"KMK" (space) message & send to 7575

ترکی کی خوشحالی کا راز

ترکوں کو ملنے کے بعد پتا چلا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ حکومت پاکستان فی الوقت دنیا میں صرف دو ممالک سے ہی نوے فیصد کاروبار کر رہی ہے۔ تیل وغیرہ کی خریداری ایک علیحدہ معاملہ ہے اور یہ کاروبار نہیں مجبوری ہے اور اسی قبیل کی بعض دوسری خریداریاں وغیرہ بھی۔ پاکستان اس وقت سارے بڑے معاملات میں چین سے اور چھوٹے معاملات میں ترکی سے کاروبار کر رہا ہے۔ مجھے اس کی صرف اور صرف ایک وجہ ہی سمجھ آتی ہے کہ دونوں حتیٰ الامکان بے ایمان ہیں۔ چینی بڑے بے ایمان ہیں اور ترک اس سے کم۔ سو ہماری حکومت کے معاملات ہر دو ممالک سے بڑے خوشگوار چل رہے ہیں۔
ہوٹل سے چلنے لگے تو نادر نے متنبہ کیا کہ ہم اپنا پاسپورٹ وغیرہ اس کے پاس سیف میں رکھوا دیں کہ پاسپورٹ چوری کی واردات ترکی میں بڑی عام ہے۔ خیر سے اپنے سارے پاسپورٹ ہوٹل کی سیف میں رکھوا دیئے۔ ایک دکان سے کچھ خریدنے لگے تو دکاندار نے میری چھوٹی بیٹی کے کوٹ کی جیب میں تھوڑے سے باہر نکلے ہوئے موبائل فون کو دیکھ کر ہوشیار کرتے ہوئے کہا کہ موبائل اندر والی جیب میں رکھا جائے کیونکہ یہاں موبائل کی چوری سب سے پاپولر چوری ہے اور اتنی عام ہے کہ اسے اب کوئی خاص اہمیت ہی حاصل نہیں رہی۔ دیوران نے کہا کہ زیادہ رقم جیب میں رکھ کر باہر نہ جائیں بلکہ مناسب ہو گا کہ زیادہ رقم ہوٹل میں جمع کروا کر رسید لے لی جائے۔ جیب کترے استنبول میں عام ہیں اور بٹوا نکال لینا ان کے بائیں ہاتھ کا کام ہے۔ اس سے پہلے رانا ظفر‘ جو اپنا موبائل فون استنبول میں چوری کروا چکا تھا، نے پاکستان سے چلنے سے پہلے خبردار کیا کہ ترکی میں ''سواری اپنے سامان کی خود حفاظت کرے‘‘ بعد میں کوئی ذمہ دار نہ ہو گا۔
بھائو تائو اور مول تول میں وہ گھپلے دیکھے کہ ابن انشاء مرحوم یاد آ گئے۔ جیسا بھائو تائو اور مول تول ان کے ساتھ ایران میں ہوا تھا اس سے ملتا جلتا معاملہ ہم نے ترکی میں دیکھا۔ چائے کی دکان میں گئے۔ درجنوں قسم کی چائے اور قہوے، ایک سے ایک خوشبودار، قیمت کا معاملہ بھی اتنی ہی قسم کا ۔ایک دکان میں انار والا قہوہ تین سو بیس لیرا کا ایک کلو۔ دوسری میں ساڑھے تین سو اور تیسری میں اڑھائی سو۔ اب بندے کو کچھ سمجھ نہیں آتی کہ تینوں میں کیا فرق ہے۔ تینوں دکاندار ایسے خوش اخلاق اور بامروت کہ رہے نام اللہ کا۔ ایک آپ کو انکل کہہ رہا ہے‘ دوسرا بزرگ قرار دے رہا ہے اور تیسرا آپ کو اپنے باپ کا درجہ دے رہا ہے۔ چائے خریدنے کا ارادہ کیا تو ساڑھے تین سو والا پہلے تین سو پر آیا۔ پھر اڑھائی سو لیرا کلو پر آیا اور پھر دوسو فی کلو پر آ گیا۔ بہرحال نوے لیرا کی آدھ کلو چائے خریدی اور سارا راستہ ملال رہا کہ اب بھی مہنگی خریدی ہے۔ کومل نے راستے میں ایک اور دکاندار سے قیمت پوچھنا چاہی مگر میں نے روک دیا۔ میں نے کہا: زندگی میں ایک اصول بنا لو ،ساری تحقیق خریداری سے پہلے کر لو مگر خریداری کے بعد کبھی بھی قیمت مت پوچھو‘ اگر دو روپے سستی بھی رہی ہو تو تادیر ملال رہتا ہے کہ ہم لٹ گئے ہیں‘ اس لیے بعداز خریداری چیز کی قیمت کبھی دریافت نہ کرنا۔
یہی حال ''ٹرکش ڈیلائٹ‘‘ کا تھا۔ قیمت میں اتنا فرق کہ کنفیوژن کے مارے برا حال تھا۔ بیٹی نے ایک دکان سے بریسلٹ خریدی کسی دوسری دکان میں ویسی ہی بریسلٹ نظر آتی تو دوسری بیٹی نے خریدنا چاہی۔ قیمت دوگنا تھی۔ پتا کیا تو دکاندار کہنے لگا کہ میری بریسلٹ اصلی چاندی کا ہے۔ پہلے والا دکھایا تو کہنے لگا یہ والا نقلی ہے۔ بھائو تائو کیا تو اسی بھائو پر مل گیا۔ اگلی دکان میں بھی ویسی ہی بریسلٹ پڑی تھی۔ قیمت پوچھی تو تین گنا بتائی۔ وجہ وہی پہلے والی کہ میرے والی اصلی چاندی کی ہے۔ اب ہم سنار تو تھے نہیں کہ اصلی اور نقلی کی پہچان کرتے مگر ہوا یہ کہ اعتبار بالکل ہی جاتا رہا۔
چھت سے لٹکنے والی آرائشی لائٹس ترکی کی خاص پہچان ہیں۔ اس بار ارادہ کیا کہ خرید کر پاکستان لے جائوں گا۔ شیشے کے پانچ گلوب والی لائٹ پسند آئی۔ درمیانے سائز کے گلوب والی لائٹ کا پوچھا‘ پانچ سو لیرا قیمت بتائی۔ چھوٹی بیٹی کا دل اس پر آیا ہوا تھا ،کہنے لگی: خرید لیں۔میں نے کہا: آخری دن خریدیں گے۔ اب اس نازک سی شے کو کہاں اتنے دن سنبھالتے پھریں گے۔ دوسرے دن ایک اور دکان سے پوچھا، بتایا چار سو لیرا۔ چلنے لگا تو دکاندار نے کہا آخری قیمت ساڑھے تین سو لیرا۔ جب دکان سے باہر نکلا تو پیچھے سے آواز آئی اڑھائی سو لیرا۔ دور روز بعد گرینڈ بازار سے وہی فانونس دو سو لیرا میں مل گیا۔
مجھے وہاں فون کی سم درکار تھی۔ نادر نے اپنے پاس پڑی ہوئی وائی فائی کی ووڈا فون کی ڈیوائس دے دی۔ بالکل ویسی جیسی ہمارے ہاں پی ٹی سی ایل والوں کی ایوو ہوتی ہے۔ اس کے لیے میں ووڈا فون کی دکان پر گیا۔ وہاں ایک باریش نورانی چہرے والا نوجوان کائونٹر پر موجود تھا۔ اس سے پتا کیا کہ ایک ہفتے کے لیے ڈیٹا سم کارڈ کا کوئی اچھا سا پیکیج کتنے میں مل جائے گا۔ کہنے لگا: دس جی بی والا سو لیرا میں‘ بارہ جی بی والا ایک سو بیس لیرا میں اور بیس جی بی والا ایک سو پچاس لیرا میں۔ میں نے بیس جی بی والا سم کارڈ ایک سو پچاس لیرا میں خرید لیا۔ دو دن بعد مسیج آیا کہ آپ کا ڈیٹا پیکیج ختم ہونے والا ہے۔ بڑی حیرانی ہوئی کہ محض دو دن میں بیس جی بی کیسے ختم ہو سکتا ہے۔ دوبارہ اسی دکان پر گیا۔ یہ ووڈا فون کی آفیشل دکان تھی۔ وہی باریش نورانی چہرے والا ملا اور کہنے لگا :آپ نے بیس جی بی ختم کر لیا ہو گا۔ ایئرپورٹ گیا تو وہاں ووڈا فون کی دکان تھی۔ ان سے معاملہ پوچھا تو وہ کہنے لگے :ہمارے پاس بیس جی بی کا پیکیج ہی نہیں ہے۔ ووڈا فون کی ہیلپ لائن پر فون کیا، بیس منٹ کے انتظار کے بعد بات ہوئی۔ اس نے میرے نمبر کا ریکارڈ چیک کر کے بتایا کہ آپ کی سم تین دن پہلے جاری ہوئی ہے اور اس پر جو پیکیج تھا وہ بیس لیرا کا تھا اور دو جی بی کا تھا۔ ووڈا فون کی دکان راستے میں تھی گزرتے ہوئے وہاں رکا تو وہی نوجوان کائونٹر پر کھڑا تھا۔ جب میں نے بات کی تو فوراً قرآن کی قسمیں کھانے لگ گیا کہ میں نے پورے بیس جی بی کا کارڈ دیا تھا۔ اس نے اتنی قسمیں کھائیں کہ میں شرمندہ ہو کر دکان سے باہر آ گیا کہ صرف ڈیڑھ سو لیرا کے لیے کتنی قسمیں سنی جا سکتی تھیں؟
ترکی ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور اس راہ پر بگٹٹ بھاگا جا رہا ہے۔ فی الوقت صرف ترکی ہی ایسا ملک ہے جو آئی ایم ایف کے قرضوں سے جان چھڑوا چکا ہے۔ معیشت اتنی بہتر ہو چکی ہے کہ تصور محال ہے فی کس آمدنی 14071 ڈالر سالانہ ہے جبکہ پاکستان کی فی کس آمدنی 1629 ڈالر سالانہ ہے۔ چند سال پہلے لیرا کا برا حال تھا اور عالم یہ تھا کہ لیرا ہاتھ میں آتے لیرے لیرے ہو جاتا تھا۔ ایک روپے میں درجنوں لیرا آ جاتے تھے آج ایک لیرا تیس روپے کا ہے۔ اس کی واحد وجہ صرف اور صرف ایک ہے اور وہ ہے ترکی کی قیادت۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ ترکی کی سیاسی قیادت ایماندار ہے یا بے ایمان لیکن یہ بات طے ہے کہ ترکی کی قیادت نے عام آدمی کے لیے بہت کچھ کیا ہے اور ملک کی مجموعی معاشی صورتحال کو اتنا بہتر اور مضبوط کر دیا ہے کہ ہر طرف خوشحالی نظر آتی ہے ۔حکمرانوں کو اس خوشحالی کے نعرے نہیں لگانے پڑتے۔ خوشحالی ہر طرف سے پھوٹی پڑتی ہے۔ بازاروں میں رونق ہے ،کاروباری سرگرمی ہر طرف دکھائی دیتی ہے ،عام آدمی کا طرززندگی بلند دکھائی دیتا ہے اور مہنگائی کے باوجود غربت نظر نہیں آتی۔ یہ سارا کمال ترکی کی قیادت کا ہے جس نے ملک کو پٹڑی پر ڈال دیا ہے۔ ادھر ہمارے ہاں یہ عالم ہے کہ عام آدمی کی خوشحالی کا دور دور تک نام و نشان نظر نہیں آتا۔ البتہ حکمرانوں کی خوشحالی کا یہ عالم ہے کہ وزیرِ خزانہ کی دولت چند سال میں کئی سو گنا بڑھ گئی ہے اور اوپر والوں کا حال اور بھی اونچا ہے، اتنا اونچا کہ فی الحال اس کا حساب لگانا بھی ممکن نہیں۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں