"KMK" (space) message & send to 7575

تین دن بلوچستان میں …(آخری قسط)

سبزے کی اپنی خوبصورتی ہے اور خزاں کا اپنا رنگ ہے۔ اگر ہم ستمبر میں سنجاوی اور ہرنائی کا سفر کرتے تو ہریالی ہمارا استقبال کرتی مگر اب درختوں کے بیشتر پتے سبز سے سنہرے رنگ میں بدل چکے تھے۔ راستے میں جو بات خوش کن نظر آئی وہ یہ تھی کہ زمین کا جو حصہ بنجر اور بے آباد تھا وہاں آباد کاری کا کام جاری تھا۔ جہاں جہاں زیر زمین پانی میسر تھا اور میٹھا تھا وہاں لوگ ٹیوب ویل لگا رہے ہیں۔ کم از کم درجن بھر جگہوں پر ٹیوب ویلز کی بورنگ کا کام جاری تھا۔ کہیں یہ بجلی سے چلنے والے تھے اور کہیں سولر انرجی سے۔ کئی جگہوں پر سڑک کے کنارے کھیتوں کے پاس پختہ تالاب دیکھے جہاں آبپاشی کیلئے پانی جمع کیا جاتا ہے اور بعد ازاں کاشتکاری میں استعمال ہوتا ہے۔ ایک کھیت میں چند لوگ سبزی چننے میں مصروف تھے۔ میں نے نیچے اتر کر دیکھا یہ مٹر کا کھیت تھا۔ نہایت صحتمند اور مضر صحت سپرے سے ممکنہ حد تک محفوظ مٹر بوریوں میں بھرے جا رہے تھے۔ ایک کھیت پر نظر پڑی جہاں ایسے سرخ اور بڑے سائز کے ٹماٹر لگے ہوئے تھے کہ دیکھ کر دل خوش ہو گیا۔
ہم ہرنائی سے واپس سنجاوی آئے کہ ہرنائی سے زیارت کا راستہ گو کہ مختصر تھا لیکن سب نے کہا کہ بہتر ہے کہ آپ یہاں سے زیارت جانے کے بجائے واپس سنجاوی جائیں اور پھر وہاں سے زیارت جائیں‘ راستہ لمبا ہے لیکن مسافت جلد طے ہو جائے گی اور مشکل بھی کم پیش آئے گی۔ ہم واپس مڑے اور سنجاوی سے زیارت کا راستہ اختیار کر لیا۔ سنجاوی سے زیارت سڑک خاصی بہتر تھی بلکہ بہت اچھی تھی۔ راستے میں سیبوں کے باغات تھے اور چنائی آخری دموں پر لگتی تھی۔ کالا کلو‘ امری اور گولڈن کے علاوہ دیگر چند اقسام کے سیبوں کے ڈھیر لگے ہوئے تھے اور لکڑی کی پیٹیوں کے علاوہ اب گتے کے جدید ڈبوں میں بھرے جا رہے تھے۔ طے پایا تھا کہ جاتے ہوئے صرف بھاؤ معلوم کریں گے اور اگر خریداری کرنا ہو گی تو وہ صرف واپسی پر ہو گی۔ اسی فارمولے کے تحت ایک جگہ شہد کا بورڈ دیکھ کر گاڑی روکی اور بورڈ کے ساتھ بنی ہوئی خیمہ نما جھونپڑی کے باہر آواز لگائی۔ ایک شخص باہر نکلا تو ہم نے اس سے شہد کی بابت معلوم کیا۔ بھاؤ تاؤ مکمل کر کے اسے کہا کہ خریداری واپسی پر ہو گی۔ وہ ہمارے اس عمل پر بڑا حیران ہوا کہ ہم سب کچھ طے کر کے خرید کچھ بھی نہیں رہے‘ تاہم واپسی پر وہ سویا ہوا تھا اسے اٹھا کر اپنے طے شدہ ریٹ کے مطابق شہد لیا اور گھر کو چل دیئے۔زیارت کی آمد کی نشانی صنوبر کے جنگلات ہیں۔ زیارت میں صنوبر کا دنیا کاشاید سب سے بڑا اور سب سے قدیم ترین جنگل ہے۔ تقریباً اڑھائی لاکھ ایکڑ سے زیادہ رقبے پر لگا ہوا صنوبر کا یہ قدرتی جنگل اقوام متحدہ نے 1977ء میںBiosphere reserves قرار دیا ہے۔ یہ تقریباً سات ہزار سال پرانا جنگل ہے اور اپنی کہنگی کے باعث جنگل سے زیادہ اب اس کی حیثیت ایک زندہ عجوبے کی سی ہے۔ یہ ایک ایسا انوکھا جنگل ہے جس میں بے شمار درخت ساڑھے چار ہزار سال سے بھی زیادہ پرانے ہیں۔ انہیں ان کی اسی قدامت کی بنیاد پرLiving fossil کہا جاتا ہے کہ دنیا میں اس قدامت کے درخت صرف ''متحجر‘‘ شکل میں یعنی فاسل کی صورت میں ہی ملتے ہیں۔ روئے ارض پر قدیم ترین درختوں پر مشتمل یہ جنگل عالمی ورثہ قرار دیا جا چکا ہے‘ صنوبر کو انگریزی میں Juniper کہا جاتا ہے اور یہ درخت شاید دنیا میں سب سے سست رو بڑھوتری کا حامل ہے۔ ایک سال میں اس کا پودا یا درخت محض ایک انچ کا پانچواں حصہ بڑھتا ہے‘ یعنی پانچ سال میں اس کا قد صرف ایک انچ بڑھتا ہے۔ اس حساب سے اس درخت کی عمر کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ جس گیسٹ ہاؤس میں ہم ٹھہرے تھے اس کے صحن میں جو درخت لگا ہوا تھا وہ نسبتاً جوان درخت تھا اور اس کی عمر صرف ساڑھے چار ہزار سال تھی۔ دنیا میں سب سے پرانا جنگل( کیلیفورنیا) امریکہ میں کہا جاتا ہے ‘تاہم صنوبر کا یہ جنگل اپنی نوعیت کا سب سے بڑا اور سب سے قدیم جنگل ہے۔
شکر تو یہ ہے کہ صنوبر کی لکڑی ٹمبر مافیا کے کسی کام کی نہیں وگرنہ اب تک یہ جنگل صاف ہو چکا ہوتا۔ اس کی لکڑی عام طور پر جلانے کیلئے استعمال ہوتی ہے اور مقامی لوگ اس کو اپنے گھر کی تعمیر کیلئے بھی استعمال کرتے ہیں؛ تاہم اس کی مارکیٹ ویلیو بطور تعمیراتی لکڑی بہت ہی کم ہے اور یہ اچھے فرنیچر یا عمارتی کام میں استعمال نہیں ہوتی البتہ اس کا تیل کئی دوائیوں میں اور خوشبویات میں استعمال ہوتا ہے۔ اسے بنیادی طور پر ایندھن کیلئے کی جانے والی غیر قانونی کٹائی‘ چھوٹی جھاڑی کی صورت میں مویشیوں کے چرنے اور قریبی سیب کے درختوں کی فنگس کی بیماری سے خطرہ ہے اور اس کی زیادہ سختی سے حفاظت کی ضرورت ہے۔ میں نے کئی جگہوں پر درختوں کے ٹھُنٹھ دیکھے جبکہ اوپری درخت غائب تھا۔
سطح سمندر سے آٹھ ہزار تین سو پچاس فٹ کے لگ بھگ بلند زیارت ایک شاندار سیاحتی ریزارٹ بن سکتا تھا بشرطیکہ حکومت اس کی جانب توجہ دیتی اور اس کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ سیکٹر بھی ادھر متوجہ ہوتا‘ لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا۔ زیارت مری سے بھی تقریباً ساڑھے آٹھ سو فٹ زیادہ اونچائی پر واقع ہے۔ چند برس قبل جب میں ''الحجرہ‘‘ رہائشی سکول کی تقریب میں شرکت کی غرض سے چودہ اگست کو زیارت پہنچا تو کچلاک سے زیارت تک کی سڑک کسی جنگ میں تباہ شدہ شاہراہ کا نقشہ پیش کر رہی تھی۔ معلوم ہوا کہ یہ سڑک کاغذوں میں ہر سال بنتی ہے اور پھر کاغذوں میں ہی ہر سال بارشوں اور پہاڑی نالوں کے پانی سے دوبارہ بہہ جاتی ہے۔ 
زیارت میں گنتی کی چند اچھی رہائشی جگہیں ہیں ‘تاہم ان میں سے بیشتر ایسے محکموں کے ریسٹ ہاؤس ہیں جہاں عام آدمی کی رسائی مشکل ہے اور جو چند پرائیویٹ ہوٹل ہیں وہ دو قسم کے ہیں۔ بہت مہنگے اور اچھے یا پھر بالکل تھکے ہوئے اور سستے۔ درمیان میں کوئی معقول رہائشی سہولت دستیاب نہیں۔ بہت اچھی پبلک ٹرانسپورٹ دستیاب نہیں صرف کوئٹہ یا کراچی وغیرہ سے ذاتی یا کرائے کی گاڑی سے آیا جا سکتا ہے۔ ایک پی ٹی ڈی سی کا موٹل تھا جو کسی حد تک مناسب ریٹ میں مل جاتا تھالیکن شنید ہے کہ وہاں کا حال بھی اب برا ہے اور اس کی وہی صورتحال ہے جو ہمارے تمام سرکاری اداروں کے زیر انتظام چلنے والے پراجیکٹس کی ہے۔
بلوچستان میں زراعت کا مستقبل بہت روشن ہے اور سبزیوں‘ پھلوں کے ساتھ ساتھ اناج کی پیداوار میں بھی بہت ہی زیادہ اور روشن امکانات ہیں‘ لیکن یہ سب کچھ حکومتی سرپرستی اور مدد کے بغیر ممکن نہیں۔ بلوچستان میں زراعت کو بنیادی مسئلہ پانی کا در پیش ہے اور اس کیلئے تونسہ بیراج سے کچھی کینال نکالی گئی تھی اور اس نہر سے جعفر آباد‘ ڈیرہ اللہ یار‘ نصیر آباد اور ڈیرہ بگتی وغیرہ میں زمین سیراب ہونی تھی مگر تین مرحلوں پر مشتمل اس نہر کا ابھی صرف پہلا مرحلہ مکمل ہوا ہے۔ منصوبے کے مطابق اس نہر کے تینوں مرحلوں کی تکمیل کئی سال قبل ہو جانی چاہیے تھی۔ تاہم 363 کلو میٹر لمبی اس نہر کا ابھی صرف وہی حصہ تعمیر ہوا ہے جو پنجاب میں ہے اور بلوچستان کا لاکھوں ایکڑ بنجر علاقہ ابھی اس نہر کے پانی کا منتظر ہے ۔خدا جانے یہ پراجیکٹ کب مکمل ہو گا۔ اسی ارب روپے کا یہ پراجیکٹ ابھی نجانے کتنی بار نظر ثانی کے مرحلے سے گزرے گا اور اس کی لاگت کتنے گنا بڑھے گی‘ یعنی دُہرا نقصان ہو رہا ہے‘ بنجر زمین آباد نہیں ہو رہی اور لاگت بڑھتی جا رہی ہے۔ اگر بلوچستان کی لاکھوں ایکڑ زمین آباد ہو جائے تو علاقے کے عوام کا معاشی مسئلہ بھی حل ہو جائے گا اور ملکی زراعت کو سہارا بھی مل جائے گا۔ لیکن اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے بابوؤں کو کون سمجھا سکتا ہے؟ سارے عقل ِکل اسلام آباد میں ہی تو جمع ہیں !

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں