"KMK" (space) message & send to 7575

وچھوڑے کا درد‘ حامد علی بیلا اور شاہ حسین

لیں آج دوسرا اعتراف سن لیں۔ میری انگریزی بھی خاص اچھی نہیں ہے۔ یہ بات اپنی جگہ کہ انگریزی میں نمبر بہت برے نہیں آتے تھے مگر یہ سب درسی ماڈل ٹیسٹ پیپرز کا کمال تھا نہ کہ انگریزی زبان پر میری دسترس کے طفیل۔ اس کا احساس یونیورسٹی چھوڑنے کے بعد تقریباً ختم ہو کر رہ گیا۔ انگریزی بولنا ویسے بھی ہم ٹاٹ سکول کے پڑھے ہوئوں کا مستقل مسئلہ ہے۔ ہم لوگ پنجابی میں سوچتے ہیں۔ اسے اردو میں ترجمہ کرنے کے بعد انگریزی میں تبدیل کرتے ہیں۔ تب تک فریق ثانی کہیں کا کہیں پہنچ چکا ہوتا ہے۔ ہمارا موقف عموماً ان کہا ہی رہ جاتا ہے۔ البتہ انگریزی لکھنا زیادہ مسئلہ نہیں ہے لیکن جب سے میرے بچے انگریزی میڈیم سکول میں داخل ہوئے ہیں پتہ چلا ہے کہ ہماری انگریزی کی لکائی بھی بڑی پرانی‘ متروک اور گھسی پٹی رہ گئی ہے۔ ایمانداری کی بات ہے کہ یہ چیز بیک وقت اچھی بھی لگتی ہے کہ کم از کم اس انگریزی زدہ معاشرے میں‘ جہاں قابلیت کا معیار انگریزی رہ گیا ہو اور لوگ یہ کہیں کہ ''یہ بچہ بڑا لائق ہے‘ فرفر انگریزی بولتا ہے‘‘ وہاں اچھا لگتا ہے کہ ہمارا بچہ قابلیت کے اس معیار پر (خواہ یہ معیار جعلی اور کھوکھلا ہی کیوں نہ ہو) پورا اترتا ہے۔
میری دونوں بڑی بیٹیاں بڑے فراٹے کی انگریزی بولتی ہیں۔ درمیان والی بیٹی کو تو پنجاب کالج کے سالانہ فنکشن میں بہترین خیرمقدمی تقریر کرنے پر پنجاب کالج کے ایگزیکٹو ڈاکٹر سہیل افضل نے دس ہزار روپے کا انعام بھی دیا تھا۔ تب وہ سیکنڈ ایئر کی سٹوڈنٹ تھی‘ جبکہ فنکشن ڈگری کالج کا تھا۔ چھوٹی بیٹی کی انگریزی بھی شاندار ہے مگر وہ میرے سامنے کبھی بولتی ہی نہیں‘ یہی حال اسد کا ہے۔
دراصل یہ سب کچھ اس لیے یاد آ گیا کہ میری درمیان والی بیٹی نے اسد کے NUST میں داخلہ ہونے پر فیس بک پر ایک چھوٹی سی پوسٹ لگائی ہے‘ جو انگریزی میں ہے اور میں اسے پڑھ کر خوشی اور افسردگی کے درمیان والی کیفیت میں ہوں۔ اس چھوٹی سی پوسٹ کا اردو ترجمہ اس طریقے سے ممکن ہی نہیں جس طرح اس نے انگریزی میں میسج لکھا ہے کہ اب انگریزی بھی وہ والی ہے جو ہماری طے شدہ گرائمر اور ڈکشنری سے تھوڑی ادھر ادھر ہو گئی ہے۔ بہرحال کوشش کی ہے کہ اس میسیج کا اردو ترجمہ لکھوں‘ مگر مجھے پتہ ہے کہ اس ترجمے میں اصل عبارت کی روح کہیں درمیان میں رہ جائے گی۔ اب آپ ہی بتائیں کہ بھلا میں اس جملے کا کیا ترجمہ کروں؟ I can still not wrap my head around the fact that my baby brother has grown up enongh to start going to University اب سارے جملے میں ہمارے زمانے کی نہ تو گرائمر ہے اور نہ ہی ترجمے کی گنجائش۔ لیکن اب اس کا ترجمہ تو کرنا ہے۔ اس کا کیا پورے پیراگراف کا ترجمہ کرنا ہے ''میں ابھی تک اس حقیقت سے خود کو منوا نہیں پا رہی کہ میرا چھوٹو سا بھائی یونیورسٹی چلا گیا ہے۔ میں اس پر خوش بھی ہوں اور متفاخر بھی۔ بے شک! میں یہ اہم دن تمہارے ساتھ نہیں گزار سکی لیکن میں خوش ہوں کہ میں سارا وقت (تقریباً) داخلے کے سارے عمل کے دوران تمہارے ساتھ رہی‘ اور یہ بھی کہ تم نے یہ دن فیملی کے ساتھ گزارا۔ بہت زیادہ محبت! آنے والے دنوں کے لیے نیک تمنائیں۔ حرف آخر! جب ہم تمہیں یہ کہتے تھے کہ تمہیں صرف بارہویں کلاس تک پڑھائی میں توجہ دینی ہے اور اس کے بعد تم نے اپنی تعلیمی زندگی میں صرف انجوائے کرنا ہے۔ یہ بات سراسر جھوٹ تھی‘‘۔
اسد نسٹ یونیورسٹی چلا گیا ہے۔ یہ بات میں بھی اب تک دل سے تسلیم نہیں کر پا رہا کہ اسد یونیورسٹی چلا گیا ہے۔ حالانکہ میں اور انعم اسے خود اسلام آباد چھوڑ کر آئے ہیں۔ ہمیں یقین نہیں آ رہا کہ گھر کا سب سے چھوٹا بچہ بھی یونیورسٹی چلا گیا ہے۔ اس کے جاتے ہی گھر کی رہی سہی رونق بھی ختم ہو گئی ہے۔ گھر کا سارا نظام درہم برہم ہو گیا ہے۔ اب گھر میں میں ہوں اور انعم ہے۔ گھر سے ایک فرد کے جانے سے کیا ہوتا ہے؟ میں اس مرحلے سے آہستہ آہستہ آشنا ہو رہا ہوں۔ میری اہلیہ گئی‘ پھر بڑی بیٹی کومل رخصت ہوئی‘ اور امریکہ چلی گئی۔ پھر سارہ رخصت ہوئی اور تھوڑے عرصے بعد آسٹریلیا پڑھنے چلی گئی‘ اور اب اسد۔ پہلا جھٹکا میری اہلیہ کا تھا۔ دوسرا بڑا جھٹکا سارہ کے جانے کا تھا۔ کومل کا جانا شاید اس لیے زیادہ شدید نہ لگا کہ وہ چھ سال پہلے ہی عملی طور پر چلی گئی تھی‘ جب اس کا داخلہ آغا خان میڈیکل کالج کراچی ہو گیا تھا۔ پانچ سال ایم بی بی ایس کے‘ ایک سال ہائوس جاب کا اور پھر فوراً بعد شادی ہو گئی۔ میری اہلیہ کے بعد سارا گھر سارہ نے سنبھالا ہوا تھا‘ حتیٰ کہ شادی کے بعد بھی اس نے زیادہ وقت اسد اور انعم کے ساتھ ہی گزارا کہ اسے احساس تھا کہ یہ دونوں چھوٹے بچے نہ صرف یہ کہ گھر نہیں چلا سکتے بلکہ انہیں ابھی خود کسی ایسے شخص کی ضرورت ہے جو ان کا دھیان رکھ سکے۔ سارہ نے یہ فریضہ اتنے احسن طریقے سے سرانجام دیا کہ تصور محال ہے۔ پھر وہ آسٹریلیا پڑھنے کے لیے چلی گئی‘ تاہم اب بھی یہ عالم ہے کہ وہ نہ صرف بہن اور بھائی سے کم از کم روزانہ ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ فون پر بات کرتی ہے‘ بلکہ اسد کے داخلے کا سارا عمل اس نے اپنے ہاتھ سے کیا۔ ہر یونیورسٹی سے بذریعہ ای میل اسی کا رابطہ تھا‘ اور ہر اطلاع پہلے اس کے پاس جاتی تھی‘ اور وہ پھر اسے اسد کو بھجواتی تھی اور اب اسد۔ اس کے جانے کے بعد گھر پھر سے سونا ہو گیا ہے اور سونا بھی ایسا کہ اللہ کی پناہ۔
ماں کے جانے کے بعد اسد کو تینوں بہنوں نے ایسے اپنے حصار میں رکھا کہ اسے کوئی کام ہی نہ آ سکا۔ کام آتا بھی کیسے؟ کوئی کرنے دیتا تو تب آتا۔ نہ اسے کپڑے استری کرنے آئے اور نہ ہنڈیا میں سے کھانا نکالنا۔ نہ اسے کپڑوں کی میچنگ کرنا آئی کہ گھر میں کام انعم نے سنبھالا ہوا تھا حتیٰ کہ کپڑوں کی خریداری کے لیے بھی وہ بہنوں کے ساتھ جاتا تھا۔ اس نے اگر خود کوئی کام کیا تھا تو وہ صرف پڑھائی تھی۔ میں ہنس کر کہتا تھا کہ اگر یہ بھی بہنوں کے بس میں ہوتا تو وہ کر لیتیں۔ بڑے مزے کی بات یہ ہے کہ وہ بظاہر میرے ساتھ خاصا فرینک ہے لیکن ہوتا یوں ہے کہ اگر میں اسے کوئی بات کہوں تو وہ بلا چون و چرا مان لیتا ہے‘ نہ انکار اور نہ ہی منہ بنانا۔ تاہم پانچ منٹ بعد انعم یا سارہ بتاتیں کہ وہ آپ کے سامنے تو مان گیا ہے مگر اب باہر جا کر منہ بنا رہا ہے۔ میں اسے کہتا کہ تم نے مجھے کیوں نہیں کہا؟ آگے سے وہ مزید تابعداری دکھاتے ہوئے کہتا‘ یہ جھوٹ بول رہی ہیں‘ انہیں خود سے پسند نہیں اس لیے میرے نام سے کہہ رہی ہیں۔ یہ کبھی فیصلہ نہ ہو سکا کہ وہ درست کہہ رہا ہے یا بہنیں ٹھیک کہہ رہی ہیں۔
گھر ایک بار پھر سے خالی خالی ہے۔ میں اور انعم جب اسے یونیورسٹی میں مل کر واپس ملتان کے لیے روانہ ہوئے تو انعم اسلام آباد سے پنڈی بھٹیاں تک روتی رہی۔ دونوں کا بچپن کا ساتھ اور ایک ہی کمرے میں حصے داری۔ گاڑی میں گانے لگے رہے اور نہ میں نے سنے اور نہ ہی انعم نے۔ ہاں جب حامد علی بیلا کا گانا ''مائے نی میں کنوں آکھاں‘ درد وچھوڑے دا حال نی‘‘ آیا تو انعم نے گاڑی کا سٹیریو آف کر دیا۔ بھلا کبھی سٹیریو بند کر دینے سے بھی وچھوڑے کا درد کم ہو سکتا ہے؟ یہ معاملہ صرف شاہ حسین کا نہیں ہر شخص کا ہے کہ بھلا کون ہے جو اس درد سے آشنا نہیں ہوا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں