"KMK" (space) message & send to 7575

میٹرک کے رزلٹ سے توشہ خانہ تک

گزشتہ دو سال کے دوران تعلیمی اداروں کی جزوی بندش کے نتیجے میں میٹرک کا جو محیر العقول اور دنیا بھر میں اپنی نوعیت کا انوکھا نتیجہ آیا ہے اس کے بعد اس عاجز کا خیال ہے کہ سکول وغیرہ کو تو سرے سے ہی بند کر دینا چاہیے تا کہ آئندہ کا نتیجہ اس سے بھی بہتر آئے۔ اس شاندار نتیجے سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ سکولوں وغیرہ سے جزوی دوری‘ کلاس روم میں حاضری سے معافی اور اساتذہ کی دستبرد سے محفوظ رہنے کے باعث طلبہ و طالبات نے جو حیران کن نتائج حاصل کیے ہیں وہ اس بات کے متقاضی ہیں کہ طلبہ و طالبات کو سکول کے بکھیڑوں‘ کلاسوں کے جھنجھٹ اور اساتذہ کی گرفت سے آزاد کر دیا جائے تا کہ ان کا قدرتی ٹیلنٹ نکھر کر سامنے آ سکے۔اس سے پہلے طلبہ کا یہ جوہر فضول قسم کی پابندیوں کے باعث دبا ہوا تھا اور سامنے نہیں آ رہا تھا۔ جونہی یہ ناروا پابندیاں ہٹائی گئیں طلبہ نے اپنی خداداد صلاحیتوں سے ایسا نتیجہ دیا کہ دنیا کو ششدر کر کے رکھ دیا۔
طلبہ میں چھپے ہوئے جوہرِ قابل کو دریافت کرنے کا سہرا کسی حد تک پشاور بورڈ کو جاتا ہے جو اس چھپے ہوئے ٹیلنٹ کو بڑی مشکل سے دنیا کے سامنے لایا‘ وہاں کے تین جواہرِ قابل نے 1100 میں سے 1098 نمبر حاصل کیے۔ اس قابلیت کے دریافت ہوتے ہی مالاکنڈ بورڈ کے پانچ طلبہ نے 1100 میں سے 1098 نمبر لے کر پشاور بورڈ کے ساتھ وہی سلوک کیا جو پاکستان نے بھارت کے پوکھران میں کیے گئے تین ایٹمی دھماکوں کے مقابلے میں چاغی میں پانچ ایٹمی دھماکے کر کے کیا تھا۔ اس شاندار اتفاق نے اٹھائیس مئی کی یاد تازہ کر دی۔ بس اس مقابلے نے توگویا مقابلہ بازی کا بند دروازہ ہی کھول دیا۔ مردان بورڈ نے پشاور بورڈ اور مالاکنڈ بورڈ کی ہوا اکھیڑ کر رکھ دی اور وہاں ایک ایسی ہونہار طالبہ دریافت ہوئی جس نے 1100 میں سے 1100 نمبر حاصل کے ورلڈ ریکارڈ قائم کر دیا۔ بس پھر کیا تھا؟
گزشتہ دنوں پنجاب کے بورڈز نے میٹرک کے نتائج کا اعلان کر کے جہاں دنیا بھر کو حیران و پریشان کر دیا وہاں 1100 میں سے 1100 نمبر حاصل کرنے کے اس اتوار بازار نے میرے خاندان میں تمام ان بچوں کی ہوا ڈھیلی کر دی ہے جو او لیول اور اے لیول میں A's Straight لے کر خاندان کے باقی بچوں کو شرمندہ کرنے کا فریضہ سر انجام دے رہے تھے۔ اس نتیجے کے بعد تو وہ بھی منہ چھپائے پھر رہے ہیں۔
اب ذرا دل تھام کر بیٹھیں اور نتائج کی تفصیل پڑھیں۔ ملتان بورڈ کے 550 طلبہ و طالبات نے گیارہ سو میں سے گیارہ سو نمبر حاصل کیے ہیں۔ بھلا ڈی جی خان بورڈ کیسے پیچھے رہ جاتا؟ انہوں نے بھی اپنے ہاں جوہرِ قابل تلاش کرنے کا مشکل فریضہ سر انجام دیتے ہوئے اپنی تمام تر پسماندگی کے باوجود 432 ایسے طلبہ و طالبات دریافت کر ہی لیے۔ ایک بدخواہ نے درفنطنی چھوڑی ہے کہ ڈیرہ غازی خان بورڈ کے حکام نے اپنے علاقے میں یہ ٹیلنٹ سردار عثمان بزدار جیسے جوہرِ قابل کی عمران خان کے ہاتھوں دریافت کو سامنے رکھتے ہوئے دریافت کیا۔واللہ عالم بالصوا ب۔ ہمیں بدخواہوں کی پھیلائی ہوئی افواہوں سے کیا؟ عمران خان جانے اورسردار عثمان جانیں۔ ہم تو فی الحال پنجاب کے بورڈ کے نتائج پر بات کر رہے ہیں۔ بہاولپور بورڈ میں 242 بچوں نے 1100 میں سے 1100 نمبر حاصل کیے۔ لاہور میں تو ویسے بھی خود سردار عثمان بزدار فرو کش ہیں۔ وہاں بھی ان کے سعد اثرات نے نتائج کو تہ و بالا کر کے رکھ دیا اور وہاں 707 بچوں نے 1100 میں سے 1100 نمبر حاصل کیے۔ پنجاب کے باقی بورڈز کا بھی یہی حال ہے۔
شروع شروع میں تو ایسا ہوا کہ پنجاب کے بورڈز ان نتائج کو عام کرنے میں شرم محسوس کر رہے تھے اور پہلی خبر میں یہ بتایا گیا کہ لاہور میں کئی بچوں نے جبکہ ملتان بورڈ کے متعدد بچوں نے گیارہ سو میں سے گیارہ سو نمبر حاصل کیے ہیں تاہم یہ ویسا ہی معاملہ تھا جیسا رسا چغتائی کا شعر ہے کہ
صرف مانع تھی حیا بندِ قبا کھلنے تک
پھر تو وہ جانِ حیا ایسا کھلا‘ ایسا کھلا
جب سارے نتائج سامنے آئے پھر تو سمجھیں ''لُٹ‘‘ ہی پڑ گئی۔ کیا لاہور بورڈ‘ کیا ملتان بورڈ‘ کیا ڈی جی خان اور بہاولپور بورڈ۔ کیا سرگودھا‘ اور کیا گوجرانوالہ بورڈ۔ شنید ہے کہ پہلے پہل بورڈز نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ گیارہ سو میں سے گیارہ سو نمبر حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات کی تعداد جاری کرنے پر پابندی ہوگی۔ سوشل میڈیا پر متوقع اور ممکنہ تنقید سے بچنے کے لیے وزارتِ تعلیم نے تمام بورڈز کو ہدایت کی تھی کہ پورے پورے نمبر حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات کی تعداد جاری نہ کرے؛ تاہم پرائیویٹ سکولوں نے از خود اپنے ان طلبہ و طالبات کے نام جاری کر دیے جنہوں نے سو فیصد نمبر حاصل کیے تھے۔ اس کے بعد مقابلے بازی کا بند ٹوٹ گیا اور معلوم ہوا کہ ہر بورڈ میں سینکڑوں ایسے ذہین و فطین طلبہ و طالبات موجود ہیں جنہوں نے 100 فیصد نمبر حاصل کر کے دنیا بھر میں اپنی قابلیت کا جھنڈا گاڑنے کے علاوہ ایک نیا عالمی ریکارڈ بھی بنا ڈالا ہے۔
ملتان بورڈ کے نتائج کی تفصیلات میں جائیں تو مزید ہوشربا حقائق سامنے آتے ہیں۔ امسال میٹرک کے امتحان میں 130310 طلبہ و طالبات امتحان میں شریک ہوئے۔ ان میں سے 129455 امیدوار کامیاب ہوئے۔ یہ ملتان بورڈ کی تریپن سالہ تاریخ میں ایسا نتیجہ ہے جس کی مثال اس سے پہلے ملنا ممکن نہیں۔ صرف 845 طلبہ و طالبات ناکام ہوئے اور یہ وہ بچے تھے جو غیر حاضر تھے یا نقل کرتے ہوئے پکڑے گئے تھے۔ اگر یہ اپنا پرچہ صرف خالی ہی چھوڑ آتے تو اچھی فرسٹ ڈویژن حاصل کر لیتے مگر بے وقوفوں کے سر پر سینگ تھوڑی ہوتے ہیں۔ پتا چلا ہے کہ ملتان اور ڈیرہ غازی خان بورڈ میں بعض بچوں نے 1117 تک نمبر لے لیے تھے جو بعد ازاں کم کر کے گیارہ سو کر دیے گئے۔ اس تعلیمی اڑان کا کریڈت اگر شفقت محمود کو نہ دیا جائے تو بہت زیادتی ہوگی۔
میں نے شاہ جی سے پوچھا کہ آخر وزارت ِتعلیم نے بورڈز کو 1100 میں سے 1100 نمبر لینے والے طلبہ و طالبات کی تعداد جاری کرنے سے کیوں روکا تھا؟ شاہ جی فرمانے لگے :اس سے ہمارے تعلقات دیگر ممالک سے خراب ہونے کا اندیشہ تھا بالکل ویسے ہی جیسے توشہ خانے والے معاملے میں تحفوں کی تفصیل تشت ازبام کرنے سے ہمارے دوست ممالک سے تعلقات خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔ میں نے حیرانی سے پوچھا وہ کیسے؟ شاہ جی کہنے لگے: اتنے شاندار اور ناقابلِ مقابلہ قسم کے نتیجے کے آؤٹ ہو جانے سے دوست ممالک کے بچوں کا لاشعور تباہ ہونے اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہونے کا اندیشہ تھا۔ بہر حال اب تو جو ہونا تھا سو ہو گیا۔
کالم ختم ہو گیا تھا کہ اچانک کراچی سے رستم لغاری کا فون آ گیا۔ پوچھنے لگا: بھائی جان! اگر جادوٹونے اور ڈنڈے میں میچ پڑ جائے تو کون جیتے گا؟ میں نے کہا: فرعون کے دربار میں جب ایسا معاملہ پیش آیا تھا تو عصایعنی ڈنڈا جادو پر غالب آیا تھا۔ رستم لغاری نے میرا شکریہ ادا کیا اور فون بند کر دیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں