"KMK" (space) message & send to 7575

دو گھنٹے کا سفر… (1)

میں ایک دوست کے ساتھ سفر کر رہا تھا۔ چھوٹا سا سفر تھا‘ یہی کوئی ڈیڑھ دو گھنٹے کا۔ ہم پاکستانیوں کیلئے شاید یہ سفر لمبا ہو؛ تاہم امریکہ وغیرہ میں ڈیڑھ دو گھنٹے کی مسافت مختصر سی سمجھی جاتی ہے۔ گاڑی میں میرے اس دوست کا ایک دوست بھی ہمارے ہمراہ تھا۔ اب اس دوست کا نام کیا لکھنا! بس یہی کافی ہے کہ وہ ہمارا دوست ہے اور خاصا پرانا دوست۔ اچھا بھلا سفر جا رہا تھا اور نہایت ہی خوشگوار گفتگو ہو رہی تھی۔ گفتگو کا موضوع سڑک کی دونوں اطراف لگے ہوئے بے شمار ٹنڈ منڈ درخت تھے جو تھوڑا ہی عرصہ پہلے سرسبز و شاداب تھے مگر سردیوں کے شروع ہوتے ہی پتوں سے محروم ہو کر محض لکڑی کے تنوں اور شاخوں میں تبدیل ہو چکے تھے۔ ریاست پنسلوینیا ویسے ہی بڑی سرسبز ہے اور اس کا تو نام ہی لارڈ ولیم پن‘ جو اس ساری جاگیر (ریاست) کا مالک تھا‘ نے اپنے باپ کے نام پر پنسلوینیا رکھا تھا۔ ریاست کے نام کا پہلا لفظ ''پن‘‘ اس کے والد کے نام پر تھا اور Sylvania لاطینی زبان کا لفظ ہے‘ جس کا مطلب Woodlands یعنی درختوں بھری سرزمین ہے۔ یہ ریاست اپنے نام کے عین مطابق اب بھی درختوں سے بھری ہوئی ہے اور ہر طرف سبزہ ہی سبزہ دکھائی دیتا ہے؛ تاہم سردیوں میں درختوں کی چند اقسام کے علاوہ بیشتر درختوں کے پتے خزاں کی نذر ہو جاتے ہیں اور محض لکڑی کے تنے اور شاخچے باقی رہ جاتے ہیں۔ بہار آتے ہی سب کچھ دوبارہ ہرا ہو جاتا ہے۔ مرحوم منیر نیازی کا ایک شعر یاد آ گیا:
دشت باراں کی ہوا سے پھر ہرا سا ہو گیا
میں فقط خوشبو سے اس کی تازہ دم سا ہو گیا
گفتگو کا موضوع درخت، سبزہ، ہر طرف پھرتے ہوئے سفید دم والے ہرن، اس ریاست میں آباد قدامت پرست عیسائی فرقے کے ''آمش‘‘ لوگ اور شمال کی نسبت کم سرد اور بہتر موسم تھا۔ اچانک پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے ہمارے دوست کے دوست نے سوال جڑ دیا کہ پاکستان کی سیاست کا کیا حال ہے؟ میں نے سوال سنا ان سنا کر دیا اور اپنے دوست سے پوچھا کہ کیا اسے علم ہے کہ امریکہ میں سفید دم والے ہرن یعنی وائٹ ٹیل ڈیئرز کی تعداد کتنی ہے؟ وہ دوست کہنے لگا: مجھے علم نہیں تاہم لاکھوں سے کیا کم ہوگی۔ میں نے ہنس کر کہا: پندرہ لاکھ سے زیادہ ہرن تو صرف آپ کی اس ریاست پنسلوینیا میں پائے جاتے ہیں۔ پچپن لاکھ کے لگ بھگ تو صرف ریاست ٹیکساس میں پائے جاتے ہیں۔ امریکہ میں کل وائٹ ٹیل ہرنوں کی تعداد تین کروڑ سے زائد ہے۔ ہر سال لاکھوں وائٹ ٹیل ہرن شکار کیے جاتے ہیں مگر ان کی تعداد تقریباً یکساں رہتی ہے۔ کبھی ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ان کی تعداد اتنی کم ہو گئی تھی کہ ان کے نابود ہونے کا خطرہ سر پر منڈلانے لگا تھا مگر آہستہ آہستہ یہ تعداد بڑھتے بڑھتے چار کروڑ سے بھی زیادہ ہو گئی؛ تاہم یہ تعداد ضرورت سے زیادہ تصور کی گئی اور اب یہ تعداد تین کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ ہر سال لاکھوں شکاری پرمٹ لے کر اس ہرن کا شکار کرتے ہیں اور ہر ریاست میں قائم یو ایس وائلڈ لائف اینڈ فشریز ڈیپارٹمنٹ کا شماریاتی شعبہ ریاست میں موجود کل ہرنوں کا تخمینہ لگا کر ان کی سالانہ بڑھوتری کے حساب سے شکار کے پرمٹ جاری کرنے کی تعداد مقرر کرتا ہے اور اسی حساب سے پرمٹ جاری ہو جاتے ہیں۔ بغیر پرمٹ شکار کرنے کا کوئی تصور نہیں۔ ہاں اس تعداد میں شکار کے پرمٹ جاری کرنے کے علاوہ ہر سال سڑکوں پر ایکسیڈنٹ کی صورت میں مرنے والے ہرنوں کی تعداد بھی شامل کی جاتی ہے۔ آج امریکہ میں ہر سال لاکھوں وائٹ ٹیل ہرن شکار ہونے کے باوجود آئی سی یو این کے کنزرویشن سٹیٹس میں یہ ہرن آخری درجے پر یعنی Least Concerned میں شمار ہوتا ہے۔ کنزرویشن سٹیٹس کے لحاظ سے جانور سات درجوں میں تقسیم ہیں۔ سب سے خراب درجہ (EX) Extinct (معدوم/ نابود) کا ہے۔ یہ جانور ماضی قریب تک ہماری زمین پر پائے جاتے تھے مگر بے تحاشا شکار، ماحول کا ختم ہونا، انسانی آبادی میں بے پناہ اضافہ، جنگلات کی کٹائی، موسمیاتی تبدیلی اور دیگر کئی عوامل کی بنا پر معدوم ہوگئے۔ ان مکمل طور پر معدوم جانوروں کے بعد ایک اور درجہ (EW) ہے جو Exlinct in Wild یعنی جنگل یا قدرتی ماحول میں معدومی۔ تیسرا درجہ Endangered (EN) یعنی معدومی کے خطرے سے دوچار جانور ہیں۔ چوتھا درجہ Vulnerable (VU) یعنی کمیابی کے خطرے سے دوچار ہے۔ پانچواں درجہ Near threatned (NT) یعنی خطرے کے قریب تر، چھٹا درجہ (NT) Not threatened یعنی انہیں کوئی خطرہ نہیں اور آخری درجہ (LC) یعنی Least concerned کا ہے جس کے معنی ہیں کہ ان کے بارے میں کسی کو فکر نہیں ہونی چاہئے۔ وائٹ ٹیل اسی درجے میں شمار ہوتا ہے لیکن اگر یہ ہمارے ہاں ہوتا تو کم از کم بھی یہ تیسرے درجے میں یعنی معدومی کے خطرے سے دوچار جانور ہوتا۔ یہاں یہ سڑکوں پر، میدانوں میں، پہاڑوں پر، پارکس میں، حتیٰ کہ گھروں کے پچھواڑوں میں اور صحنوں میں گھومتا نظر آتا ہے۔ میں نے اپنے اس دوست کو بتایا کہ کل میں بالٹی مور میں عرفان یعقوب کے ساتھ تھا۔ رات گھر پہنچے تو اس کی ڈرائیووے کے ساتھ گھاس پر کم از کم دس بارہ وائٹ ٹیل ہرن کھڑے تھے۔ میرے موبائل فون کے نکالتے نکالتے وہ اندھیرے میں گم ہو گئے۔
میری ان باتوں سے بور ہو کر میرے دوست کا دوست پچھلی سیٹ سے کہنے لگا: جناب میں نے سفید دم والے ہرنوں کے بارے میں نہیں‘ پاکستان کی سیاست کے بارے میں پوچھا تھا۔ میں نے بھی جواباً اسے کہا کہ میں نے بھی آپ کے سوال کے جواب سے بچنے کیلئے ان سفید دم والے ہرنوں کا تذکرہ چھیڑا تھا۔ میں پاکستان میں اسی موضوع سے چالو ہوں اور یہاں آکر بھی اگر اسی بے مقصد اور لاحاصل موضوع پر گفتگو کرنی ہے تو پھر اتنا لمبا سفر کرنے کا فائدہ؟ وہ کہنے لگا: ہم تو آپ سے آگاہی لینا چاہتے ہیں۔ میں زور سے ہنسا اور اسے کہا کہ میں خوب جانتا ہوں‘ آپ کتنی آگاہی لینا چاہتے ہیں‘ صرف شروع ہونے کی دیر ہے پھر آپ مجھے بتائیں گے کہ پاکستان میں ایسا کیا کچھ ہورہا ہے جس کا مجھ غریب کو پتا نہیں، اور یہ بھی کہ مجھے دراصل پاکستان کی سیاست اور حالات کا صحیح علم نہیں بلکہ ہم لوگوں کو تو یہ بھی پتہ نہیں کہ ہمیں پاکستان میں کون کون سی سہولتیں اور آسانیاں میسر ہیں اور ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ باقی دنیا میں کتنی مہنگائی اور کساد بازاری ہے۔ وہ ایک لمحے کیلئے دفاعی انداز میں چلا گیا اور کہنے لگا: نہیں خیر ایسی تو کوئی بات نہیں‘ میں تو آپ سے پوچھنا چاہتا تھاکہ پاکستان میں کیا سیاسی صورتحال ہے۔ آئندہ کے انتخابات میں کیا نتیجہ نکل سکتا ہے اور حکومت کی کارکردگی کیسی ہے‘ لیکن آپ تو کسی بات کا جواب دینے کیلئے ہی تیار نہیں۔ میں نے کہا: میرے بھائی! میں نے اپنی زندگی کوآسان بنانے کیلئے جو نئے قواعدوضوابط وضع کیے ہیں ان میں دوباتیں یہ بھی ہیں کہ کسی سے مذہبی بحث نہیں کرنی اور ہر کسی سے سیاسی گفتگو نہیں کرنی۔
دو تین لمحے خاموش رہنے کے بعد وہ کہنے لگا: اچھا یہ بتا دیں کہ پاکستان میں واقعی مہنگائی ہے یا یہ حکومت مخالفین کا پروپیگنڈا ہے؟ میں نے کہا: میں نہیں جانتا کہ آپ کا تعلق کس سیاسی پارٹی سے ہے تاہم اگر آپ کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے تو پاکستان اس وقت روئے ارض پر سب سے سستا ملک ہے‘ اگر آپ معقول آدمی ہیں تو پھر آپ کیلئے خبر کوئی خاص اچھی نہیں اور وہ یہ کہ پاکستان میں مہنگائی اپنے عروج پر ہے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں