"KMK" (space) message & send to 7575

دردمندی سے غرض مندی تک

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ کچھ بھی ٹھیک نہیں جا رہا اور ہر شے بربادی کی طرف جا رہی ہے تاہم اس بات پر اگر یقین نہ بھی کیا جائے تو کم از کم یہ بات ضرور درست ہے کہ سب کچھ بہرحال ٹھیک نہیں جا رہا۔ حکومتیں غلطیاں کرتی ہیں لیکن ہمارے ہاں یہ شرح بہت ہی بلند ہے۔ ادھر غلطیاں نہیں ''غلطان‘‘ ہو رہے ہیں۔ کار حکومت میں غلطیاں نہ تو اچنبھے کی بات ہے اور نہ حیرانی کی۔ ان غلطیوں کو ٹھیک کرنے کے کئی طریقے ہیں۔ پہلا یہ کہ غلطی تسلیم کی جائے اور اس کی درستی کا عمل شروع کیا جائے۔ شاید ہی کوئی غلطی ایسی ہو جونا قابل درستی ہو ورنہ ہر خرابی کو درست کیا جا سکتا ہے مگر ہمارے ہاں اس والے عمل کا رواج کم کم ہے‘ بلکہ نہ ہونے کے برابر۔
ہمارے ہاں حکومتی غلطیوں اور خرابیوں کو ٹھیک کرنے کے دیگر طریقے رائج ہیں۔ پہلا یہ کہ غلطی تسلیم ہی نہ کی جائے اور اسے اپوزیشن کا پروپیگنڈا قرار دے کر رد کر دیا جائے۔ دوسرا رائج طریقہ یہ ہے کہ اسے میڈیا مینجمنٹ کے ذریعے کنٹرول کیا جائے اور اپنے لفافہ برداروں سے اس کے حق میں زوردار مہم چلوائی جائے اور بہت بڑی خرابی کو سرے سے غائب ہی کروا دیا جائے۔ تیسرا اور آخری حربہ یہ ہے کہ ایسی خرابی کی نشاندہی کرنے والے کو طبلچی گروپ کے ذریعے بے عزت کروایا جائے اور الٹا سارا ملبہ اس پر ڈال کر ایسی گوشمالی کی جائے کہ آئندہ کے لیے نہ صرف وہ خود توبہ تائب ہو جائے بلکہ دوسروں کو بھی پیشگی کان ہو جائیں اور وہ آئندہ سرکار پر کسی قسم کی ''تہمت‘‘ لگانے سے باز آ جائیں۔ ہمارے ہاں ایسے طبلچیوں کو اب باقاعدہ وزیر بنانے کا رواج بھی فروغ پا رہا ہے۔
ایمانداری کی بات ہے کہ ملک عزیز میں سب کچھ ٹھیک نہیں جا رہا۔ نہ داخلی معاملات ٹھیک ہیں‘ نہ خارجہ معاملات درست جا رہے ہیں اور نہ ہی معیشت۔ اب کسے پہلا نمبر دیں اور کسے تیسرا؟ جس پر انگلی رکھو وہی پہلے نمبر پر لگتا ہے۔ معیشت کا یہ عالم ہے کہ صرف جولائی کا خسارہ دو ارب ڈالر ہے۔ اس حساب سے سال بھر کا خسارہ چوبیس ارب ڈالر بنتا ہے اور حال یہ ہے کہ زرمبادلہ کے کل ذخائر بیس ارب ڈالر کے لگ بھگ ہیں۔ اوپر سے آئی ایم ایف کی قسطوں کی ادائیگی سر پر ہے اور نہ صرف یہ کہ وزیر خزانہ عملی طور پر گزشتہ دو ماہ سے غیر حاضر تھے بلکہ اب تو باقاعدہ ''مفرور‘‘ ہیں اور مستقبل قریب میں ان کی پاکستان آمد کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
خارجہ معاملات سب کے سامنے ہیں۔ بھارت نے ہر جگہ ہمیں رگڑا دے رکھا ہے البتہ یہ اور بات ہے کہ ہم بچپن سے بھارت کو زبانی کلامی رگڑا دینے کا اتنا وسیع تجربہ رکھتے ہیں کہ یہ بات تسلیم ہی نہیں کر سکتے کہ بھارت ہمیں عالمی سطح پر، عالمی عدالت انصاف سے لے کر اقوام متحدہ تک سب جگہ رگڑ رہا ہے۔ ہم ہر جگہ پسپائی کے باوجود ''اب کے مار‘‘ والے فارمولے پر عمل پیرا ہیں۔ کل بھوشن یادیو کیس سے لے کر بگلیہار ڈیم تک۔ ہر کیس ہماری حکومتی نااہلیوں پر ماتم کناں ہے مگر نہ ہمارے حکمرانوں کو اس ذلت و رسوائی کا کوئی احساس ہے اور نہ ہی وزارت خارجہ کو۔ اب تازہ کیس جنیوا میں لگے ہوئے آزاد بلوچستان کے اشتہاروں والا ہے۔ بلوچستان لبریشن آرمی والوں کی ہرنائی بلوچستان میں تازہ کارروائی کے بعد ‘جس میں ایف سی کے آٹھ جوان شہید ہوئے‘ جنیوا میں سڑکوں کے کنارے‘ بسوں اور ٹیکسیوں پر لگنے والے بلوچستان کی آزادی کے پوسٹر ہماری خارجہ پالیسی اور وزارت خارجہ دونوں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ سوئٹرزلینڈ کی حکومت نے تو ان پوسٹرز اور بینرز کے سلسلے میں صاف جواب دے دیا ہے اور کہا ہے کہ پوسٹرز بینرز لگانے والوں نے سال بھر کا کرایہ ادا کر رکھا ہے جو لاکھوں یورو میں ہے ‘اس لیے اس سال بھر کے معاہدے کو اپنی مدت پوری ہونے سے قبل کینسل کرنا ممکن نہیں۔ گویا ہمیں صاف جواب دے دیا گیا ہے۔ اخبارات تو ہمیں اس کے علاوہ کچھ بتا ہی نہیں رہے کہ اقوام متحدہ میں ہمارے وزیراعظم کی پرفارمنس کیسی ہے۔ کسی کو بتانے کی توفیق نہیں ہوئی کہ مختلف عالمی فورمز پر بلوچستان کے بلوچوں اور کراچی کے مہاجروں کی نسل کشی پر کی جانے والی تقاریر کیسے ہوئیں؟ 
ہاں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے اس سیشن سے یاد آیا‘ ایک ای میل آج کل گردش میں ہے جو نیویارک کی کسی لیموزین کمپنی میں کام کرنے والے پاکستانی نے پوسٹ کی ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ کل وزیراعظم پاکستان یہاں تشریف لائے‘ لیکن پاکستان ایمبیسی نے میری کمپنی سے چار لیموزین Stretch کاریں (عام گاڑی سے تین گنا لمبی کاریں جو امریکہ وغیرہ میں عموماً صرف شادی بیاہ یا کسی خاص تقریب کے لیے کرائے پر لی جاتی ہیں) گیارہ ستمبر سے لے کر پچیس ستمبر تک پندرہ دن کے لیے کرایہ پر لی ہیں۔ امریکہ میں پاکستانی ایمبیسی کے ادائیگی کے خراب ریکارڈ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے ان سے سارا کرایہ ایڈوانس میں طلب کیا اور یہ رقم وصول بھی کر لی۔ ہر ایک لیموزین کا چوبیس گھنٹے کا کرایہ مع ڈرائیور 850 ڈالر یومیہ ہے۔ اس طرح ان کاروں کی کل ادائیگی اکاون ہزار ڈالر بنی۔ سفارت خانے نے وزیراعظم کے دورے کے لیے یہ ادائیگی کی۔ (پاکستانی روپوں میں رقم ساڑھے تریپن لاکھ بنتی ہے) دوسری طرف فرانس نے بھی اپنے سربراہ مملکت کے لیے ہماری کمپنی سے کاریں کرایہ پر لیں۔ انہوں نے ہم سے صرف دو کاریں لیں جو لگژری کاریں نہیں بلکہ عام کاریں تھیں ۔ یہ انہوں نے محض چار دن کے لیے کرایہ پر لیں اور وہ بھی چوبیس گھنٹے کے بجائے صرف ان اوقات کے لیے ‘ جن میں اقوام متحدہ کا یہ سیشن چل رہا تھا۔ انہوں نے یہ دو کاریں صبح گیارہ بجے سے رات گیارہ بجے تک فی کار تین سو ڈالر یومیہ پر لیں۔ ان کا کل خرچہ 2400 ڈالر بنا۔ ایک غریب ‘قرضوں میں جکڑے اور ہمہ وقت کشکول پھیلائے ملک کے سربراہ کی آمد پر لگژری کاروں کا خرچہ 51000 ڈالر اور یورپ کی ایک امیر مملکت کے سربراہ کی آمد پر کاروں کا خرچہ محض 2400 ڈالر۔ بندے کا ڈوب مرنے کو جی کرتا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ اب سوشل میڈیا کی خبروں پر یقین ہی نہیں رہا‘ اس لیے اس خبر پر بھی جی نہ مانتا مگر کیا کروں؟ میں پاکستانی افسروں کے اللے تللے اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں۔ چار پانچ سال ہوتے ہیں ‘ہمیں لاس اینجلس میں پاکستانی کونسل جنرل نے اپنے گھر پر کھانے پر بلایا۔ پاکستانی کونسل جنرل کا گھر لاس اینجلس کے سب سے مہنگے علاقے ''بیور لے ہلز‘‘ میں تھا۔ جہاں ہالی وڈ کے ستارے قیام کرتے تھے وہاں ہمارا سفارتی ستارہ قیام پذیر تھا۔ پتہ چلا کہ 519 نارتھ ریکس فورڈ ڈرائیو بیورلے ہلز کے اس گھر کا کرایہ 9500 ڈالر ماہانہ ہے۔ مجھے لیموزین والے اس میسج پر اس لیے اعتبار ہے کہ اگر لاس اینجلس کا کونسل جنرل ماہانہ 9500 ڈالر (تب) کا کرائے پر گھر لے سکتا ہے تو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کے لیے وزیراعظم کے موٹرکیڈ کے کرائے پر 51000 ڈالر کیوں خرچ نہیں کئے جا سکتے؟ انیسویں گریڈ کے سرکاری افسر کا وزیراعظم سے کیا مقابلہ؟ 
میں نے کہا ہے ناں کہ حالات کسی طرف سے بھی ٹھیک نہیں لیکن سب سے بڑی خرابی یہ ہوئی ہے کہ کسی کو اس کی فکر نہیں۔ حکمرانوں سے لے کر ہم جیسے لکھنے والوں تک سب دردمندی سے غرض مندی کی جانب رواں دواں ہیں۔ اللہ خیر کرے‘ کچھ بھی تو ٹھیک نہیں رہا۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں