند ہونے پر دوسرا، تیسرا اور چوتھا راستہ تلاش کیا جانا چاہئے۔ جدوجہد اور عزم و حوصلہ دراصل مسلسل کوششوں کا نام ہے، ایسی کوششیں جس میں آپ مایوس ہو کر ہتھیار ڈالنے کے بجائے ایک ناکامی کے بعد دوسری کوشش کسی نئے پہلو سے اور تیسری کوشش کسی نئے زاویے سے کرتے رہیں۔
ملتان میں میٹرو تقریباً نوے فیصد مکمل ہو چکی ہے اور بقیہ کی تکمیل کے لیے دن رات کام ہو رہا ہے۔ اس عاجز نے مقدور بھر کوشش کی کہ ملتان میں میٹرو کی جگہ چند نئے تعلیمی ادارے بنیں جو تعلیمی لحاظ سے پسماندہ علاقے کی ترجیحات میں سے ایک ہے۔ نئے ہسپتال بنیں کہ ساٹھ کی دہائی کے بعد ملتان میں ایک بھی Tertiary Care ہسپتال نہیں بنا۔ ایک لے دے کر نشتر ہسپتال ہے جس کی حالت اتنی ناگفتہ بہ ہے کہ صرف اسی ایک موضوع پر کئی کالم لکھے جاسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے ڈاکٹر جمال بھٹہ کو جس نے دن رات سر پر کھڑے ہو کر اس کی تعمیر کروائی اور اس اعلیٰ پیمانے کی کروائی کہ آج ساٹھ سال گزرنے کے باوجود عمارت اپنی پوری آب و تاب اور مضبوطی کے ساتھ جمی کھڑی ہے وگرنہ اگر ٹھیکیداروں کے حوالے کر دی جاتی تو مرمت وغیرہ میں فنڈز غتربود کرنے کا جو حال ہے یہ عمارت اب تک ملبے کا ڈھیر بن چکی ہوتی۔ خیر عمارت تو موجود ہے مگر بقیہ کے معاملے میں بدترین حد تک بربادی ہوچکی ہے۔ انتظامی طور پر تو باقی ہسپتالوں کی طرح ہی بدانتظامی کی آخری سطح پر ہے۔ مشینری پرانی اور متروک ہے۔ سینئر پروفیسر ریٹائر ہو کر گھر جا چکے ہیں اور دو چار جو باقی ہیں وہ گھر جانے والے ہیں۔ باقی ہسپتال کا اللہ حافظ ہے۔ عالم یہ ہے کہ نشتر میڈیکل کالج کے لیے کئی شعبہ جات میں سینئر پروفیسرز سرے سے موجود ہی نہیں۔ مرمت کا فنڈ اتنا کم ہے کہ خستہ حال مشینری کی دو ماہ کی ضرورت بھی پوری نہیں کرتا اور ختم ہو جاتا ہے۔ گیارہ سو بیڈ کے ہسپتال میں بستروں کی تعداد اٹھارہ سو کے لگ بھگ کرنے کے بعد حکومت سمجھتی ہے کہ کاغذوں میں بستر بڑھا کر اور ایک ایک وارڈ میں مزیدبارہ بارہ چودہ چودہ بیڈ ڈال کر اس نے اپنا فرض پورا کردیا ہے تو اس پر محض سر پیٹا جاسکتا ہے۔ ہسپتال کو فنڈز اسی گیارہ سو کے حساب سے مل رہے ہیں۔ ڈاکٹرز کی تعداد اسی گیارہ سو مریضوںکے حساب سے ہے۔ پیرا میڈیکل سٹاف اسی حساب سے ہے۔ اوپر سے جوڈاکٹر اور دیگر عملہ ہے وہ شتر بے مہار ہو چکا ہے۔ مریض جس کسمپرسی کا شکار ہیں اس کا اندازہ صرف ہسپتال میں آ کر ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ اتنی بے بسی اور لاچاری کہ الامان۔
سیوریج کا مسئلہ اتنا گمبھیر ہے کہ چند منٹ کی بارش سے سارا شہر جوہڑبن جاتا ہے۔ عام دنوں میں بھی چوتھائی شہر سیوریج کے پانی کا شکار رہتا ہے۔ پینے کا صاف پانی میسر نہیں اور اسی قسم کے دیگر بے شمار مسائل میںگھرے ہوئے ملتان میں کم از کم ماس ٹرانزٹ کا کوئی مسئلہ فی الحال اس طرح درپیش نہ تھا کہ میٹروبنا دی جاتی۔ اندرون شہر سڑکیں تنگ ہیں۔ وہ مسئلہ اسی طرح کھڑا ہے۔ تجویز دی کہ شہر کے اندر والا سرکلر روڈکھلا کردیا جائے۔ شہر میں بننے والے انر رنگ روڈ کو کشادہ کردیا جائے اور آئوٹررنگ روڈ کو مکمل کر دیا جائے تو شہر کی ٹریفک کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ مسئلہ ٹرانسپورٹ نہیں، سڑکیں ہیں۔اگر سڑکیں کھلی اور کشادہ کر دی جائیں تو یہاں پرائیویٹ سیکٹر اچھی ٹرانسپورٹ لے آئے گا۔ ملتان میں ایک روٹ پر جوکشادہ ہے ایک عدد نہایت عمدہ ایئر کنڈیشنڈ بس سروس چل رہی ہے۔ اگر دیگر روٹس کو بھی اسی طرح کھلا کر دیا جائے تو پرائیویٹ سیکٹر سے کئی لوگ اس سلسلے میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار ہیں مگر میاں شہباز شریف کا اس سلسلے میں اپنا کوئی نفسیاتی مسئلہ ہے کہ وہ ایسی چیزیں بنانا چاہتے ہیں جن کو ان کے نام سے یاد کیا جائے۔
میاں شہباز شریف کے پہلے دور حکومت میں ملتان کچہری چوک پر ٹریفک کے مسائل حل کرنے کے لیے تجویز آئی۔ شہریوں کی اکثریت کا خیال تھا کہ سڑک چوڑی کر دی جائے مگر لاہور سے فلائی اوور تعمیر کرنے پر زور تھا۔ اس وقت اس پراجیکٹ کے لیے ایک سروے کا اہتمام کیا گیا جس میں گزرنے والی ٹریفک کے حساب اور گنتی سے اندازہ لگانا مقصود تھا کہ چوک سے گزرنے والی ٹریفک کا کیا ٹرینڈ ہے؟ کتنی تعداد میں گاڑیاں چوک سے دائیں بائیں مڑتی ہیں اور کتنی گاڑیاں چوک سے سیدھا آگے نکل جاتی ہیں۔ غالباً یہ سروے نیسپاک نے کروایا۔ پہلے سروے کا جو حساب کتاب سامنے آیا اس کے مطابق تو زیادہ ٹریفک چوک پر ہی ادھر ادھر ہو جاتی تھی اور سیدھا جانے والی ٹریفک اتنی نہ تھی کہ اس کے لیے فلائی اوور بنایا جاتا۔ سروے کا نتیجہ یہی نکلتا تھا کہ سڑک کو کشادہ کیا جائے۔ پندرہ بیس دن بعد ایک اور سروے کروایا گیا۔ ان پندرہ بیس دن میں ہی ملتان شہر کی کچہری چوک سے گزرنے والی ٹریفک کے بہائو میں محیرالعقول تبدیلی ہوگئی اور چوک سے دائیں بائیں ہونے والی ٹریفک انتہائی کم ہوگئی اور سیدھا گزرنے والی ٹریفک میں ایک دم تیس چالیس فیصد اضافہ ہو گیا۔ پہلے سروے کو ردی کی ٹوکری میں ڈالا گیا حالانکہ وہ سروے ایک نہایت ہی اعلیٰ ریکارڈ کی حامل کمپنی نے کیا تھا اور دوسرا سروے قبول کرلیا گیا جو ایک گمنام سی کمپنی نے فرمائشی اعدادوشمار کے ساتھ کیا نہیں بلکہ بنایا تھا۔ سو وہاں فلائی اوور بنانے کا فیصلہ ہوا اور فلائی اوور بنا دیا گیا جو شہر میں شہباز شریف کے حوالے سے مشہور ہوگیا۔ اگر وہاں محض سڑک چوڑی کر دی جاتی تو ٹریفک کے مسائل کا حل تو نکل آتا اور سو ڈیڑھ سو سال قدیم یہ سڑک اپنے قدیم حوالے سے ہی پہچانی جاتی۔ اس پر کبھی میاں شہباز شریف کے نام کا ٹھپہ نہ لگ سکتا۔ میاں شہباز شریف کو صرف ایسے منصوبوں سے دلچسپی ہے جو دور سے نظر آئیں اور لوگ ان منصوبوں کوصرف اور صرف میاں شہباز شریف کے نام سے منسوب کرکے یاد کریں۔ میٹرو، اورنج ٹرین، انڈرپاس اورفلائی اوور۔ وہ پرانی سڑکوں پر اپنی صلاحیتیں اور پیسہ خرچ کرنے کو غالباً اسراف سمجھتے ہیں۔ ہاں لاہور کی بات دوسری ہے۔ وہاں ان کے پاس جہاںکوئی متبادل نہیں ہوتا وہاںپرانی سڑک کو نیا رنگ و روپ عطا کردیتے ہیں کہ لاہوریوں کی خوشنودی بہرحال ان کو عزیز ہے۔ جیل روڈ پر اربوں روپے لگا کر اسے سگنل فری بنا دیا گیا اور ملتان روڈ تیزی سے بننے کے مرحلے میں ہے۔ کوئی بتا رہا تھا کہ چوبرجی سے ٹھوکر نیاز بیگ تک یہ سڑک اب تک پانچ ارب روپے کھا چکی ہے۔ لاہور کوئی جنوبی پنجاب میں ہے؟
جب ملتان میں میٹرو کا ڈول ڈالا گیا تب اس عاجز نے اپنی مقدور بھر کوشش کی کہ اربوں روپے جواس نامطلوب پراجیکٹ پر صرف کرنے ہیں، اس رقم سے ملتان میں دو ہسپتال، دو تین اچھے تعلیمی ادارے، سیوریج اور صاف پانی کا اہتمام اور اندرون شہر سڑکوں کی کشادگی کا کام لے لیا جائے تو ملتان اور اہل ملتان کی آسانیوں میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس کے لیے میں نے کالم بھی لکھے اور ملاقاتیں بھی کیں۔ تحریری تجاویز بھی دیں اور مختلف میٹنگز میں شرکت بھی کی۔ ڈی سی او اور کمشنر کو بھی بریف کیا اور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی کاوشوں میں بھی حصہ ڈالا مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔
میں ابھی اپنی کوششیں جاری رکھتا مگر اسی دوران ایک دوست کے ہاں ایک اعلیٰ افسر سے ملاقات ہوگئی۔ ملتان میٹرو سے چلتی ہوئی بات راولپنڈی اسلام آباد والی میٹرو پر آ گئی۔ وہ کہنے لگا کہ میاں شہبازشریف صاحب میٹروکے بارے میں نہ صرف یہ کہ یکسو اور پختہ ارادے کے مالک ہیں بلکہ اس مسئلے پر باقاعدہ جذباتی ہیں۔ وہ صاحب بتانے لگے کہ میں وہاں خود موجود تھا اور ایک صاحب نے میاں صاحب سے کہا کہ میاں صاحب! کیا کوئی ایسا طریقہ ہے کہ آپ میٹرو بنانے کا ارادہ ترک کردیں؟ میاں صاحب نے ان صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہاں! ایک صورت ہے، اگر میں مرجائوں تو۔ جب میں نے یہ بات سنی تو آپ یقین کریں کہ ایک بار تو مجھے ٹھنڈا پسینہ آ گیا۔ میں نے اسی روز فیصلہ کیا کہ اب میٹرو کو رکوانا تو ممکن نہیں رہا، ہاں اس میں ہر ممکنہ بہتری کی کوشش کی جائے۔ تب میں نے دوسرے رخ پر کوششیں شروع کردیں۔ اب میری پہلی کوشش تو یہ تھی کہ میٹرو کی سڑک کو زمین کے بجائے ایلی ویٹڈ سٹرکچر پر تعمیر کروایا جائے۔(جاری ہے)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں