"KMK" (space) message & send to 7575

اورنج ٹرین پر پہلا کالم

آج خادم اعلیٰ ملتان میں میٹرو کی فیڈر بسوں کی سروس کا افتتاح کرنے آ رہے ہیں۔ میٹرو کا کیا حال ہے اور گزشتہ چند ہفتوں سے ملتان کی سڑکوں پر ماری ماری پھرنے والی ان فیڈر بسوں کا کیا حال ہے اور جن روٹس پر یہ فیڈر بسیں چل رہی ہیں ان سڑکوں کا کیا حال ہے؟ یہ ایک علیحدہ کالم کا متقاضی موضوع ہے‘ فی الحال تو لاہور کی اورنج لائن ٹرین کا ذکر ہو جائے جس کی پہلی ٹرین کی نقاب کشائی بلکہ پنجابی میں ''گھنڈ چکائی‘‘ کی تقریب میں اس عاجز کو شرکت کا موقع ملا۔ فی الوقت اس تقریب اور سرکار کی بریفنگ کے مطابق اس پراجیکٹ پر ایک کالم ہو جائے۔ یہ کالم سرکار کی بریفنگ‘ خادم اعلیٰ کی تقریر اور فراہم کئے گئے بروشرز اور کتابچوں کو مدنظر رکھ کر لکھا گیا ہے۔ سو‘ سرکاری نقطہ نظر کے عین مطابق یہ کالم حاضر خدمت ہے‘ یہ اس موضوع پر پہلا کالم ہے۔
لاہور میں میٹرو ‘جیسے اب گرین لائن کا نام دے دیا گیا ہے‘ کے بعد یہ اورنج لائن میٹرو شروع کی جا رہی ہے۔ گجومتہ سے شاہدرہ تک چلنے والی گرین لائن میٹرو بسوں پر مشتمل پراجیکٹ تھا۔ ایمانداری کی بات ہے (یہ بات سرکاری نہیں‘ ذاتی ہے) کم از کم لاہور کی حد تک یہ پراجیکٹ کامیاب ضرور ہے۔ یعنی اس بس سروس سے مخلوقِ خدا مستفید خوب ہو رہی ہے اور جو اس سے فائدہ اٹھانے کا جو سرکاری اندازہ تھا وہ شاید یہی تھا۔ جس قدر مسافر اب اس پر سفر کر رہے ہیں یا ممکن ہے مسافروں کی تعداد سرکاری اندازے سے بھی زیادہ ہو۔ اس پر خرچ ہونے والی رقم اور پھر پراجیکٹ مکمل ہونے کے بعد خرچ ہونے والی رقم‘ جس کا کوئی حساب کتاب نہیں ‘ ایک علیحدہ کہانی ہے لیکن اب یہ پراجیکٹ مکمل ہو ہی گیا تو یہ دیکھا جائے کہ مخلوق خدا اس سے کس قدر فیضیاب ہو رہی ہے اور ایمانداری کی بات ہے کہ مخلوق خدا اس سے مکمل فیضیاب ہو رہی ہے۔ اس پراجیکٹ کی کامیابی کے بعد اب میاں شہبازشریف کو لاہور شہر کے دوسرے حصوں میں بھی اسی قسم کی سروس شروع کرنے کا حوصلہ ہوا ہے۔
لاہور کی آبادی اس وقت ایک کروڑ سے زیادہ ہے اور ایک اندازے کے مطابق تقریباً اڑسٹھ لاکھ لوگ اپنے روزمرہ کے کام کاج‘ خریداری‘ تعلیمی اداروں تک رسائی اور دوسرے معاملاتِ زندگی کو سرانجام دینے کے لیے ذاتی ٹرانسپورٹ یا عام قسم کی پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان کے تمام شہروں میں دستیاب پبلک ٹرانسپورٹ کا کوئی حال نہیں۔ چند شہروں کے کچھ منتخب روٹس پر کچھ بہتر ٹرانسپورٹ بھی اب میسر ہے لیکن بیشتر روٹس پر وہی روایتی ویگنیں اور ٹھسا ٹھس بھری غیر معیاری بسیں ہی دستیاب ہیں۔ اس مشکل سے نمٹنے کے لیے پنجاب ماس ٹرانسپورٹ اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ لاہور میٹرو یا اسلام آباد راولپنڈی میٹرو اور ملتان میٹرو اسی اتھارٹی کے زیرانتظام بنائی گئیں اور چلائی بھی جا رہی ہیں۔ اب اس اتھارٹی کو فارغ بیٹھا دیکھ کر (یہ میرا ذاتی خیال ہے۔ میں اس سرکاری نقطہ نظر کے درمیان گاہے بگاہے اپنا لچ تلتا رہوں گا۔ آپ اس بات کا برا نہ منائیے گا) میاں شہبازشریف کو احساس ہوا کہ نہ صرف یہ کہ اتھارٹی فارغ ہے بلکہ میں خود بھی تعمیراتی سلسلے میں زیادہ مصروف نظر نہیں آ رہا اوراس دوران چین اور ترکی میں ''شہباز سپیڈ‘‘ کا نعرہ بھی ذرا مدہم پڑتا جا رہا ہے‘ اس لیے وہ دوبارہ میدان میں کود پڑے اور لاہور میں اورنج لائن کے نام سے ایک اور میٹرو روٹ کا نہ صرف اعلان کر ڈالا بلکہ کام بھی شروع کر دیا۔ کام کافی حد تک ہو چکا ہے اور گیارہ جگہ پر عدالتی حکم پر تعمیر روکنے کے علاوہ دیگر جگہوں پر کام زور و شور سے جاری ہے۔ گزشتہ دنوں لاہور میں ہونے والی تقریب اس سلسلے میں چلنے والی پہلی ٹرین کی نقاب کشائی تھی۔
لاہور میٹرو گرین لائن کے برعکس یہ منصوبہ بسوں پر نہیں بلکہ ٹرین پر مشتمل ہے۔ پانچ پانچ بوگیوں پر مشتمل یہ ائرکنڈیشنڈ ٹرین بھی چین سے آئی تھی اور لاہور کے شہریوں کو ٹرانسپورٹ کے ایک نئے معیار سے روشناس کرائے گی۔ لاہور میں مکمل ہونے والا گرین لائن روٹ تقریباً شمالاً جنوباً ہے جبکہ اورنج لائن میٹرو ٹرین روٹ تقریباً شرقاً غرباً ہے۔ یہ ایک دوسرے کو کراس بھی کرتے ہیں۔ اورنج لائن روٹ ستائیس کلومیٹر طویل ہے جس میں بیشتر حصہ یعنی 25.4 کلومیٹر روٹ زمین سے اوپر اور بارہ میٹر بلند (تقریباً 40 فٹ) ستونوں پر تعمیر ہو رہا ہے جبکہ تھوڑا سا حصہ یعنی 1.7 کلومیٹر نیم زیرزمین ٹائپ ہے۔ لندن میں مکمل زیرزمین ٹرین کا سسٹم آج سے 154 سال پہلے 1863ء میں باقاعدہ شروع ہو گیا تھا۔ اس کی لمبائی 402 کلومیٹر ہے اس میں روزانہ اڑتالیس لاکھ مسافر سفر کرتے ہیں۔ لندن کی آبادی لاہور سے کم ہے تاہم اردگرد سے روزانہ آنے والوں کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ علاوہ ازیں لندن میں آنے والے سیاحوں کے طفیل لندن میٹرو پر بہت زیادہ لوگ سفر کرتے ہیں‘ تاہم غیر معمولی بڑے نیٹ ورک کے طفیل اس پر سفر کرنے والے لوگوں کی تعداد بھی غیر معمولی ہے۔ لاہور آبادی کے اعتبار سے دنیا کا تیرہواں بڑا جبکہ لندن تیئسواں بڑا شہر ہے۔ اس لحاظ سے لاہور میں ابھی پبلک ٹرانسپورٹ کی مزید بہت گنجائش باقی ہے لیکن ہم ابھی تک زمین کے اوپر میٹرو‘ جنگلہ بس اور ٹرین بنانے پر لگے ہوئے ہیں جس کے باعث زمین کے اوپر چلنے والی باقی ٹریفک کا نظام بھی خراب ہو رہا ہے اور لوگوں کو تنگی بھی ہو رہی ہے۔ تاہم اہل لاہور کو اس سلسلے میں اپنی جائیداد کا بہت معقول معاوضہ ملا ہے اور اورنج ٹرین کے متاثرین کو مجموعی طور پر انیس ارب اسی کروڑ روپے ملیں گے۔ لاہوریوں کو زمین کا معاوضہ سرکاری ریٹ پر نہیں دیا جا رہا بلکہ پاکستان میں پہلی بار حاصل کی جانے والی اراضی کا معاوضہ پاکستان بینکرز ایسوسی ایشن کے منظور شدہ ایویلیوایٹرز سے لگوایا گیا ہے اور لاہور کے شہریوں کو اس قسم کی حصولِ اراضی کے لیے پہلے ملنے والے معاوضے سے تقریباً دگنا معاوضہ دیا گیا ہے۔
اورنج لائن ملتان روڈ‘ جی ٹی روڈ (علی ٹائون تا ڈیرہ گجراں) 27.1 کلومیٹر طویل ہے۔ اس پر چھبیس سٹیشن ہیں جن میں سے چوبیس سٹیشن زمین سے بلند ستونوں والے ٹریک پر جبکہ دو سٹیشن زیرزمین ہیں۔ بجلی سے چلنے والی آٹومیٹک ٹرین کے دروازے اور دیگر سارا آپریشن خودکار ہو گا۔ پانچ بوگیوں پر مشتمل اس ٹرین کی ہر بوگی میں 200 مسافروں کی گنجائش ہے۔ اس طرح بیک وقت ایک ٹرین ایک ہزار افراد سفر کریں گے۔ ستائیس کلومیٹر طویل یہ روٹ شہر کے گنجان ترین علاقوں سے گزرتا ہے۔ عام حالات میں یہ سارا سفر دو سے اڑھائی گھنٹوں میں طے ہوتا ہے لیکن اورنج لائن ٹرین کے طفیل پہ سارا سفر پینتالیس منٹ میں طے ہو گا اور ایک آرام دہ اورپرآسائش ٹرین میں ہو گا جس کا پاکستان میں پہلے کوئی تصور بھی نہیں ہے۔
اکتوبر 2016ء میں اس ٹرین منصوبے کا نصف تعمیراتی کام مکمل ہو چکا تھا اور امید تھی کہ منصوبہ اپنے طے شدہ وقت یعنی دسمبر 2017ء تک مکمل ہو جائے گی مگر بعض لوگوں نے مختلف این جی اوز اور انجمنوں کی آڑ لیتے ہوئے تاریخی عمارتوں کا مسئلہ اٹھا کر گیارہ جگہوں پر حکم امتناعی حاصل کر رکھا ہے اور قریب دو سال سے یہاں تعمیر رکی ہوئی ہے اور اس امتناع کے باعث سارا منصوبہ تاخیر کا شکار ہے۔ اب یہ منصوبہ اس امتناع کے اخراج کا مرہون منت ہے۔ تاہم باقی جگہوں پر یہ کام زور و شور سے جاری و ساری ہے۔
بجلی سے چلنے والی یہ ٹرین اسی کلومیٹر فی گھنٹہ رفتار سے چلے گی اور برقی توانائی پر چلنے کے باعث فضائی آلودگی بالکل نہیں ہو گی۔ یہ ایک شاندار منصوبہ ہے جو عام آدمی کو آرام دہ اور باعزت ٹرانسپورٹ فراہم کرے گا۔ اس منصوبے کے لیے سارا پیسہ ایگزم بینک آف چائینہ سے فراہم کیا گیا ہے۔ اس منصوبے کے لیے انٹرنیشنل ٹینڈر کیا گیا اور دو سو ارب سے زیادہ کے کم سے کم بولی والے ٹینڈر کو مزید کم کروایا گیا اور اسے ایک سو پینسٹھ ارب پر لایا گیا۔ یہ پہلا منصوبہ ہے جسے حکومتِ پاکستان اور حکومتِ چین نے سرکاری سطح پر دلچسپی لے کر پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ سرکاری بریفنگ کے مطابق آسان اقساط پر حاصل کئے گئے 165 ارب کے قرضے کے ذریعے تکمیل پانے والے اس منصوبے کا سی پیک سے کوئی تعلق نہیں۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں