"KMK" (space) message & send to 7575

دلوں کا حال

قریب دو سال بعد شفیق کے ساتھ اتنا وقت گزارنے کا موقعہ ملا تھا۔ پورے پانچ دن۔ گزشتہ دو سال کے دوران جب بھی امریکہ آیا بس کچھ ایسی مصروفیات آن پڑیں کہ لاس اینجلس جانے کا موقعہ ہی نہ مل سکا۔ ایک بار گیا بھی تو ایسی افراتفری میں کہ شفیق کے ساتھ صرف دو گھنٹے گزار سکا۔ وہ بھی اس طرح کہ شفیق میرے پاس ہوٹل آ گیا اور ہم نے یہ وقت ہوٹل میں اور ساتھ والی سڑک پر چہل قدمی میں گزار دیا۔ اس سڑک کے دونوں طرف اونچے اور تیر کی طرح سیدھے پام کے درخت لگے ہوئے تھے۔ ان بلند و بالا پام کے درختوں کی وجہ سے سڑک اتنی خوبصورت ہو گئی تھی کہ لفظوں میں بیان کرنا ممکن ہی نہیں۔ تب کے بعد اب شفیق سے ملنے کے لیے لاس اینجلس جا رہا تھا۔ ان پانچ دنوں میں کوئی کام نہیں تھا سوائے اس کے کہ لاس اینجلس اور نواحی علاقوں کی سڑکیں ناپی جائیں اور گپ شپ کی جائے۔
سیاست پر گفتگو ہم پاکستانیوں کا پسندیدہ ترین موضوع ہے‘ خواہ ہم پاکستان میں ہوں یا پاکستان سے باہر۔ خواہ ہمیں سیاسی حرکیات کا علم ہو یا نہ ہو۔ لیکن شفیق کا یہ پسندیدہ موضوع ہے تو اس کو اس موضوع پر کامل عبور بھی ہے۔ سارا دن پاکستانی چینلز لگا کر بیٹھے رہنے سے بھی سیاسی شُدبُد سے اوپر تک کا علم ہونا ضروری نہیں۔ اس کے لیے ایک خاص حد سے زیادہ کے آئی کیو لیول کی ضرورت ہے جہاں آپ تجزیئے اور منطقی نتائج جیسے عوامل کی حد تک رسائی کر سکتے ہیں اور شفیق کو اللہ تعالیٰ نے وہ ساری صلاحیتیں دے رکھی ہیں جو اس حد تک پہنچنے کے لیے لازمی ہیں۔
شفیق میرا کالج اور یونیورسٹی فیلو ہے۔ وہ کالج میں بھی مجھ سے جونیئر تھا اور یونیورسٹی میں بھی۔ لیکن ہماری دوستی کے درمیان یہ جونیئر ہونا کبھی حائل نہیں رہا تھا۔ وہ کیڈٹ کالج حسن ابدال سے انٹرمیڈیٹ کرنے کے بعد ایمرسن کالج میں آیا تھا۔ تعلیمی ریکارڈ نہایت اچھا تھا اور ہم نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لینے کے باوجود امتحان میں حیران کن حد تک اچھے نمبر بھی لے لیتا تھا۔ ایمرسن کالج ملتان کی سٹوڈنٹس یونین کا جوائنٹ سیکرٹری بھی رہا اور بی اے میں اعلیٰ فرسٹ ڈویژن لے کر بہائوالدین زکریا یونیورسٹی میں ایم بی اے میں داخل ہو گیا۔ پھر پوری یونیورسٹی میں اوّل آیا اور قائداعظم سکالرشپ پر پڑھنے کے لیے لاس اینجلس آیا اور حسبِ معمول یہاں کا ہی ہو گیا۔
یہ المیہ ہے کہ پاکستان سے سارا ٹیلنٹ مسلسل دیار غیر منتقل ہو رہا ہے۔ اسے ''برین ڈرین‘‘ کی اصطلاح سے یاد کیا جاتا ہے۔ ذہین لوگ مسلسل پاکستان سے ہجرت کر رہے ہیں۔ اس ہجرت کی ایک سے زیادہ وجوہات ہونگی لیکن اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ میاں نواز شریف جیسے لوگ یہاں بچ جاتے ہیں جو ذہانت کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ جھوٹ نہ بلوائے تو باقاعدہ Below Average ہیں لیکن حالت یہ ہے کہ چوتھا عشرہ آن پہنچا ہے لیکن ہماری سیاست ان کی ذات سے آگے نہیں نکل سکی۔ اس دوران انہوں نے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی وزارت علیہ کے علاوہ تین بار اسلامی جمہوریہ پاکستان کی وزارت عظمیٰ کا بھی لطف اٹھایا اور ماشاء اللہ سے پاکستان کے دو چار امیر ترین افراد میں بھی اپنا نام نامی درج کروایا۔ لیکن مقدر کا یہ عالم ہے کہ اوسط سے نیچے کی ذہنی استعداد کا حامل شخص بہائوالدین زکریا کے ذہین ترین طالبعلم کا پسندیدہ لیڈر ہے۔ جب میں شفیق کی میاں نواز شریف کے لیے حد سے گزری ہوئی محبت دیکھتا ہوں تو پھر مجھے ایک تسلی ضرور ہوتی ہے کہ ہمیں یہ لیڈرشپ بہرحال ''برین ڈرین‘‘ کے منفی اثرات کے طفیل نہیں ملی۔ ہماری قسمت ہی خراب ہے۔ اگر شفیق جیسے لوگ پاکستان سے باہر نہ جاتے تب بھی ان کی چوائس اگر میاں نواز شریف نے ہی ہونا تھا تو پھر ان کے ملک سے چلے جانے کا ہماری سیاست کی خرابی سے کوئی تعلق نہیں۔
شفیق میاں نواز شریف کا متوالا ہے۔ اب دو خرابیاں ہو گئیں۔ پہلی یہ کہ وہ سیاسی گفتگو کا بڑا شوقین ہے اور دوسری یہ کہ وہ میاں نواز شریف کا متوالا ہے بلکہ متوالا بھی کہاں؟ جانثار کہیں تو بات بنتی ہے۔ دوستی اپنی جگہ لیکن اب اس دوستی کی بنیاد پر میاں نواز شریف کی عظمت کے قصے تو ہر وقت نہیں سنے جا سکتے‘ لہٰذا شفیق کے ساتھ ایک معاہدہ ہے جس کی دو بنیادی شقیں ہیں۔ شق نمبر ایک: سارے دن میں پاکستانی سیاست پر ایک گھنٹے سے زیادہ گفتگو نہیں ہوگی۔ اور شق نمبر دو یہ کہ گفتگو سے قبل اپنی سیاسی وابستگی کو بالکل ایک طرف رکھ کر یہ گھنٹہ بھر والی گفتگو کی جائے گی۔ شفیق کو یہ کریڈٹ دینا پڑے گا کہ وہ معاہدے کی دونوں شقوں پر پورا عمل کرتا ہے اور ایک آدھ ڈنڈی مارنے کے علاوہ میاں نواز شریف کی حماقتوں، غلط فیصلوں اور نہایت افسردہ انداز میں ان کی کرپشن کو بھی تسلیم کرتا ہے‘ لیکن اس ایک گھنٹے والی گفتگو کے بعد وہ دوبارہ سے مسلم لیگی بن جاتا ہے اور اس ایک گھنٹہ والی ایمانداری کا انتقام وہ فیس بک اور واٹس ایپ پر عمران خان اور سلیکشن کمیٹی کے ارکان پر اپنا غصہ اور گرمی نکال کر لیتا ہے اور اپنے تئیں حساب برابر کر لیتا ہے۔
ہماری گفتگو کا موضوع امریکی سیاست بھی ہوتا ہے اور اس معاملے میں وہ قطعاً غیر متعصب ہے کہ کیونکہ نہ وہ ڈیموکریٹ ہے اور نہ ہی ریپبلکن۔ اس لیے وہ ان دو امریکی سیاسی پارٹیوں اور امریکی سیاست کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے سو فیصد معقول اور غیر جانبدار گفتگو کرتا ہے اور اس کا تجزیہ بھی بالکل منطقی ہوتا ہے۔ دن بھر میں اس سے پاکستانی سیاست پر گھنٹہ بھر گفتگو ہوتی ہے تو امریکی سیاست پر اس سے کہیں زیادہ وقت۔ اس موضوع کے دوران اس سے کسی نا معقول گفتگو کا اندیشہ نہیں ہے اس لیے اس موضوع پر گفتگو کے لیے ہمارے درمیان کوئی معاہدہ نہیں جس کے مطابق کوئی وقت کی قید لگائی گئی ہو یا کسی فریق کی بے جا حمایت پر پابندی عائد کی گئی ہو۔ یہ وہ موضوع ہے جس پر ہم امریکہ میں ملاقات کے دوران بھی گفتگو کرتے ہیں اور پاکستان سے امریکہ اس کو فون کے دوران بھی اس بارے میں کھل کر بات ہوتی ہے۔ وہ میرا واحد دوست تھا جو گزشتہ امریکی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کے بارے میں سو فیصد پُرامید تھا اور اس کی یہ ''امید‘‘ کسی محبت یا وابستگی کی بنیاد پر نہیں بلکہ خالص تجزیئے کی بنیاد پر تھی اور وہ اس وقت میڈیا کی عمومی رائے سے سو فیصد اختلاف رکھتا تھا اور امریکی میڈیا کے اندازوں کے برخلاف بڑے حسابی کتابی انداز میں اپنا اندازہ بتا رہا تھا۔ اس بار بھی اس کا اندازہ یہی تھا کہ اگر کوئی غیر معمولی واقعہ پیش نہ آیا تو صدر ٹرمپ آئندہ امریکی صدارتی انتخاب جیت جائے گا۔ اور اس جیت کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ امریکی معیشت بہتری کی طرف گامزن ہے اور اس سلسلے میں ٹرمپ کے گزشتہ صدارتی الیکشن میں کیے گئے وعدوں پر عملدرآمد کے نتائج کسی حد تک وہی نکل رہے ہیں‘ جو ٹرمپ نے امریکیوں کو بتائے تھے۔ مطلب یہ کہ صدر ٹرمپ نے امریکیوں کو محض سبز باغ نہیں دکھائے تھے۔ ساتھ ہی اس نے اپنا ''لچ تل‘‘ دیا اور کہنے لگا جیسا کہ عمران خان نے پاکستانیوں کو دکھائے تھے۔ میں نے اسے ٹوکا اور یاد دلایا کہ وہ اس موضوع پر آج سہ پہر اپنا ایک گھنٹے کا طے شدہ کوٹہ پورا کر چکا ہے۔ لہٰذا اسے اس موضوع پر بولنے کی اجازت نہیں۔ وہ ہنس کر کہنے لگا: خالد بھائی! آپ یہ میرے دس سیکنڈ کل والے ایک گھنٹے میں سے کاٹ لیجیے گا۔
پھر کہنے لگا: دوسری وجہ یہ ہے کہ فی الوقت امریکی اپوزیشن کے پاس کوئی مناسب اور معقول امیدوار بھی نہیں ہے۔ ویسے ایک اور تاریخی روایت یہ ہے کہ عموماً امریکی صدر اپنی دوسری مدت کا الیکشن جیت جاتا ہے۔ امریکہ کی تاریخ میں سولہ صدور دوسری بار منتخب ہوئے۔ تین اپنی صدارتی مدت پوری نہ کر سکے جبکہ تیرہ صدور نے اپنی صدارت کی دوسری مدت پوری کی۔ جنگ عظیم کے بعد صرف تین امریکی صدور اپنی دوسری مدت کا الیکشن ہارے ہیں۔ پھر وہ ''کھچروں‘‘ کی طرح مسکرایا اور کہنے لگا: فی الوقت امریکی سلیکٹرز اور امپائرز بھی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ہیں حالانکہ میں نے اسے کچھ نہیں کہا تھا۔ وہ خود ہی کہنے لگا: خالد بھائی! قسم سے اس جملے کا پاکستانی سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ حالانکہ میرا دل نہیں مان رہا تھا مگر پھر بھی میں نے اس کی قسم پر یقین کر لیا۔ دلوں کے حال تو صرف اللہ ہی جانتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں