"KMK" (space) message & send to 7575

امکانی منظرنامہ

ذاتی مشاہدے کی بنیاد پر میں بات تو صرف ملتان کی حد تک کروں گا لیکن باقی ملکی سیاست کون سی چاند پر ہو رہی ہے یا وہاں کے عوامی نمائندے اور امیدوار کون سا مریخ سے آئے ہیں کہ ان کے حالات مختلف ہوں۔ سو ملتان کے حالات و واقعات کو بھی پاکستان کے دیگر علاقوں کے مجموعی حالات کے قریب تر ہی سمجھیں۔ دو ماہ قبل تک ادھر یہ حال تھا کہ لگتا تھا‘ آئندہ الیکشن میں پی ٹی آئی کا ٹکٹ لینے والا صرف وہی شخص ہوگا‘ جسے مسلم لیگ (ن) سے ٹکٹ نہیں ملے گا اور اس نے یہ سوچ رکھا ہوگا کہ اس نے الیکشن تو بہرحال لڑنا ہے خواہ اس کے گھر والے بھی اسے ووٹ نہ دیں۔ دوسری طرف یہ دکھائی دے رہا تھا کہ اگلے انتخابات سے قبل مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ کے امیدواروں کے ہجوم پر لاٹھی چارج کرکے انہیں منتشر کرنا پڑے گا‘ لیکن یہ دو ماہ پرانی بات ہے۔ تب عمران خان کی حکومت کی بیڈ گورننس، پنجاب میں بزدار اینڈ کمپنی کی نااہلی اور کرپشن کے حسین امتزاج، مہنگائی اور ادارہ جاتی نااہلی نے مل جل کر ایسی صورتحال تخلیق کررکھی تھی کہ تحریک انصاف کے کئی ایسے ارکان اسمبلی‘ جو آج کل عمران خان اور پارٹی کیلئے تن دھن من قربان کرنے پر تیار نظر آتے ہیں‘ اڑھائی تین ماہ پہلے تک چوہوں کی طرح سرنگیں بنا کر چپکے چپکے مسلم لیگ (ن) سے اپنے روابط بہتر کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ اگر ان ارکان اسمبلی کے نام اب لیے جائیں تو کوئی یقین ہی نہ کرے۔ ظاہر ہے اب کسی نے اس کا اقرار ہی نہیں کرنا اس لیے نام لینا فضول ہے‘ لیکن ایسا صرف ملتان میں ہی نہیں ہورہا تھا سب جگہ یہی حال تھا۔ پھر خدا کا کرنا کیا ہوا کہ عدم اعتماد کی تحریک آگئی اور مزید خوش قسمتی کہ وہ کامیاب بھی ہوگئی اور اس سارے عمل کے دوران ایک عدد خط براستہ واشنگٹن اسلام آباد میں آگیا۔ اس کے ساتھ ہی خان صاحب کی لاٹری نکل آئی اور لاٹری بھی ایسی جس نے سب کی مت مارکے رکھ دی ہے۔
تین ماہ پہلے میرا جو اندازہ تھا اس کے مطابق ملتان کے چھ قومی اسمبلی کے حلقوں میں سے جس حلقے میں پی ٹی آئی کو سب سے بری مار پڑنے والی تھی وہ شاہ محمود قریشی کے فرزند زین قریشی کا حلقہ این اے 157 تھا‘ جہاں میرے اندازے کے مطابق یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی موسیٰ گیلانی کی پوزیشن کافی بہتر تھی۔ ویسے تو ملتان میں پیپلز پارٹی کا المیہ یہ ہے کہ قومی اور صوبائی کی تقریباً ساری سیٹوں پر خود گیلانی صاحب اور ان کے بچوں نے ہاتھ صاف کررکھا ہے۔ ان کے چار میں تین بیٹے فی الوقت ملتان کی دو قومی اور ایک صوبائی اسمبلی کی نشست پر امیدوار ہیں؛ تاہم اب شنید ہے کہ ان کا چوتھا بیٹا‘ جو گزشتہ الیکشن تک گھرکا واحد غیرسیاسی مرد واقع ہوا تھا‘ آئندہ الیکشن میں وہ بھی امیدوار ہوگا‘ یعنی سارے کا سارا ٹبر ہی الیکشن لڑے گا۔ سید یوسف رضا گیلانی اپنا سارا خاندان الیکشن میں جھونکنے کے بجائے اگر صرف دو سیٹوں پرزور لگائیں تو نتیجہ اس سے کہیں بہتر نکل سکتا ہے‘ لیکن سارا حلوہ خود کھانے کا شوق اتنا براہے کہ بندے کو اِدھراُدھر دیکھنے ہی نہیں دیتا۔ سید یوسف رضا گیلانی کے چاروں بیٹوں میں علی موسیٰ سب سے زیادہ تیز، سیاسی سوجھ بوجھ کا مالک ہے‘ لیکن اس کی طبیعت کی یہ تیزی دائیں بائیں ہاتھ مارنے پر بھی اکساتی رہتی ہے۔ ایفیڈرین والا معاملہ بھی اس کی انہی تیزیوں کا نتیجہ ہے‘ جبکہ گیلانی صاحب کا سب سے بڑا صاحبزادہ عبدالقادر اپنے دیگر بھائیوں کے مقابلے میں کم ہوشیار ہے۔
نئی صورتحال کے پیش نظر ملتان میں ایک افواہ بڑے زوروں پر ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں متوقع سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کو ملتان ضلع کے چھ قومی حلقوں میں سے تین حلقوں پر مسلم لیگ (ن) کی حمایت حاصل ہوگی۔ یہ تین حلقے این اے 157‘ 154 اور 158 ہیں اور ان پر صرف گیلانی خاندان امیدوار ہوگا؛ تاہم اگر سید یوسف رضا گیلانی اس دوران چیئرمین سینیٹ بن گئے تو وہ قومی اسمبلی کا الیکشن نہیں لڑیں گے۔ میں اس زوردار خبر کو محض افواہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ایک خبر کے مطابق ملتان میں مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کو فائنل کرنے کیلئے جو دو رکنی کمیٹی بنائی گئی ہے‘ اس کا ایک رکن احمد حسین ڈیہڑ ہے‘ جو خود حلقہ این اے 154 سے امیدوار ہوگا۔
میری مسلم لیگ (ن) کے ایک انتہائی ہائی لیول کے فیصلہ ساز سے اس موضوع پر دو ہفتے پیشتر بات ہوئی تو وہ پیپلزپارٹی سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے حوالے سے کھکھلا کر ہنس پڑا‘ اور کہنے لگا: خالد صاحب! کیا ہم آپ کو اتنے احمق اور بیوقوف نظرآتے ہیں کہ اپنا سیاسی ورثہ اپنی مخالف سیاسی قوت کو سونپ دیں؟ اپنے ہاتھوں سے اپنا بیڑہ غرق کون کرتا ہے؟ میں نے پوچھا: اور وہ زرداری صاحب کا مطالبے کا کیا بنے گا؟ کہنے لگے: اس کا ہم کوئی اور حل نکال لیں گے لیکن پنجاب میں ہم اپنی سیاسی اور انتخابی طاقت کسی کے حوالے نہیں کریں گے۔ ایسی صورت میں مستقبل کے حوالے سے جو امکانی منظرنامہ نظر آرہا ہے اس میں تین قومی حلقوں پر کافی گھڑمس مچنے کا امکان ہے۔ ایک حلقہ این اے 154 ہے‘ جہاں سے مسلم لیگ (ن) کی طرف سے پی ٹی آئی کا منحرف ایم این اے احمد حسین ڈیہڑ بھی امیدوار ہے‘ اور بریگیڈیر قیصر مہے بھی بزعم خود امیدوار ہے۔ دوسری طرف عبدالقادر پیپلزپارٹی کی طرف سے امیدوار ہے جبکہ پی ٹی آئی کی طرف شاہ محمود قریشی کے فنانسر خالد جاوید وڑائچ، احمد حسین ڈیہڑ کے بھائی ملک عاصم ڈیہڑ‘ جو زمینوں کے لین دین میں شہر بھر میں بدنامی کے نہایت اعلیٰ درجے پر فائز اور آدھ درجن پرچوں سے فیض یاب ہیں۔ ادھر سینیٹر عون عباس بپی اپنے بھائی جمشید عباس بپی کیلئے بھی بڑا زورلگا رہا ہے لیکن سب سے مزے کی بات جو مجھے دکھائی دے رہی ہے‘ یہ ہے کہ اس وقت ملتان کے حلقہ این اے 154 پر سب سے نظر انداز شدہ امیدوار ملک سکندر حیات بوسن ہے؛ تاہم آنے والے دنوں میں سب سے ہاٹ آئٹم بن جائے گا‘ اور مجھے گمان ہے کہ پی ٹی آئی کا امیدوار سکندر بوسن ہوگا۔ پارٹیاں بدلنے میں شہرت رکھنے کے باوجود ملک سکندر بوسن پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے۔
دوسرا حلقہ این اے 156 ہے‘ جہاں مسلم لیگ (ن) کی طرف سے ممکنہ امیدوار سلمان نعیم ہوگا۔ سلمان نعیم نے 2018 کے الیکشن میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے صوبائی حلقہ پی پی 127 سے شاہ محمود قریشی کو شکست دے کر ان کا وزیر اعلیٰ پنجاب بننے کا دیرینہ خواب چکنا چور کردیا تھا۔ اب شنید ہے کہ شاہ محمود قریشی اس تگ و دو میں ہیں کہ وسیم خان بادوزئی والے صوبائی حلقہ پی پی 213 سے الیکشن لڑیں اور اپنا وزیراعلیٰ پنجاب بننے کا قدیمی خواب پورا کر سکیں۔ اگر ایسا ہوا تو گمان ہے اگلی بار وسیم بادوزئی آزاد امیدوار کے طور پر شکست دے کر ان کے اس خواب کا دھڑن تختہ کردے گا۔
تیسرا حلقہ این اے 159 جلال پور پیروالا ہے جہاں سے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ کا امیدوار رانا قاسم نون بھی ہے اور دیوان عاشق بخاری بھی۔ اڑتی سی خبر یہ ہے کہ دیوان عاشق بخاری، نغمہ مشتاق لانگ اور لنگاہ برادران مشترکہ فیصلہ کریں گے اور گمان ہے کہ وہ مجبوراً پی ٹی آئی سے الیکشن لڑیں گے۔ ابھی الیکشن کا کوئی پتا نہیں کہ کب ہوتے ہیں‘ لیکن موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھیں تو امکان یہ نظرآتا ہے کہ سارے ابن الوقت سیاستدانوں کی پہلی ترجیح پی ٹی آئی کا ٹکٹ ہو گا اور ادھر سے مسترد شدہ امیدواران کہیں اور کا رخ کریں گے۔ یہی منظرنامہ دیگر حلقوں میں بھی دُہرایا جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں