"KMK" (space) message & send to 7575

جلیانوالہ باغ‘ اودھم سنگھ اور مخدوموں کا خط

تقریباً چالیس گھنٹے کے سفر کے بعد میں امریکہ میں ہوں۔ ملتان سے لاہور‘ دوحہ اور شکاگو سے ہوتا ہوا جب ٹولیڈو کے نواحی قصبے پیر یزبرگ میں اترا تو سیفان اور صنوریز کو گلے لگاتے ہی ساری تھکن ہوا ہو گئی۔ سوجے ہوئے پاؤں کے ساتھ زمین پر بیٹھنا محال تھا مگر جب بیٹھ کر ان دونوں کو ساتھ لپٹایا تو لگا درد کہیں اڑن چھو ہو گیا ہے۔ جب ملتان سے روانہ ہوا تو وہاں ابھی سردی کی آمد کے بس آثار ہی تھے اور رات کو خنکی کا آغاز ہوا تھا مگر ادھر پیر یزبرگ میں گو کہ یہاں کے حساب سے ابھی سردی کا جوبن نہیں آیا مگر ہم ملتانیوں کیلئے سمجھیں ''کوئٹہ چل رہا تھا‘‘۔ یہ 'کوئٹہ چلنا‘ بھی عجب اصطلاح ہے۔ پنجاب کے موسم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کشمیر اور شمالی علاقہ جات کے موسم سے جڑا ہوا ہے۔ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق ہے یا نہیں‘ تاہم مشہورضرور ہے۔ دوسری طرف ملتان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں کا موسم بقیہ پنجاب کے برعکس کشمیر‘ مری اور شمالی علاقہ جات کے بجائے کوئٹہ سے جڑا ہوا ہے اور یہاں سردی کا انحصار کوئٹہ میں پڑنے والی سردی پر ہے۔ اسی لیے جب ملتان میں شدید ٹھنڈی ہوا چلے تو بڑے بوڑھے کہا کرتے تھے کہ ''کوئٹہ چل رہا ہے‘‘ یعنی کوئٹہ سے ٹھنڈی ہوا آ رہی ہے۔
ایک دوست نے ایک واقعہ سنایا کہ ملتان کی ایک بزرگ خاتون اپنے بیٹے کے پاس ولایت گئی تو وہاں سردی کا موسم تھا۔ اب ظاہر ہے ولایت کی سردی کا ملتان کی سردی سے کیا موازنہ اور مقابلہ تھا۔ شدید سردی اور یخ بستہ ہوا نے اماں جی کے کڑاکے نکال دیے۔ ملتان کی شہرہ آفاق گرمی کے طفیل ملتانیوں کے بارے میں گرمی سے جڑے ہوئے کئی لطیفے بھی مشہور ہیں۔ خیر ملتان سے اماں جی کی خیر خیریت دریافت کرنے کیلئے فون کیا گیا تو آگے سے اماں جی نے ملتان سے فون پر بات کرنے والے کو بتایا کہ وہ جب سے ولایت میں آئی ہیں ادھر مسلسل کوئٹہ چل رہا ہے۔ سو قارئین! ادھر پیریربرگ میں کل سے کوئٹہ چل رہا ہے اور رات تو ایسی برفباری ہوئی کہ مزہ آ گیا۔ لیکن مزہ صرف اس لیے آیا کہ یہ موسم کی پہلی باقاعدہ برفباری ہے۔ دو چار بار اور برفباری ہوئی تو آمدورفت کے مسائل کے باعث سب لوگ اس برفباری سے تنگ آ جائیں گے۔ مری وغیرہ میں جا کر برفباری سے لطف اندوز ہونا اور ہوٹل کی بالکنی سے برفباری کا منظر دیکھنا خاصا خوش کن کام ہے لیکن مسلسل برفباری میں گزارا کرنا ایک انتہائی دقت طلب کام ہے اور بندہ تنگ و پریشان ہو جاتا ہے۔ ابھی یہاں پہلی برفباری ہے اور یہ مسلسل برفباری کا پیش خیمہ ہے۔ درجہ حرارت صفر کو چھو رہا ہے اور چند دن بعد یہ مزید نیچے چلا جائے گا۔
رات سونے سے پہلے باہر نکل کر دیکھا‘ تقریباً تین چار انچ برف گر چکی تھی اور ابھی برفباری جاری تھی۔ برف کے گرنے والے گالے دم بدم بڑے ہو رہے تھے۔ گمان تھا کہ صبح اٹھیں گے تو سڑکیں برف سے لدی ہوں گی۔ رات کے پچھلے پہر ہلکی ہلکی گھنٹی کے ساتھ کوئی ٹرک مسلسل شور مچا رہا تھا۔ میں سیفان اور صنوریز کے درمیان میں سو رہا تھا۔ اب اس عمر میں سپرنگ والے گدے سے دو بچوں کے درمیان میں سے اٹھ کر نکلنا خاصا مشکل کام ہے مگر میں نے ہمت کی اُٹھ کر کھڑکی کا پردہ ہٹایا۔باہر سڑک پر برف صاف کرنے والا ٹرک برف ہٹا رہا تھا۔ سارا لان برف سے ڈھکا ہوا تھا مگر سڑک صاف ہو رہی تھی۔ صبح اٹھا تو صرف ڈرائیو وے پر برف تھی جبکہ ساری سڑک بالکل صاف ہو چکی تھی۔ ادھر ملتان میں یہ عالم ہے کہ میرے گھر کی طرف جاتے ہوئے بوسن روڈ سے گلشن مہر کالونی والا راستہ اختیار کریں تو بوسن روڈ سے بیس پچیس گز اندر گلشن مہر کا سیوریج پائپ گزشتہ آٹھ دس سال سے بند پڑا ہے۔ اس بیس پچیس گزکے بند پائپ کو کھولنے کا کبھی کسی نے شاید سوچا ہی نہیں۔ اس چند گز کے بند پائپ کو مستقل بنیادوں پر ٹھیک کرنے اور مسئلے کو حل کرنے کے بجائے واسا والوں نے اس بند پائپ کو بائی پاس کرنے کی غرض سے اوپر زمین پر ایک ربڑ کا پائپ ڈال دیا ہے اور ساتھ ایک ''سلج پمپ‘‘ لگا دیا ہے۔ دیوار کے ساتھ ایک مستقل چار پائی پڑی ہے جو اس پمپ کے آپریٹر کا پمپنگ سٹیشن بھی ہے اور دفتر بھی۔ گزشتہ ایک عشرے سے روزانہ تین لوگ اس جگہ پر آٹھ آٹھ گھنٹے کی تین شفٹیں لگا کر دیہاڑی پوری کر رہے ہیں۔ اس دوران دوبار یہ سڑک بن بھی چکی ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ جب سڑک بننے لگی تھی اس بیس گز کو کھود کر نیا پائپ ڈال دیا جاتا اور مسئلہ حل کر دیا جاتا مگر نہ کسی کو فکر ہے اور نہ ہی یہ کسی کی ترجیحات میں ہے۔ آدھی سڑک اس ڈسپوزل پمپ اور چار پائی پر قائم دفتر و رہائش کی وجہ سے بند ہے اور یہاں اکثر گاڑیاں پھنسی نظر آتی ہیں۔ اگر واسا ملتان والے یہاں پیر یزبرگ میں ہوتے تو انتظار کرتے کہ لوگ اپنی گاڑیاں چلا چلا کر سڑک پر پڑی ہوئی برف خود ہی صاف کر دیں گے‘ بھلا اس روز روز گرنے والی برف کو صاف کرنے کی زحمت کیوں کی جائے؟
قارئین! مجھے اپنے گزشتہ کالم کے حوالے سے یاد آیا کہ مخدوموں اور گدی نشینوں نے اپنا وہ شہرہ آفاق خط جس اعلیٰ ہستی کی شان میں مع القابات عالیہ لکھا تھا اس کی تفصیل بتانا بھول گیا کہ وہ عالی مرتبت شخصیت کون تھی؟ یہ خط جس انسان دوست اور سراپا رحم و کرم شخصیت کے بارے میں لکھا گیا تھا وہ سرمائیکل فرانسس اوڈ وائر کی تھی۔ یہ وہ شخص تھا جو جلیانوالہ باغ میں آزادی کے متوالوں پر فائرنگ کا حکم جاری کرنے والا لیفٹیننٹ گورنر پنجاب تھا۔ 13اپریل 1919ء کو اس حکم پر بریگیڈیئر جنرل ریجنا لڈ ڈائر نے گورکھا رجمنٹ کے ساتھ جلیانوالہ باغ میں فائرنگ کی۔ اس فائرنگ کے نتیجے میں برطانوی اعداد و شمار کے مطابق 379لوگ مارے گئے تاہم اس وقت کے سول سرجن ڈاکٹر سمٹ کے بقول مرنے والوں کی تعداد1526تھی۔ جب سرمائیکل اوڈوائر کو اس قتل عام کی خبر ملی تو اس نے پیغام بھیجا:your action correct and the lieutenant-governor approves یعنی تمہارا اقدام درست تھا اور لیفٹیننٹ گورنر اس کی توثیق کرتا ہے۔ اس قتل عام پر ہونے والی انکوائری جو ''ہنٹرکمیشن‘‘ کر رہا تھا میں سر مائیکل اوڈ وائر نے جنرل ڈائر کو بچانے کی بھرپور کوشش کی مگر حالات کی خرابی اور بعد میں لگنے والے مارشل لا نے معاملہ خراب کردیا اور جنرل ڈائر کو اس قتل عام کا مجرم قرار دے کر ''نہایت سخت سزا‘‘ کے طور پر اسے فوج سے مستعفی ہونے کیلئے کہا گیا۔ کمیشن نے ابتدائی طور پر تو مائیکل اوڈ وائر کو صاف بری کردیا تاہم برطانیہ کے حکومتی حلقوں میں اس قتل عام پر بہت شور شرابا مچا اور اس کے نتیجے میں لیفٹیننٹ گورنر پنجاب کو اس کے عہدے سے فارغ کر دیا گیا۔ پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر سر مائیکل فرانسس اوڈوائر کی جلیانوالہ باغ کے قتل عام کے نتیجے میں ہونے والی اسی فراغت پر یہ چاپلوسانہ اور خوشامدانہ خط لکھا گیا۔ایک طرف ہمارے مخادیم اور گدی نشین خوشامد کر رہے تھے دوسری طرف 13مارچ 1940ء کو اودھم سنگھ نامی ایک آزادی پسند نے کیکسٹن ہال ویسٹ منسٹر میں دوران تقریب سر مائیکل فرانسس اوڈ وائر کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اودھم سنگھ اب ایک زندہ جاوید کردار ہے جبکہ یہ خط تاریخ کے کوڑے دان میں پڑا ہے اور کبھی کبھار میرے جیسا کوئی کم عقل اس کے درشن کروا دیتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں