"KMK" (space) message & send to 7575

کپاس کی موجودہ اور گندم کی آئندہ فصل

ہر طرف سے بری خبروں کی آمد آمد ہے۔ روپے کے مقابلے میں ڈالر ہر روز اپنا سابقہ ریکارڈ توڑتا ہے اور نیا ریکارڈ قائم کرتا ہے۔ چینی، گھی، آٹا، سبزی اور دالیں ملکی تاریخ کی بلند ترین قیمت پر فروخت ہو رہی ہیں۔ جی ڈی پی بڑھ کر بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ اس جی ڈی پی سے مراد خدانخواستہ گراس ڈومیسٹک پروڈکٹ نہیں بلکہ گیس، ڈیزل، پٹرول ہے۔ پٹرول کی قیمت بڑھنے کو تو چلیں عالمی منڈی میں بڑھنے والی قیمتوں سے منسلک کرکے جواز دیا جا سکتا ہے مگر جب حکمران اور ان کے طبلچی بار بار اس بات کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں کہ پاکستان میں تیل کی قیمت نہ صرف سارے خطے میں سب سے کم ہے بلکہ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں تیل کی قیمتیں کم ترین ہیں تو ہنسی سی آ جاتی ہے اور دل کرتا ہے کہ اس حقیقت نما جھوٹ کا پردہ چاک کیا جائے مگر فی الوقت تو میرے پاس ایک اچھی خبر ہے اور میرا دل چاہ رہا ہے کہ اسے بھی قارئین تک پہنچایا جائے۔ ضروری نہیں کہ ہر وقت صرف بری خبروں کو ہی پھیلایا جائے۔ اور یہ اچھی خبر روئی کے تازہ ترین اعدادوشمار ہیں۔
یہ اعدادوشمار پندرہ اکتوبر کو پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کی جانب سے جاری کردہ ہیں۔ ان اعدادوشمار کے مطابق اب تک روئی کی 52,08,339 گانٹھیں تیار ہو چکی ہیں۔ گزشتہ سال یعنی 2020 کے جننگ سیزن میں پندرہ اکتوبر تک روئی کی گانٹھوں کی تعداد 26,88,385 تھی۔ اس سال پندرہ اکتوبر تک ملکی روئی کی پیداوار گزشتہ سال کے مقابلے میں 25,19,954 گانٹھیں زیادہ ہے اور یہ اضافہ 94 فیصد بنتا ہے۔ اگر اس تعداد کو علاقائی حوالوں سے دیکھا جائے تو پنجاب میں گزشتہ سال اسی تاریخ تک 1213908 گانٹھیں پیدا ہوئی تھیں جبکہ امسال یہ تعداد بڑھ کر 22,66,331 ہو چکی ہے اور ابھی جننگ کا سیزن اور چنائی جاری ہے۔ پنجاب میں روئی کی پیداوار میں 87 فیصد کے لگ بھگ اضافہ سامنے آیا ہے اور سندھ میں صورتحال اس سے کہیں بہتر ہے۔ وہاں گزشتہ سال کی 14,74,477 گانٹھوں کے مقابلے میں امسال 29,42,008 گانٹھیں ہیں جو گزشتہ سال سے 99.53 فیصد زائد ہے یعنی پیداوار تقریباً دوگنا ہے۔ سابقہ تخمینوں کے حساب سے کپاس کی متوقع پیداوار پچاسی لاکھ گانٹھ کے لگ بھگ تھی؛ تاہم حالیہ اعدادوشمار کو دیکھیں تو امید کی جا سکتی ہے کہ اب یہ پیداوار نوے سے پچانوے لاکھ گانٹھیں ہو جائے گی بلکہ ممکن ہے کہ یہ پیداوار ایک کروڑ کے نزدیک پہنچ جائے۔ گزشتہ سال کی پیداوار ساڑھے چھپن لاکھ گانٹھوں کے مقابلے میں اگر پچانوے لاکھ گانٹھیں بھی ہو جائے تو یہ ساڑھے اڑتیس لاکھ گانٹھوں کا فرق ہے‘ جو گزشتہ سال کی پیداوار سے اڑسٹھ فیصد زائد ہے۔
ڈیڑھ کروڑ گانٹھوں کی مقامی کھپت کو سامنے رکھیں تو گزشتہ سال کے مقابلے میں تقریباً چالیس لاکھ گانٹھیں کم درآمد کرنا پڑیں گی‘ جس سے نہ صرف اربوں روپے کا زرمبادلہ بچے گا بلکہ ملک میں گزشتہ دو تین برسوں کے دوران مسلسل زوال پذیر جننگ کی صنعت کو بھی سہارا ملے گا۔ کپاس کی کم پیداوار سے جہاں ملکی ٹیکسٹائل کی صنعت کے لیے مسائل کھڑے ہوتے ہیں وہیں کپاس کی فصل کے ساتھ منسلک دیگر کاروبار اور ذیلی اشیا کی پیداوار بھی متاثر ہوتی ہے۔ کپاس کی کم پیداوار کا براہ راست اثر بنولے کی پیداوار پر پڑتا ہے۔ اس سے بنولے کا تیل اور مویشیوں کے لیے پروٹین بھری خوراک 'کَھل‘ بنتی ہے۔ خاص طور پر دودھ دینے والے مویشیوں کیلئے کَھل ہمارے ملک میں پروٹین بھری خوراک کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اس سال جن کاشتکاروں نے کپاس کاشت کی‘ وہ اس کی پیداوار اور آمدنی سے کسی حد تک مطمئن ہیں۔ گو کہ جنوبی پنجاب میں کپاس کی تباہی نے مکئی کی فصل کے دروازے کھول دئیے ہیں اور سال میں دو فصلیں حاصل کرنے کے حوالے سے مکئی کی پیداوار اور اس کے نتیجے میں آمدنی کافی زیادہ ہو جاتی ہے۔ گندم کی قیمت میں اضافے کا براہ راست اثر مکئی کی قیمت پر پڑتا ہے کیونکہ یہ جانوروں کی خوراک میں استعمال ہونے والا سب سے بڑا اور گندم کا متبادل جزو ہے۔
ادھر جنوبی پنجاب میں کپاس کی پیداوار میں اضافے کے ساتھ ہی اس مسئلے پر بحث شروع ہو گئی ہے کہ اس کا سہرا کس کے سر باندھا جائے؟ جیساکہ تھوڑا عرصہ پہلے میں نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ پیداوار میں اضافے کی کئی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ کاشتکار نے بلا جواز اور بلا ضرورت زرعی ادویات کے استعمال میں احتیاط برتی ہے۔ اس کے لیے جنوبی پنجاب کے سیکرٹری زراعت نے خاصی بھاگ دوڑ کی اور ایک عرصے کے بعد محکمے کو بھی پوری طرح فعال کرکے اس کام پر لگایا۔ کاشتکار کپاس کی فصل پر پہلا سپرے کرنے میں جو جلد بازی کیا کرتے تھے‘ اس بار انہوں نے محکمے کی ہدایت کے مطابق پہلے دو اڑھائی مہینے سپرے سے پرہیز کیا۔ اس غیرضروری کام سے بچنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ فصل پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہونے کے ساتھ ساتھ خرچے کی بچت نے کاشتکار کی شرح منافع بڑھا دی۔ اس کے علاوہ نئے بیجوں نے کسی حد تک (مکمل طور پر تو نہیں) وائرس کے خلاف مزاحمت دکھائی، ساتھ ہی موسم نے اپنا رول ادا کیا اور کپاس کی فصل نے اپنا رنگ جمایا۔
سیانے کہتے ہیں کہ فتح کے سو دعویدار ہوتے ہیں جبکہ شکست لاوارث ہوتی ہے۔ جونہی کپاس کی فصل کے شاندار نتائج آنا شروع ہوئے محکمہ زراعت نے اس کا سارے کا سارا کریڈٹ اپنے کھاتے میں ڈالنے کا شور و غوغا شروع کر دیا۔ ایک تقریب میں سیکرٹری زراعت جنوبی پنجاب نے موسم اور بیج کی بہتر اقسام کو کوڑے دان میں ڈالتے ہوئے سارے کا سارا کریڈٹ اپنے کھاتے میں ڈالتے ہوئے گزشتہ سال کے موسم کا ڈیٹا بھی سامنے رکھا اور کہا کہ گزشتہ سال موسمیاتی مدد امسال کے مقابلے میں زیادہ تھی لیکن فصل اس سال بہتر ہوئی ہے جو یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہے کہ کپاس کی فصل اور پیداوار میں بہتری صرف ہمارے اقدامات کا نتیجہ ہے۔ وہاں مختلف لوگ بیٹھے ہوئے تھے جو بوجوہ اس دعوے کی تردید نہ کر سکے۔ بھلا محکمہ زراعت کی چھتری تلے کام کرنے والے مجبور لوگ اور کاروباری ادارے جنوبی پنجاب کے سیکرٹری زراعت کی بات کو کس طرح رد کر سکتے تھے لہٰذا خاموش رہے‘ لیکن اب سندھ سے کپاس کے آنے والے اعدادوشمار نے ایک سوال پیدا کر دیا ہے کہ جنوبی پنجاب میں کپاس کی فصل میں 87 فیصد اضافے کا سارا کریڈٹ تو محکمہ زراعت جنوبی پنجاب کی کاوشوں کو جاتا ہے‘ لیکن سندھ میں کپاس کی فصل میں ننانوے فیصد سے زائد اضافے کا سہرا کس کے سر باندھا جائے؟
یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب ہر فریق اپنی مرضی کے مطابق تلاش کرے گا اور اپنی مرضی کے مطابق بیان کرے گا‘ لیکن اصل بات یہ ہے کہ کم از کم کاشتکار کے حوالے سے اور اس سے بڑھ کر ملکی معیشت کیلئے کپاس کی پیداوار میں ستر فیصد کے لگ بھگ اضافے نے جو بہتر امکانات پیدا کیے ہیں‘ وہ خوش آئند ہیں؛ تاہم زرعی مداخل کے نرخوں میں ہونے والے ہوشربا اضافے کے باعث مجھے خوف ہے کہ آئندہ گندم کی فصل شاید وہ نتائج نہ دے سکے جس کی توقع کی جا رہی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو آنے والے دنوں میں ایک اور مشکل پیدا ہو جائے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں