"KMK" (space) message & send to 7575

قصہ ایک شہرِ قدیم کا……(4)

جس طرح امریکہ میں تقریباً ہر پرانے شہر میں ایک عدد 'ڈائون ٹائون‘ ہوتا ہے اسی طرح پاکستان میں تقریباً ہر پرانے شہر میں ایک مزید پرانا شہر ہوتا ہے۔ اگر یہ شہر فصیل والا شہر ہو تو یہاں ایک عدد اندرون شہر بھی ہوتا ہے۔ لاہور کا اندرون شہر تیرہ عدد دروازوں میں گھرا ہوا ہے۔ مظفر گڑھ چار دروازوں کا شہر ہے اور ملتان چھ عدد دروازوں کے درمیان آباد شہر ہے۔ جیسے پاکستان کے باقی اندرون شہر تنگی، گھٹن اور دیگر مسائل کا شکار ہیں، ملتان اندرون شہر کے رہائشی بھی انہی مشکلات کا شکار ہیں۔
ملتان سرکلر روڈ کے اندر دائرے میں واقع پرانے شہر کو ویسے تو بے شمار مسائل کا سامنا ہے؛ تاہم ٹریفک کا مسئلہ شاید اس سلسلے میں سب سے سنگین ہے۔ تنگ گلیاں اور پھر ان میں تجاوزات۔ ملتان کا ہنوں کا چھجہ، اندرون شہر کے اندر مزید ایک اندرون شہر ہے۔ بعض گلیاں تو ایسی کہ اگر کوئی شخص وفات پا جائے تو میت کو ہاتھوں پر اٹھا کر پہلے باہر لایا جاتا ہے اور پھر چارپائی پر ڈالا جاتا ہے۔ سید یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم بنے تو اندرون شہر کی بہتری کے لیے واحد کام یہ کیا کہ اپنے جد امجد سید موسیٰ پاک گیلانی کے دربار تک جانے کا راستہ کھلا کروا دیا اور وہاں پارکنگ کی جگہ بنوا دی۔ کسی نے بتایا کہ یہ کام شاید اٹلی کی حکومت کے فراہم کردہ ایک کروڑ ڈالر والی رقم میں سے کروایا گیا تھا۔
گدی نشینوں اور مریدوں کو بہرحال اس سے کافی آسانی ہو گئی ہے۔ جہاں تک پیر کا فیضان تھا، وہاں تک تو لوگوں کو سہولت میسر آ گئی ہے باقی شہر اللہ کے حوالے ہے۔ اٹلی کی حکومت نے ملتان شہر کی قدامت کو مدِنظر رکھتے ہوئے اسے روم کا جڑواں شہر قرار دیا اور جہاں تک میری یادداشت کام کرتی ہے اٹلی کی حکومت نے ملتان کے شہر کی بحالی کے لیے نہ صرف پینتالیس کروڑ کا فنڈ عطا کیا بلکہ کنزرویشن کے ماہرین بھی مہیا کیے جو واقعتاً یہ کام جانتے تھے۔ اس پروجیکٹ کے تحت چار کام ہوئے۔ پہلا یہ کہ ملتان کا قدیمی حرم دروازہ دوبارہ اپنی اصل حالت میں لایا گیا۔ دروازے کے ارد گرد ساری تجاوزات ختم کروائی گئیں۔ دروازے کو پرانے انداز میں مٹی اور چونے سے پلستر کیا گیا۔ ٹوٹے ہوئے کنگرے مرمت کیے گئے۔ کھڑکیاں اور دروازے نئے لگائے گئے۔ باہر دونوں اطراف سے غیر ضروری عمارتیں ختم کی گئیں اور دروازہ اپنی پرانی شکل میں پوری طرح نظر آنا شروع ہو گیا۔ دوسرا کام یہ ہوا کہ قدیمی مسافر خانہ‘ جو بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا‘ ممکنہ حد تک اپنی پرانی شکل میں بحال کیا گیا۔ تیسرا کام یہ ہوا کہ اندرون پاک دروازہ واقع صرافہ بازار کو بالکل نئی شکل دے دی گئی۔ بازار کا سارا فرش نیا لگایا گیا۔ دکانوں کے اوپر واقع رہائشی چوباروں اور گھروں کو رنگ روغن کروا کر نئی آب و تاب دی گئی اور سب سے بڑھ کر یہ کیا گیا کہ بجلی، کیبل اور ٹیلی فون وغیرہ کے لٹکے ہوئے تاروں کو مکمل طور پر زیر زمین کر دیا گیا‘ اور سارا بازار ہر قسم کے دکھائی دینے والے تاروں سے صاف ہو گیا۔ اب اس بازار کا منظرنامہ ایسا خوبصورت ہو گیا ہے کہ کبھی اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ چوتھا اور آخری کام ہوا ہے کہ پاک دروازے سے دہلی دروازے تک سرکلر روڈ کی فصیل شہر کے ساتھ عشروں سے قائم دکانیں اور تجاوزات ختم کر دی گئی ہیں۔ درمیان میں تین جگہوں کے علاوہ فصیل کا یہ حصہ صاف ہو گیا ہے اور اینٹوں سے مرمت کی گئی فصیل دور تک صاف نظر آتی ہے۔ خونی برج سے دہلی دروازے کے درمیان تین جگہوں پر ابھی تجاوزات والی دکانیں اور گھر موجود ہیں۔ اللہ جانے یہ جگہیں کیسے صاف نہیں ہوئیں جبکہ ان کے اطراف میں باقی ساری فصیل تجاوزات سے پاک کر دی گئی ہے۔
خیر ملتان نے روم کا جڑواں شہر ہونے کا اعزاز پا کر کون سا روم بن جانا تھا؛ تاہم اس پروجیکٹ کا پہلا فیز تو مکمل ہو گیا اور کافی کام بھی ہوا مگر میرا خیال ہے کہ اٹلی والے بھی پاکستان میں اس پروجیکٹ کے دوران لگنے والے ''کھانچوں‘‘ سے بہت حیران‘ پریشان لوٹے ہوں گے۔ اٹلی کے بارے میں بھی مشہور ہے کہ یہ کرپشن کے معاملے میں سارے مغربی یورپ میں پہلے نمبر پر ہے مگر غالباً پاکستان میں معاملات کو دیکھ کر اٹلی والے خود کو پاکستانیوں کے سامنے طفلِ مکتب سمجھے ہوں گے اور خود کو ایمانداری کے بلند ترین مرتبے پر فائز کرنے لگ گئے ہوں گے۔ پہلا فیز مکمل ہوا تو گمان تھا کہ اب اٹلی والے حسب وعدہ اس کا دوسرا فیز شروع کریں گے مگر کئی ماہ پہلے اس فیز کے مکمل ہونے کے بعد اٹلی والوں نے ہاتھ کھینچ لیا اور گھنٹہ گھر میں قائم اس پروجیکٹ کا دفتر بند کر دیا۔ اٹلی والوں نے پہلے فیز میں ہونے والی غیر ضروری تاخیر اور فنڈز کو اللوں تللوں میں اڑاتے دیکھ کر غالباً اگلا فیز شروع کرنے سے توبہ کر لی ہے۔
اب ایک اور پروجیکٹ آ گیا ہے۔ اٹلی والا پروجیکٹ تو خیر سے امدادی پروجیکٹ تھا اور اسے کھا پی کر برابر کرنے کے عوض کسی کو اس کی ادائیگی کا مسئلہ درپیش نہ تھا کہ وہ قرضہ نہیں تھا‘ لیکن اب والا معاملہ مختلف ہے۔ اب سنا ہے‘ ورلڈ بینک سے ملتان شہر کی کنزرویشن کے لیے لمبی چوڑی فنڈنگ ہوئی ہے مگر اس بار امداد نہیں، قرضہ ہے اور اس کے بارے میں ہمارے تحفظات بہرحال امداد والے معاملے سے مختلف بھی ہونے چاہئیں اور سنجیدگی کے متقاضی بھی۔ یہ پیسے بہرحال کل کو ہم نے ادا کرنے ہیں اور ادا بھی ڈالروں میں کرنے ہیں۔ جونہی ایسے قرضے آتے ہیں‘ فنکار اپنے ہتھیار چمکا کر میدان میں آ جاتے ہیں۔ اس قسم کے قرضوں کو استعمال کرنا کیونکہ ہمارا فرض اولین بن چکا ہے لہٰذا اس کے لیے نہایت ہی خوشنما فزیبلٹی رپورٹس اور لش پش سے بھرپور Presentations تیار کی جاتی ہیں۔ یہ میرے اور آپ جیسے لوگوں کے بس کی بات نہیں۔ اس کام میں مہارت رکھنے والے اپنی صلاحیتوں کے طفیل ایسے پروجیکٹس کو جس طرح اچک لیتے ہیں اس کا اندازہ لگانا عام آدمی کے بس سے باہر ہے۔
جس روز اس پروجیکٹ کی تعارفی تقریب تھی یہ عاجز بھی اس میں حسب معمول پچھلی نشستوں پر بیٹھا کان اور آنکھیں کھول کر تقریریں سننے اور ملٹی میڈیا پر چلنے والی سلائیڈز دیکھنے میں متوجہ رہا۔ اندرون شہر کی بہتری کے نام پر بننے والی اتھارٹی کی زیر نگرانی چلنے والے اس پروجیکٹ میں اول تو اندرون شہر کی تعمیر و ترقی کا کوئی ذکر ہی نہیں تھا۔ اس کا سارا زور وہی قلعہ کہنہ قاسم باغ پر تھا۔ کسی کو سرے سے کنزرویشن کا نہ تو علم ہے اور نہ ہی اس کا سلیقہ۔ قلعے پر ایک قدیمی دمدمہ تھا۔ یہ وہ مقام تھا جہاں ملتان کا شجاع، دلیر اور بہادر آخری مسلمان حکمران نواب مظفر خان دو جون 1818 کو سکھوں کے خلاف جنگ کرتا ہوا زخمی حالت میں گرفتار ہوا اور اپنے بیٹوں سمیت شہید کر دیا گیا۔ اس معرکے میں ملتان کے قلعے کی فصیل مشہور زمانہ زمزمہ عرف بھنگیوں والی توپ کے ذریعے توڑی گئی۔ یہ زمزمہ توپ کا آخری معرکہ تھا۔ لاہور مال روڈ کے آخری سرے پر عجائب گھر کے سامنے پڑی اس توپ کی تعارفی تختی پر لکھا ہے کہ توپ ملتان کے معرکے میں زخمی ہوئی اور ناکارہ قرار دے دی گئی۔ ظاہر ہے شہر پناہ کی فصیل تھی تبھی تو توڑی گئی۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں