"KMK" (space) message & send to 7575

بریف کیس اٹھا کر آنے اور جانے والے

بالآخر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے غیر معمولی پھرتیوں سے کام لیتے ہوئے ہمارے پیارے فیصل واوڈا صاحب کو بائیس ماہ کی محنت شاقہ کے بعد بدقتِ تمام نااہل قرار دے دیا۔ محض چھ‘ سات کاغذات کی چھان بین میں عرق ریزی کرتے ہوئے مسلسل بائیس ماہ لگانے سے کم از کم ایک بات تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہو گئی ہے کہ ہمارے ادارے کسی چیز کو ہلکا نہیں لیتے اور اپنی پوری صلاحیتیں صرف کرتے ہوئے اس بات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ابھی تو اپنا الیکشن کمیشن اس پیچیدہ اور گنجلدار قسم کے کیس پر مزید دوچار سال لگا دیتا مگر اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے جلد فیصلہ کرنے کے حکم نے اس کیس کی پُرسکون جھیل میں افراتفری پھیلا دی اور الیکشن کمیشن نے پچھلی ساری کسریں نکالتے ہوئے فیصل واوڈا صاحب کو سرکار سے لی جانے والی ساری تنخواہیں‘ مراعات‘ الاؤنسز اور دیگر خرچے وصول کرنے کا حکم جاری کردیا ہے۔ اگر اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے جلد فیصلہ کرنے کاحکم نامہ نہ آتا تو گمان ہے کہ فیصل واوڈا صاحب سینیٹ کی چھ سالہ مدت پوری کرنے کے بعد بارہ مارچ 2027ء کو باعزت ریٹائر ہوجاتے۔
اس دوران فیصل واوڈا صاحب نے اڑھائی سال اٹھارہ دن تک بطورِ رکن قومی اسمبلی مزے اڑائے۔ دو سال چار ماہ چھبیس دن تک وفاقی وزیر برائے آبی وسائل کے طور پر موج کی اور قومی اسمبلی کی نشست سے نااہلی کے متوقع فیصلے کے پیش نظر اسی روز اپنی قومی اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہو کر سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے؛ تاہم جاتے جاتے قومی اسمبلی کے رکن کے طور پر اپنا ووٹ بھی بھگتا گئے۔ اپنی نااہلی سے قبل واوڈا صاحب دس ماہ ا ٹھائیس دن تک سینیٹ کے درشن کرنے میں کامیاب رہے۔ اب یہ زیادتی ہے کہ ایک بندے سے اتنے سارے عہدوں پر اتنا عرصہ کام کرنے کے عوض حاصل کی گئی تنخواہیں‘ الاؤنسز اور مراعات واپس مانگ لی جائیں۔ اگر الیکشن کمیشن یہ آسان سا فیصلہ ایک دو ماہ کی سماعت کے بعد کر لیتا تو اپنے فیصل واوڈا صاحب کو چار دن کم ساڑھے تین سال کے دوران بطور رکن قومی اسمبلی‘ وفاقی وزیر اور رکن سینیٹ آف پاکستان کے طور پر حاصل کی جانے والی تنخواہیں مراعات اور الاؤنسز تو واپس نہ کرنا پڑتے۔ اس سلسلے میں الیکشن کمیشن کا رویہ تو ہمیشہ سے منتخب رکن کے حوالے سے خاصا ہمدردانہ ہوتا ہے اور عام طور پر یہ نااہلی والا کیس کم از کم اتنا لمبا تو ضرور چلتا ہے کہ رکن کی مدت ہی گزر جاتی ہے اور وہ اسمبلی سے باعزت فارغ ہوکر گھر پہنچ جاتا ہے بلکہ اپنے مظفر گڑھ والے جمشید دستی کی بی اے کی جعلی سند کا کیس اتنا لمبا چلا کہ موصوف اس دوران تین بار مزید الیکشن لڑ کر دو بار اسمبلی میں بھی پہنچ گئے۔ ان کی گریجوایشن کی جعلی ڈگری کا کیس اتنا پرانا ہو گیا کہ اس دوران موصوف نے مظفر گڑھ کے ایک وکیل کے پاس منشی گیری کے تجربے کو مدنظر رکھتے ہوئے ایل ایل بی کرنے کی کوشش کی اور اپنی جگہ کسی اور شخص کو بٹھا کر پرچے حل کروانے کی کوشش کی مگر کسی بدخواہ کی مخبری کے طفیل نہ صرف یہ کہ جعلی امتحان کنندہ پکڑا گیا بلکہ جمشید دستی پر Impersonation کا ایک اور کیس بن گیا مگر ابھی تک ان کے خلاف بی اے کی جعلی ڈگری والا کیس کسی کروٹ نہیں بیٹھا۔
2008 ء کے الیکشن میں موصوف نے شہادت العالمیہ کی ڈگری‘ جو بی اے کے برابر تصور ہوتی ہے‘ اپنے کاغذات نامزدگی کے ساتھ لف کی۔ ڈگری کے جعلی ہونے کی شکایت پر جب موصوف چیف جسٹس افتخار چودھری کے روبرو پیش ہوئے تو چار سال تک مدرسے میں پڑھنے کے دعویدار جمشید دستی اسلام کے بنیادی عقائد کے بارے میں کیے جانے والے سوالات کا جواب نہ دے سکے۔ ایک سوال کے جواب میں موصوف نے چیف جسٹس کو بتایا کہ اس نے حضرت یوسف علیہ السلام کی لکھی ہوئی قرآنِ مجید کی تفسیر پڑھی ہے۔ شہادت العالمیہ الاسلامیہ کی ڈگری پرائیویٹ امتحان کے ذریعے حاصل نہیں کی جا سکتی اور جمشید دستی نے یہ چار سالہ ڈگری مظفر گڑھ میں رہتے ہوئے ڈیرہ اسماعیل خان (جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے) کے مدرسے سے حاصل کی۔ اب ایسے حالات میں محض بائیس ماہ کے اندر فیصل واوڈا کے خلاف ہونے والا فیصلہ پھرتیوں کی فہرست میں نہیں آئے گا تو بھلا اور کہاں آئے گا؟
ہمارے ہاں دہری شہریت والے قانون نے سول سروس سے لے کر سیاست تک‘ ہر چیز کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا ہے۔ ہم جب بھی دہری شہریت کے حامل پاکستانیوں کے پاکستانی سیاست میں حصہ لینے کے خلاف کچھ لکھیں تو جوابی طور پر 28ارب ڈالر زرمبادلہ بھیجے جانے والا احسان ہمارے منہ پر مارا جاتا ہے۔ یہ اٹھائیس ارب ڈالر بھی ابھی سال 2020-21ء میں بھیجے گئے ہیں اس سے پہلے یہ رقم بیس‘ بائیس ارب ڈالر ہوتی تھی۔ اٹھائیس ارب ڈالر والی یہ ساری رقم دہری شہریت والے پاکستانیوں کے کھاتے میں ڈال دی جاتی ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ دہری شہریت کے حامل پاکستانی اس رقم کا تقریباً نصف بھیجتے ہیں جبکہ تقریباً نصف رقم بھیجنے والے پاکستانیوں کا تعلق مشرق وسطیٰ سے ہے جو وہاں ملازمتیں کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ ممالک پاکستانیوں کو اپنے ملک کی شہریت دیتے ہی نہیں۔ صرف یورپ‘ برطانیہ‘ آسٹریلیا‘ کینیڈا اور امریکہ سے دہری شہریت والے پاکستانی تیرہ‘ چودہ ارب ڈالر بھجواتے ہیں۔ دوسری طرف بھارت دنیا بھر میں مقیم اپنے شہریوں کے ذریعے تراسی ارب ڈالر سالانہ زرمبادلہ حاصل کر کے دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ ایک دو سال پہلے تک کسی بھارتی شہری کے پاس دہری شہریت نہیں تھی۔ کسی بھی دوسرے ملک کی شہریت حاصل کرنے سے پہلے بھارتی شہری کو اپنی بھارتی شہریت سے دستبردار ہونا پڑتا تھا۔ اب جاکر کہیں انہیں ''اوورسیز سٹیزن شپ آف انڈیا‘‘ (OCI) کا سٹیٹس ملا ہے؛ تاہم نہ تو وہ ایوانِ بالا (راجیہ سبھا) مرکزی اسمبلی (لوک سبھا) ریاستی اسمبلی یا کونسل کا ایکشن لڑ سکتے ہیں اور نہ ہی ووٹ ڈال سکتے ہیں۔ اس شہریت کے تحت وہ صرف بھارت آنے پر ویزے اور پولیس میں رپورٹ کرنے سے مستثنیٰ ہیں اور بس۔ مجھے یقین ہے کہ صرف ان سرکاری افسروں کے علاوہ جو ریٹائر ہونے کے بعد اپنا بوریا بستر اور بچے سمیٹ کر پاکستان سے باہر جا چکے ہیں‘ دہری شہریت کے حامل دیگر پاکستانی نژاد غیر ملکی شہری الیکشن لڑنے اور ووٹ ڈالنے پر پابندی کے باوجود حسبِ سابق پاکستان زرمبادلہ بھیجتے رہیں گے۔
دہری شہریت کے حامل پاکستانیوں کے ووٹ کے حق کا معاملہ میرٹ سے زیادہ سیاسی ہے وگرنہ یہی عمران خان صاحب ایک زمانے میں پاکستان سے باہر رہنے والے پاکستانیوں کے ووٹ کے حق کے شدید مخالف ہوا کرتے تھے۔ اب آئندہ الیکشن میں کم پڑنے والے متوقع ووٹوں کی جگہ انہیں پاکستان سے باہر مقیم پاکستانیوں کے ووٹ کی آس بندھی ہے تو انہوں نے اپنا پرانا موقف تبدیل کر لیا ہے۔ پاکستان میں الیکشن لڑنے کے خواہشمند شخص کے لیے لازم ہو کہ وہ الیکشن سے دو سال (کم ازکم) پہلے اپنی غیر ملکی شہریت سے دستبردار ہو چکا ہو تو ہی وہ الیکشن لڑنے کا اہل ہوگا۔ اور ہاں! الیکشن لڑنے والوں کے علاوہ یہ مدت بغیر الیکشن لڑے حکومت میں معاونِ خصوصی‘ مشیر اور دیگر حکومتی عہدوں پر اعزازی تعیناتی کے لیے بھی لازمی کی جائے۔ بریف کیس اٹھا کر پاکستان آنے اور بریف کیس اٹھا کر پاکستان سے واپس جانے کا سلسلہ کسی طور ختم ہونا چاہئے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں