"KMK" (space) message & send to 7575

گمان

یہ کتابوں کا ٹھرک بھی خواتین کے کپڑوں جیسا ہے۔ پہنیں یا نہ پہنیں لیکن خرید ضرور لیتی ہیں۔ الماری ٹھسا ٹھس بھری ہوتی ہے لیکن موقع آئے تو کہتی ہیں پہننے والا تو ان میں ایک بھی نہیں۔ اگر کہو کہ الماری میں کوئی کپڑا بھی کام کا نہیں تو اسے خالی کر دو ‘جواب ملتا ہے: کبھی پہننا بھی پڑ سکتا ہے۔ اب بندے کے پاس بھلا اور کونسا سوال باقی بچتا ہے؟ یہی حال کتابوں کے ٹھرک کا ہے۔ یہ ٹھرک نہیں دراصل ''ہڑک‘‘ ہے۔ لالچ ہے اور لالچ بھی ایسا کہ دل نہیں بھرتا۔ جب نگاہ کام کرتی تھی اور رات میں ایک کتاب ختم کرنے کی توفیق تھی ‘یہی حال تھا۔ اب بھی یہی حال ہے کہ قریب ایک ڈیڑھ سو کتابیں تو ایسی ہیں جنہیں پڑھنا باقی ہے۔ چار ماہ پہلے یہ فیصلہ کیا تھا کہ اب فی الحال مزید کتابیں خریدنا بند کر دوں۔ یہ فیصلہ بھی ان پڑھی اُن ڈیڑھ سو کتابوں کی وجہ سے نہیں کیا گیا بلکہ اس لیے کہ اب یہ ساری کتابیں لائبریری کے فرش پر دو کونوں میں ڈھیر کی صورت دھری ہوئی ہیں۔ الماریاں اب اس طرح ٹھنسی پڑی ہیں کہ آگے پیچھے کتابوں کی دو دو قطاریں لگی ہوئی ہیں۔ خانے میں کتابوں کے اوپر جو جگہ خالی ہے وہاں بھی کتابیں لٹائی ہوئی ہیں۔ بیٹی نے نوٹس دے رکھا ہے کہ انہیں کسی ترتیب میں لائیں۔ گرمیوں میں اسے لارا لگایا تھا کہ سردیوں میں یہ کام کر لوں گا۔ اسے پتا ہے کہ مجھے گرمی بہت زیادہ لگتی ہے اس لیے اس نے موسم کے بہتر ہونے تک مہلت دے رکھی ہے۔ انشاء اللہ یہ والا کام ان سردیوں میں کر لوں گا۔
یہ کتابوں والا معاملہ اس لیے یاد آیا کہ اتوار والے دن دوپہر کو ہوٹل سے نکل کر ہم انارکلی آ گئے۔ رؤف کلاسرا نے کتابیں خریدنی تھیں۔ رؤف دھڑا دھڑ کتابیں خرید رہا تھا اور میں دل کو اِدھر اُدھر لگا رہا تھا۔ میرا اندر سے حال وہی تھا جو تازہ تازہ نشہ چھوڑنے والے کسی نشئی کا ہوتا ہے جو کسی دوسرے نشئی کے پاس بیٹھا ہو اور وہ اس کے سامنے سگریٹ ''بھر‘‘ بھی رہا ہو اور پی بھی رہا ہو۔ پرانی کتابوں والا رؤف کو خوب پہچانتا تھا اور اس کی مرضی کی کتابیں نکال نکال کر اس کے ہاتھ میں پکڑا رہا تھا اور ساتھ ساتھ اپنی مرضی کی کتابیں بھی درمیان میں ٹانک کر بیچنے کی کوششوں میں مصروف تھا ‘جو رؤف مستقل ناکام بنا رہا تھا۔ ہم باقی تینوں دوست وہاں سے جلد ازجلد نکلنے کے چکر میں تھے اور رؤف کو نہ کوئی جلدی تھی اور نہ ہی ہم تینوں کی رتی برابر فکر۔ میں تو بے چینی کے مارے وہاں سے نکلنے کے چکر میں تھا کہ کتاب خریدنے کی اندرونی خواہش یعنی Temptation نے برا حال کر رکھا تھا اور برادرِ بزرگ اور خالد تیز گام کو حالانکہ تیز گام نہیں پکڑنی تھی مگر بہرحال وہاں سے نکلنے کی جلدی تھی۔ انہوں نے یہ کام میرے ذمے لگایا اور میں نے رؤف کو تقریباً گھسیٹ کر کتابوں کے ڈھیر سے نکالا۔ اس کی خریدی گئی کتابوں کو چار شاپروں میں بھر کر سب نے ایک ایک شاپر اٹھایا اور گاڑی کی طرف چل پڑے۔
ان دو دنوں بارے کیا لکھوں؟ رؤف کلاسرا نے بہت کچھ لکھ دیا ہے۔ اس کی محبت ہے کہ میرا ذکر کرتے ہوئے حد سے گزر گیا وگرنہ ''من آنم کہ من دانم‘‘ والا معاملہ ہے۔ تاہم یہ بات طے ہے کہ یہ دو دن ایسے تھے کہ میں نے خود بھی بہت دنوں بعد اتنے مزے کے دن گزارے۔ دو دن بس دو چار گھنٹوں میں ہی گزر گئے۔ طے پایا کہ کم از کم سال میں ایک مرتبہ تو اس طرح ضرور اکٹھے ہونا چاہئے اور اکٹھے ہونا بھی ہے۔ ویسے تو رؤف نے برادرِ بزرگ کو کہا کہ وہ ماشاء اللہ خاصے خوشحال ہیں اور اگر طبیعت میں موجود اس کفایت شعاری کو جو انہیں اپنی ذات کے حوالے سے قدرتی طور پر ودیعت ہوئی ہے تھوڑا ایک طرف رکھیں اور یہ سوچ لیں کہ اب اپنا پیسہ ''اپنے‘‘ اوپر بھی خرچ کرنا ہے تو وہ ہر تین ماہ بعد بھی اٹلانٹا (امریکہ) سے پاکستان آ سکتے ہیں اور یہ محفل ہر تین ماہ بعد بھی سجائی جا سکتی ہے۔ برادر بزرگ نے جواب دینے کے بجائے آگے سے ہنس کر دکھا دیا۔ اللہ ہی جانے اس ہنسنے کا کیا مطلب تھا۔ یہ جو میں نے ''اپنے‘‘ اوپر خرچ کرنے کو واوین کے درمیان لکھا ہے تو حقیقت یہ ہے کہ برادر بزرگ اپنے اوپر خرچ کرنے کے معاملے میں ہی کفایت شعار ہے ‘دوسروں کے معاملے میں دل اور ہاتھ دونوں اتنے کھلے کہ یقین ہی نہیں آتا کہ جبلی طور پر کفایت شعار آدمی دوسروں پر خرچ کرتے ہوئے اتنا وسیع القلب بھی ہو سکتا ہے؟
انار کلی کے اختتام پر ڈی پی آئی کے آفس کے بالمقابل آئیڈیل بک سٹور تھا۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں ماموں محمود مرحوم کے گھر لوہاری دروازے سے پیدل انار کلی عبور کر کے یہاں آتا۔ یہاں سے پیدل مال روڈ کا گشت ہوتا۔ ریگل چوک سے پہلے مرزا بک ایجنسی میں جھانکا جاتا۔ پھر ریگل چوک کے ساتھ امپیریل بک ڈپو میں گھس جاتا ۔ وہاں سے نکل کر سڑک پار کر کے فیروز سنز چلا جاتا۔ یہ میری سب سے پسندیدہ دکان تھی۔ بلکہ دکان بھی کب تھی؟ ایک پوری جادونگری تھی۔ میں ادھر اُدھر گھومتا اور پھر بچوں کے سیکشن میں آ جاتا۔ میرا نام منگو ہے، عالی پر کیا گزری، لنگڑا فرشتہ، خزانے کا راز اور اسی طرح کی بے شمار اور کتابیں۔ داستانِ امیر حمزہ کے دس حصے اور طلسم ہوشربا کی گیارہ جلدیں۔ یہاں تو کبھی کبھی گھنٹوں گزر جاتے۔ نہ بھوک لگتی نہ پیاس۔ موبائل کا تو تب نام بھی وہم و گمان میں نہ تھا۔ اس لیے فون پر ابا جان کا بلاوہ یا ماں جی کی فکر مندی والی تفتیش بھری کال بھی نہیں آتی تھی۔ واپسی پر نجم سیٹھی کی وینگارڈ بکس کو باہر ہی سے سلام کرتے اور کھوکھا نما ''کلاسک‘‘ میں چلے جاتے۔ میکسم گورکی کی شہرہ آفاق تصنیف ''ماں‘‘ ادھر ہی سے سستے داموں خریدی۔ الیگزینڈ پوشکن، چیخوف، دوستوفسکی، لیوٹالسٹائی اور گوگول کے نام ادھر ہی دیکھے اور کئی اردو تراجم خریدے۔ روسی لٹریچر یہاں سے اتنا سستا ملتا کہ اب حیرانی ہوتی ہے۔ اب یہ ساری دکانیں یا تو ناپید ہو چکی ہیں یا کوئی اور صورت اختیار کر چکی ہیں۔
آئیڈیل بک سٹور کی جگہ جوتوں کی دکان ہے۔ امپیریل بک ڈپو کی جگہ پر اب انڈہ شامی والا برگر بکتا ہے۔ مرزا بک ایجنسی بند ہو گئی۔ نجم سیٹھی والے وینگارڈ کی چڑیا بھی اڑ چکی ہے۔ کلاسک اب کتابوں کی نہیں کیک پیسٹری کی دکان یعنی بیکری ہے۔ اوپر والی منزل پر بطور نشانی کتابوں کی دکان کی ''باقیات‘‘ موجود ہیں۔ فیروز سنز کے سامنے سے گزرتے ہوئے پرسوں اندر جھانکا۔ وسیع و عریض ہال کی چھت ہی موجود نہیں تھی۔ شو روم یہاں سے کہیں اور جا چکا ہے۔ اس عمارت سے جو بچپن کا رومانس تھا ایسا برباد ہوا کہ بتانا ہی ممکن نہیں۔ اور صرف لاہور ہی کیا؟ کتابوں کی دکانوں کا ہر جگہ یہی حال ہے۔
جب میں چوک شہیداں رہتا تھا تب حال یہ تھا کہ سارے علاقے میں صرف ایک میڈیکل سٹور تھا۔ چوک سے تیسری یا چوتھی دکان ''افشار میڈیکل سٹور‘‘ تھی۔ یہ چوک شہیداں اور اس کے قرب و جوار کا واحد میڈیکل سٹور تھا۔ تب ملتان میں بلا مبالغہ درجنوں آنہ لائبریریاں تھیں۔ کاروان بک سنٹر تھا‘ اور وہاں چچا عمر خان ہوتے تھے۔ پہلے چچا عمر خان پاکستان بک سنٹر میں حصہ دار تھے۔ پھر اپنی دکان بنالی۔ ملتان کی پہلی شاندار دکان جہاں صرف اور صرف جنرل بکس ملتی تھیں۔ پھر فیض صاحب کی بیکن بکس اور شاکر حسین شاکر کی کتاب نگر۔ ملتان میں کتابوں کی دکانوں کا عہد زریں ختم ہوا۔ کاروان بک سنٹر تعلیمی کتابوں کی دکان میں تبدیل ہوا۔ کتاب نگر کا بیشتر پورشن اب گفٹ شاپ بن چکا ہے۔ جہاں سے میں صرف کتابیں خریدتا تھا اب وہاں سے میرے بچے گفٹ خریدتے ہیں۔ بیکن بکس بھی دم آخر پر ہے آج کہ کل بند ہوتا ہے۔
میری گلی میں اب سڑک سے لیکر میرے گھر تک دو اڑھائی فرلانگ میں سات میڈیکل سٹور ہیں اور کتابوں کی ایک بھی دکان نہیں۔ ظاہر ہے دکان اسی چیز کی ہوتی ہے جو بکتی ہے اور بکتی وہی چیز ہے جس کی مانگ ہوتی ہے۔ مجھے لگتا ہے جیسے کتاب اور دوا میں تناسب معکوس پایا جاتا ہے۔ کتاب دوا سے دور رکھتی ہے اور کتاب سے دوری دوا کے نزدیک لے جاتی ہے۔ ممکن ہے میرا تھیسس غلط ہو مگر کتابوں کی مسلسل کم ہوتی دکانوں کے مقابلے میں مسلسل بڑھتی ہوئی ادویات کی دکانیں تو یہی بتاتی ہیں۔ ممکن ہے غلط ہی ہو مگر میرا گمان تو یہی ہے اور گمان تو پھر گمان ہی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں