"KMK" (space) message & send to 7575

ہماری کرکٹ ٹیم اور سردار بلدیو سنگھ کا گھوڑا

مجھے ایک دوست نے چند روز قبل ایک وڈیو کلپ بھجوایا تھا۔ اس میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم ورلڈ کپ کا پہلا میچ ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں نہایت ہی ذلت آمیز طریقے سے ہار کر گرائونڈ سے واپس پویلین کی طرف آ رہی ہے اور پاکستانی تماشائی ،جو ظاہر ہے اس شرمناک شکست پر بڑے دکھی، شرمندہ اور غصے میں تھے، ساتھ سے گزرنے والے پاکستانی کھلاڑیوں پر طنز کے تیر چلا کر، انہیں برا بھلا کہہ کر اور آوازے کس کر اپنا غصہ نکال رہے تھے۔ اس شافی قسم کی ''ڈوز‘‘ کا اثر بڑا تیر بہدف نکلا اور پاکستانی ٹیم اگلے میچ میں نہایت عمدہ کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے میزبان برطانیہ سے جیت گئی۔ کاش تماشائیوں نے یہ نسخہ پہلے میچ سے پہلے آزمایا ہوتا۔
ایک صاحب نے اپنے بیٹے کو سو روپے کا نوٹ دیا اور کہا کہ وہ سڑک پار والی دکان سے ماچسوں کا ایک پیکٹ لے آئے۔ پھر ہدایات دیتے ہوئے کہا: پیکٹ دس روپے کا آئے گا۔ واپس نوے روپے ملیں گے۔ اور ہاں! دیکھنا پیسے راستے میں گرا نہ دینا۔ بچے نے سر ہلاتے ہوئے باپ کو یقین دلایا اور کہا کہ وہ بقایا پیسے نہایت ہی احتیاط سے واپس لے آئے گا۔ باپ کی تب بھی پوری تسلی نہ ہوئی۔ اس نے اشارے سے بیٹے کو اپنی طرف بلایا۔ جب بیٹا قریب آیا تو اس نے نہایت مناسب قسم کے دو چانٹے اس کے منہ پر مارے اور کہا: دیکھنا پیسوں کو واپسی پر سنبھال کر لانا ،کہیں ایسا نہ ہو کہ راستے میں گرا کر روتے ہوئے آ جائو اور بتائو کہ پیسے راستے میں کہیں گر گئے ہیں۔ بچے نے روتے ہوئے ایک بار پھر یقین دہانی کرائی کہ وہ بقایا پیسے نہایت احتیاط سے سنبھال کر واپس لائے گا۔ پاس بیٹھے ہوئے ان کے ایک دوست نے یہ سارا منظر دیکھا اور بچے کے والد کو کہا کہ آپ نے خواہ مخواہ بچے کو دو تھپڑ جڑ دیئے ، بیچارے نے ابھی پیسے گم نہیں کیے اور آپ نے اسے سزا بھی دے دی۔ بچے کے والد نے اپنے دوست سے کہا: بعد میں پچھتانے سے احتیاط بہتر ہے۔ اگر یہ پیسے گم کر کے آ جاتا تو چاہے میں دو چھوڑ چار تھپڑ بھی مار دیتا تو بے فائدہ تھے۔ بعد کی مار سے میرے پیسے تو واپس نہیں ملنے تھے۔ اس لیے میں نے بہتر سمجھا کہ اسے احتیاطاً دو طمانچے رسید کر دوں تا کہ یہ محتاط ہو جائے اور بقایا پیسے خیریت سے گھر لے آئے۔
میرا خیال ہے کہ اگر پاکستانی کرکٹ ٹیم کی یہ ''خدمت‘‘ احتیاطاً پہلے میچ سے پہلے کر لی جاتی تو نہایت مناسب تھا۔ شکست کے بعد ہونے والی بے عزتی سے ہار جیت میں تو بدل نہیں سکتی، لہٰذا علاج قبل از وقت کر لیا جاتا تو نہایت مناسب تھا۔ بعد میں اگر بچہ نوے روپے گلی میں کہیں گرا کر آ جائے تو چاہے جتنی مرضی پھینٹی لگا دیں گم شدہ پیسے تو واپس ملنے سے رہے۔ احتیاطی تدابیر سو طرح کے مسائل سے محفوظ رکھتی ہیں۔
مجھے کرکٹ سے قطعاً کوئی دلچسپی نہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جس زمانے میں بچوں یا نوجوانوں میں اس قسم کی چیزوں میں دلچسپی کا آغاز ہوتا ہے ہماری اس عمر میں ون ڈے یا ٹی ٹونٹی وغیرہ جیسی بدعات کا آغاز تو ایک طرف کسی کے گمان میں بھی نہ تھا کہ کرکٹ میچ اتنا مختصر ہو جائے گا کہ اس کا فیصلہ ایک ہی دن میں بلکہ آدھے دن سے بھی کم وقت میں ہو جائے گا۔ فرسٹ کلاس میچز تین دن پر اور ٹیسٹ میچ پانچ دنوں پر محیط ہوتے تھے اور اکثر اوقات ان پانچ دنوں کے بعد جب میچ برابر یعنی ڈرا ہو جاتا تو ان دنوں کے اکارت جانے کا ملال کم از کم اگلے پانچ دن ضرور رہتا تھا۔ گویا دس دن خراب ہو جاتے تھے۔ ہمیں اپنی تیز رفتار اور ''ٹھاہ پھاہ‘‘ قسم کی زندگی میں سے ہر دو چار ماہ بعد دس دن برباد کرنے کا نہ تو کوئی شوق تھا اور نہ ہی مزاج۔ لہٰذا کرکٹ سے میرے تعلقات کبھی ٹھیک نہ رہے۔
دوسری وجہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کی ہمیشہ سے ناقابل بھروسہ کارکردگی بھی تھی۔ جو ٹیم دعا اور دھکے سے چلتی ہو بھلا اس سے کیا توقعات اور امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں اور اس سے خاک محبت کی جا سکتی ہے؟ سو اس ناقابل اعتبار قسم کی کارکردگی والی ٹیم نے بھی کرکٹ سے دور رہنے میں بڑی مدد کی۔ لیکن اس سب کے باوجود جب پاکستانی ٹیم دیارِ غیر میں اپنی ٹیم کا حوصلہ بڑھانے کے لیے گرائونڈ میں آنے والے پاکستانی شائقین کو ذلیل کرواتی ہے تو مجھے ان تماشائیوں پر ترس آتا ہے اور ٹیم پر غصہ۔ کرکٹ سے دلچسپی نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ مجھے گرائونڈ میں پاکستان کا نام ڈبونے پر دکھ نہیں ہوتا یا غصہ نہیں آتا۔
ویسے یہ میرا ذاتی خیال ہے کہ پاکستانی ٹیم کو ویسٹ انڈیز سے شکست کے بعد ملنے والے طعنے، طنز کے چلنے والے تیر اور کسے جانے والے آوازے اگلے میچ میں بہتر کارکردگی کا باعث بنے ہیں لیکن چوہدری بھکن کا کہنا ہے کہ انگلینڈ کے ساتھ میچ میں پاکستانی ٹیم کی اچھی کارکردگی کے پیچھے اس قسم کی کوئی وجہ نہیں جو تم سوچ رہے ہو۔ اگر برا بھلا کہنے سے، طعنے مارنے سے، آوازے کسنے سے اور طنز کے تیر چلانے سے پاکستانی ٹیم کی کارکردگی بہتر ہو جاتی تو یہ کام پی سی بی کی طرف سے ایک باقاعدہ تنخواہ دار دستے کے ذریعے بھی کروایا جا سکتا ہے جو صرف اور صرف اسی کام پر مامور ہو۔ ویسے بھی پاکستانی ٹیم پر اس قسم کی باتوں کا کوئی خاص اثر نہیں ہوتا۔ ناقابل بھروسہ اور ناقابل اعتبار کارکردگی ہماری ٹیم کی خاص پہچان اور نشانی ہے۔ ہمارے دوست اور بہت ہی شاندار مزاحیہ شاعر ڈاکٹر طاہر شہیر نے اپنی ٹیم کی اسی خصوصیت کے بارے میں کیا خوب لکھا ہے ؎
سب سے ہلکی ثابت ہو یا سب کے اوپر بھاری
پوری ایک نمونہ ہے یہ کرکٹ ٹیم ہماری
ساری دنیا میں نہ ہوںگے جیسے پلیئر ہمارے
نوے پر اک آئوٹ نہیں تھا ایک سو دس پر سارے
میچ میں کس نے چلنا ہے یہ کچھ بھی سمجھ نہ آئے
چالیس پر ہوں آٹھ آئوٹ عامر ففٹی کر جائے
ان کی بیٹنگ یونہی ہے کہ ایہہ آئے، او چلے
ان ٹچ ان کے بیٹ رہیں اور زیرو میٹر بلے
بے عزتی سے یاد آیا۔ سردار بلدیو سنگھ آف تلونڈی سابو نے ایک بہت مہنگا اور تھارو بریڈ (Thoroughbred) گھوڑا خریدا۔ سردار بلدیو سنگھ کے شریکوں نے بھی اس گھوڑے کو خریدنے کی کوشش کی مگر بلدیو سنگھ نے زیادہ قیمت لگا کر گھوڑا خرید لیا۔ اسے اس کے ایک دوست نے بتایا کہ اس کے شریکوں نے (شریکے پنجاب میں جائیداد شریک رشتہ داروں کو مثلاً چچا، تائے وغیرہ کی اولاد کو کہا جاتا ہے) اس گھوڑے کو چوری کروانے کے لیے رسہ گیروں سے رابطہ کیا ہے اور ان کی نظر اس گھوڑے پر ہے۔ سردار بلدیو سنگھ نے گھوڑے کی چوری کی متوقع کوشش کے پیش نظر گائوں کے ایک زور آور جوان جسونت سنگھ عرف جسّے کو گھوڑے کی رکھوالی پر ملازم رکھتے ہوئے ہدایت کہ وہ گھوڑے کا خاص خیال رکھے اور اسے چوری ہونے سے ہر حال میں بچائے۔ جسونت سنگھ نے اپنے سینے پر ہاتھ مارتے ہوئے سردار بلدیو سنگھ کو یقین دہانی کروائی کہ وہ ہر حالت میں گھوڑے کی حفاظت کرے گا۔ پھر مزید یقین دلانے کے لیے کہنے لگا: سردار جی! اگر گھوڑا چوری ہو جائے تو آپ مجھے ''فٹے منہ‘‘ کہنا۔ سردار بلدیو سنگھ اتنی بڑی یقین دہانی سن کر مطمئن ہو گیا اور اندر جا کر سو گیا۔
ابھی سورج پوری طرح نہیں نکلا تھا کہ دروازہ زور زور سے بجا۔ سردار بلدیو سنگھ گھبرا کر اٹھا کہ اتنی صبح صبح کون آ گیا ہے؟ بلدیو سنگھ نے آنکھیں ملتے ہوئے دروازہ کھولا۔ سامنے جسونت سنگھ کھڑا تھا۔ بلدیو سنگھ نے حیرانی سے پوچھا: جسّیا! خیر ہے؟ اتنی صبح صبح آئے ہو۔ جسّے نے شرمندگی سے سر جھکاتے ہوئے کہا: سردار جی! بس آپ مجھے فٹّے منہ کہہ لیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں