"KMK" (space) message & send to 7575

نئی واسکٹ سے لیکر ڈرائی کلین شدہ شیروانی تک

بعض اوقات صرف ایک خرابی آپ کی ساری خوبیوں کو کھا جاتی ہے۔ یہی حال چودھری پرویز الٰہی کا ہے۔ میں حتیٰ الامکان کوشش کرتا ہوں کہ بحیثیت لکھاری کسی شخص کے بارے میں ذاتیات سے ہٹ کر لکھوں اور خوبیوں اور خامیوں کو علیحدہ علیحدہ رکھ کر تجزیہ کروں۔ میں اپنی پسند اور ناپسند کو بھی ممکنہ حد تک اپنے قلم سے دور رکھتا ہوں۔ میرا نہ کوئی دشمن ہے اور نہ دوست کہ صرف مثبت یا منفی رویہ اختیار کروں‘ لیکن یہ سب کچھ ''ممکنہ حد تک‘‘ ہی روا رکھا جا سکتا ہے۔ کبھی کبھار معاملات اس سے تھوڑا ہٹ جاتے ہیں اور یہی حال چودھری پرویز الٰہی صاحب کے سلسلے میں ہے۔
ایمانداری کی بات ہے کہ اگر مجھ سے کوئی پوچھے کہ ماضی قریب میں پنجاب کی وزارت ِاعلیٰ سب سے بہترکس نے چلائی اور پنجاب میں ترقی کا گراف کس دور میں بہتر رہا تو میں بلاتوقف چودھری پرویز الٰہی کا نام لوں گا۔ چودھری پرویز الٰہی کا دورِ وزارت عظمیٰ گو کہ کسی حوالے سے بھی شاید آئیڈیل نہ ہو‘ مگر یہاں معاملہ آئیڈیل ہونے کایا ہر طرح سے بہتر ہونے کا نہیں۔ مقابلتاً بہتر ہونے کی بات ہو رہی ہے۔ یعنی ''اندھوں میں کانا راجہ‘‘ والا معاملہ ہے۔ موجودہ حالات یہ ہیں کہ تقریباً تمام ملکی ادارے ترقی معکوس کی جانب گامزن ہیں اور آہستہ آہستہ برباد ہو رہے ہیں۔ ایسے میں جب کہ حکومتیں پہلے سے موجود اور کسی زمانے میں بہترین بنیادوں پر استوار ادارے چلانے میں ناکام ہو رہی ہیں‘ چودھری پرویز الٰہی نے ایک عرصے کے بعد چند ایک ایسے کارآمد اور عوامی فلاح و بہبود سے متعلق ادارے بنائے ‘جن کے مثبت اثرات براہ راست عوام تک پہنچے اور کئی حوالوں سے عوام کے لئے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا محسوس ہوئے۔
میں تین نمایاں اداروں کا ذکر نہ کروں تو یہ بددیانتی اور ناانصافی ہوگی۔ پہلا ادارہ ریسکیو1122تھا۔ یہ عوامی خدمت اور سہولت کا ایک ایسا سرکاری منصوبہ تھا‘ جس کے فوری فوائد ہمارے سامنے آئے۔ مغربی ممالک میں یہ سہولت اب سہولت نہیں‘ بلکہ ان کی زندگی کا لازمی حصہ اور حکومت کا فرض سمجھا جاتا ہے ‘لیکن پاکستان جیسے ملک میں جہاں حکومتیں اپنے پہلے سے طے شدہ فرائض سے اغماض برت رہی ہیں‘ ایسا منصوبہ ایک ناقابل یقین کام لگتا تھا‘ مگر یہ کام ہمیں نظر آیا۔ بلامبالغہ اس سہولت سے ہزاروں لوگ موت کے منہ میں جانے سے بچ سکے۔ جان بچانے والی ذات باری تعالیٰ کی ہے‘ لیکن وسیلوں کا اہتمام وہ دنیا میں ہی کرتا ہے اور یہ سہولت بے شمار لوگوں کو بروقت ہسپتال پہنچانے کا فریضہ سرانجام دینے کے علاوہ فوری طبی امداد اور آفات کے دوران لوگوں کی مدد و معاونت کے کام آئی۔
دوسرا منصوبہ ہائی وے پٹرولنگ تھا‘ جس سے پنجاب کی بہت سی غیر محفوظ شاہرات اور ان سے متصل سڑکیں نہ صرف محفوظ ہوئیں‘ بلکہ وہاں چلنے والی ٹریفک کو حفاظت کے ساتھ ساتھ دیگر سفری مشکلات کے دوران تعاون حاصل ہوا۔ گو کہ اس سے چند خرابیوں نے بھی جنم لیا ہوگا‘ لیکن وہ ہمارے کلچر کا اب حصہ ہے بن چکا ہے کہ ہم ہر معاملے میں پیدا گیری کا اہتمام کر لیتے ہیں اور خاص طور پر پولیس اس معاملے میں سرفہرست ہے‘ لیکن بعض خرابیوں کے باوجود اس نظام نے عام آدمی کے لئے کئی سہولتیں پیدا کیں۔ ایک بار وہاڑی سے خانیوال براستہ وجھیانوالہ‘ کچا کھوہ رات کو آتے ہوئے چھب چوکی کے پاس ایک فیملی کی خراب گاڑی کے لئے مرمت کا بندوبست کرتے ہوئے ہائی وے پٹرولنگ والوں کو دیکھا۔ جو اپنی چوکی کے ذریعے رات گئے کسی مکینک کو گھر سے لا رہے تھے۔
تیسرا کام شہروں میں ٹریفک وارڈنز والے نظام کا نفاذ تھا۔ بڑے شہروں کی بے ہنگم ٹریفک اور پارکنگ کے مسائل سے لے کر ٹریفک قوانین سے آگاہی تک کا کام اس نئے نظام کے حوالے سے باعث تقویت و آسانی بنا۔ جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں‘ ہم اچھے کام اور نظام میں بھی بعد ازاں تبدیلیوں اور نئی خرافات کو شامل کر کے خراب کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے‘ اس نظام کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا ‘جیسا جنرل پرویز مشرف کے دور میں شہری حکومتوں والے نظام کا ہوا اور ہر چیز پر مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی مضبوط گرفت کے شوق میں مبتلا حکمرانوں اور بیورو کریسی نے اچھے بھلے نظام کا بیڑا غرق کردیا۔ دنیا بھر میں شہری حکومتوں کا نظام نہایت کامیابی سے چل رہا ہے اور اس میں عوام کی سہولتوں سے متعلق بے شمار روایتی ادارے اب مرکزی یا صوبائی حکومتوں کے بجائے لوکل گورنمنٹ سسٹم کے تابع ہیں‘ لیکن ہمارے ہاں گلی محلے کی تعمیر و ترقی اور نالیوں کی تعمیر و مرمت تک کا کام ممبرانِ قومی و صوبائی اسمبلی اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں اور اس کی واحد وجہ وہ ترقیاتی فنڈز ہیں جو ان ترقیاتی کاموں سے جڑے ہوئے ہیں اور کوئی رکن قومی صوبائی اسمبلی اس عوامی بہبود کے حامل فنڈز سے دستبردار نہیں ہونا چاہتا‘ کیونکہ یہ فنڈز عوامی بہبود سے زیادہ ان کی ذاتی فلاح و بہبود کے کام آتے ہیں۔
یہی حال وارڈنز والے نظام کا ہوا اور اس میں بعد ازاں چالانوں کا ٹارگٹ اور جرمانوں کی وصولی کی پخ ڈال دی گئی۔ وہ نظام جو ٹریفک کو رواں رکھنے‘ سڑک کو محفوظ بنانے‘ سوار کو آسانی فراہم کرنے کے لئے شروع کیا گیا تھا ذریعہ آمدنی بنا لیا گیا اور روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں روپے جرمانے کی مد میں وصول کرنے کے ٹارگٹ نے اس سہولت کو باقاعدہ مصیبت بنا دیا۔ یہ کام بنیادی طور پر میاں شہباز شریف کے دور میں شروع ہوا۔
ملتان کی ترقی کے حوالے سے یہاں قائم ہونے والا دل کے امراض کا ہسپتال ایک ایسی سہولت ہے‘ جس سے نا صرف ملتان اور گرد و نواح‘ بلکہ پورے جنوبی پنجاب کے علاوہ بلوچستان میں کوئٹہ‘ لورالائی‘ ژوب‘ رکنی اور بارکھان اور کے پی کے میں ڈیرہ اسمٰعیل خان تک کے دل کے مریض اس سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔ کارڈیالوجی انسٹی ٹیوٹ کے علاوہ ڈینٹل کالج کا قیام اور برن یونٹ کی تعمیر۔ گو کہ یہ برن یونٹ صرف تعمیر ہوا اور ان کی حکومت چلی گئی‘ مگر آنے والوں نے اس یونٹ کو کئی سال تک فعال نہ کیا جیسا کہ وزیر آباد کارڈیالوجی انسٹی ٹیوٹ کے ساتھ ہوا‘ لیکن یہ وہ کام تھے‘ جو چودھری پرویز الٰہی نے کیے۔ یہ ملتان کے لئے ایسے کام تھے‘ جن کا پہلے تصور بھی محال تھا۔
مجھے یہ سب کچھ یاد ہے‘ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت کچھ یاد ہے۔ میں پرویز الٰہی کے دورِ حکومت کو یاد کرتا ہوں کہ وہ نسبتاً بہتر دورِ حکومت تھا‘ لیکن چودھری پرویز الٰہی سے متعلق میرے دل میں جو گرہ پڑی ہے‘ وہ نکلنے کا نام نہیں لیتی۔ وہ گرہ چودھری پرویز الٰہی کی اقتدار سے بے پایاں محبت ہے اور اس محبت سے مغلوب چودھری پرویز الٰہی کا ایک ایسا بیان ہے‘ جو ان کے متعلق میرے دل کو صاف ہی نہیں ہونے دیتا۔
کسی سمجھدار نے لکھا کہ جب مالک کائنات عورت کی تخلیق کرنے لگا تو اس نے پھولوں سے خوشبو لی‘ لہروں سے سرسراہٹ لی‘ شام سے سرخی لی‘ ریشم سے نرمی لی‘ بادِصبا سے تازگی لی‘ تاروں سے جگمگاہٹ لی‘ چاند سے ٹھنڈک لی‘ سورج سے حرارت لی‘ ہرنی سے آنکھیں لیں‘ پنکھڑیوں سے ہونٹ تراشے‘ گل لالہ سے رنگ کشید کیا‘ سرو سے قد لیا‘ عشق پیچاں کی بیل جیسا لہرانا عطا کیا‘ ممتا کی محبت اس میں اتاری‘ سیاہ رات سے زلفیں تراشیں‘ کمان سے ابرو مستعار لئے ‘اسے مرد کے لئے تخلیق کیا اور پھر اسے زبان لگا دی۔
چودھری پرویز الٰہی کے کریڈٹ پر بہت سے کام ہیں‘ چودھری ظہور الٰہی کے خاندان سے جڑی ہوئی مروت‘ رواداری‘ وسیع القلبی اور فلاحی کام ان کی خوبی ہے‘ لیکن پرویز مشرف کو دس بار باوردی صدر بنوانے کے اعلان نے سب کچھ ملیا میٹ کر کے رکھ دیا۔ 
جتنا مزہ عوام نے ان کی وزارتِ اعلیٰ کا لیا شاید اس سے زیادہ مزہ انہیں اپنی وزارت اعلیٰ میں آیا ہوگا کہ ان کے دل سے پنجاب کی وزارت اعلیٰ سے محبت اور دوبارہ اس پر متمکن ہونے کا شوق انہیں بے چین کیے رکھتا ہے۔ چودھری پرویز الٰہی کا آئی کیو (Intelligence quotient) یعنی شرح ذہانت یا مقیاس ذہانت خاصا درمیانی قسم کا ہے‘ لیکن جہاں تک سیاست کا تعلق ہے وہ اس معاملے میں خاصے ''جینئس‘‘ ہیں اور حالات کو اپنے حساب سے موڑنے اور اس میں راستہ نکالنے کے ہر طریقے سے واقف ہیں۔ اگر اقتدار سے ان کی محبت کا لیول تھوڑا کم ہوتا تو کیا ہی اچھا ہوتا۔ وہ آج بھی پنجاب کے اقتدار کا شوق لے کر سوتے ہیں اور رات کو اسی سے متعلق خواب دیکھتے ہیں۔ وہ اپنے اس خواب کی تکمیل کے لئے اپنی مسلم لیگ ق کو تحریک انصاف میں اس طرح ضم کر سکتے ہیں‘ جیسے سابقہ صدر فاروق لغاری نے اپنی ملت پارٹی کو مسلم لیگ ق میں ضم کر دیا تھا۔ فی الحال وہ اسی طرح داؤ لگا کر خاموش اور منتظر بیٹھے ہیں‘ جس طرح چیتا اپنے شکار پر جھپٹنے سے پہلے گھنٹوں داؤ لگا کر بیٹھا رہتا ہے۔
سنا ہے چودھری صاحب نے نئی واسکٹ سلوا رکھی ہے اور اسے زیب تن کرنے کے ارادے کو روزانہ تازہ کرتے ہیں اور شنید ہے کہ اپنے شاہ محمود قریشی نے بھی اپنی شیروانی تیسری دفعہ ڈرائی کلین کروائی ہے۔ کسی نے پوچھا ؛تیسری دفعہ کیوں؟ جواب ملا کہ ملتان میں مٹی بہت اڑتی ہے‘ الماری کے اندر رکھے ہوئے کپڑے بھی اس سے محفوظ نہیں رہتے۔ تبھی تو مشہور ہے کہ ؎ 
چہار چیز است تحفہِ ملتان
گرد‘ گرما‘ گدا و گورستان

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں