"KMK" (space) message & send to 7575

’’خوئے وفاو مہر جو ملتانیوں میں ہے‘‘

پاکستان واپسی کے پہلے ہی روز سہ پہر کو جب میں لوڈشیڈنگ کے باعث ''پسینوپسین‘‘گھر میں ادھر ادھر گھوم رہا تھا تو بیٹی نے مسکرا کر پوچھا کہ آپ واپس آئے ہیں تو کیا فرق لگا ہے؟ اس کا خیال تھا کہ میں جو کہ پسینے میں شرابور ہوں‘ یورپ اور برطانیہ کے خوشگوار موسم کا ذکر کروں گا۔ لوڈشیڈنگ پر تبّرا کروں گا اور ملتان کی گرمی کی مذمت کروں گا مگر یہ سب کچھ نہ تو میرے لیے نیا ہے اور نہ ہی خلافِ توقع۔ مجھے علم تھا کہ واپسی پر جون کی وہی گرمی ہو گی جو ہم ملتان والوں کے مقدر میں لکھ دی گئی ہے اور وہی لوڈشیڈنگ ہو گی جو اَب اس ملک کے باسیوں کیلئے معمول بن چکی ہے۔ جواباً میں نے بھی مسکرا کر کہا کہ مجھے آج صبح جو فوری فرق محسوس ہوا ہے وہ یہ ہے کہ میرے پیچھے دہی کا ریٹ مزید بیس روپے کلو بڑھ گیا ہے۔
میں نے آج تک کبھی بھی یورپ یا امریکہ سے واپسی پر موسم کی شکایت یا تقابلی جائزہ نہیں لیا۔ یہ نظام ِقدرت ہے اور اپنے طے شدہ اصولوں پر قائم و دائم ہے۔ بھلا موسم کا موازنہ کرکے فضول میں کڑھنے سے فائدہ؟ معین نظامی کی نظم کے یہ دو مصرعے کسی اور تناظر میں ہیں مگر اس وقت یاد آ گئے:
کہ یہ گردش کی وہ مولائی سنت ہے
کہ جس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی
لیکن اب موسم کی یہ مولائی سنت اسی کے حکم سے تبدیل ہو رہی ہے۔ دورانِ سفر جب بھی ملتان فون کیا معلوم ہوا کہ بارش ہو رہی ہے‘ بالکل رات ہوئی تھی یا پھر یہ کہ بادل آئے ہوئے ہیں اور لگتا ہے کہ بارش ہو گی۔ بھلا مئی اور جون میں ملتان میں کبھی اس طرح بارشیں ہوتی تھیں؟ مئی جون میں البتہ تب موسم تھوڑا بہتر ہو جاتا تھا جب مٹی سے بھرپور آندھی چلتی تھی۔ گرمی کا زور تھوڑا ٹوٹ جاتا تھا اور سب کچھ مٹی سے بھر جاتا تھا۔ ملتان میں ایک کہاوت تھی کہ ''ملتان دی آئی واری‘چڑھیا ہائی بدل بن گئی اندھاری‘‘ یعنی جب ملتان کی باری آئی تو جو بادل چڑھا تھا وہ آندھی میں بدل گیا۔کسی نے امیرِ شریعت سید عطا اللہ شاہ بخاری صاحب سے پوچھا کہ سنا ہے ملتان میں بہت آندھیاں آتی ہیں۔ شاہ جی مسکرا کر کہنے لگے: آپ کو جس نے بھی یہ بتایا ہے غلط بتایا ہے۔ ایک لمحہ توقف کیا اور پھر کہنے لگے: ملتان میں بس ایک ہی آندھی آتی ہے جو اپریل مئی میں شروع ہوتی ہے اور اگست ستمبر تک چلتی رہتی ہے۔ لیکن اب ملتان کا موسم بھی بدل گیا ہے۔ نہ رات ویسی ٹھنڈی رہی اور نہ دن ویساگرم۔ کبھی ملتان کی گرمی نمی اور رطوبت سے پاک ہوتی تھی‘ لُو ضرور چلتی تھی مگر اس طرح حبس نہیں ہوتا تھا۔ پسینے سے شرابور کپڑے لُومیں قدرتی ایئر کنڈیشنڈ کا انتظام کر دیتے تھے۔اب تو پسینہ ہی خشک نہیں ہوتا۔ جب میں ملتان سے رخصت ہوا تب ملتان مئی میں ویسا تھا جیسا ہمیشہ مارچ کے شروع میں ہوا کرتا ہے۔ دن خوشگوار اور رات کو ہلکی سی خنکی‘ بھلا ہم ملتانیوں نے کبھی مئی میں ایسا شاندار موسم دیکھا ہی کب تھا؟
بکرے کی ماں کب تک خیر منا سکتی ہے؟ اور ہم ملتان والے گرمی سے کب تک بچ سکتے ہیں؟ تاہم اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں گرمیوں میں آم جیسی نعمت عطا کر رکھی ہے۔ شکر ہے کہ میں انور رٹول ختم ہونے سے پہلے ملتان پہنچ گیا تھا وگرنہ سارا گرمی کا موسم گناہِ بے لذت کی طرح گزر جاتا۔ انور رٹول کا دورانیہ بہت ہی مختصر ہوتا ہے۔ آم ملتان والوں کیلئے کھانے سے زیادہ بھجوانے کے کام آتے ہیں۔ گزشتہ کئی سالوں کے دوران مجھے مختلف کوریئر کمپنیوں اور کارگو کا کام کرنے والی بس کمپنیوں کے دفاتر اور اڈوں کو دیکھنے کا اتفاق ہوا تو حیران رہ گیا کہ بلا مبالغہ سینکڑوں آم کی پٹیاں دوسرے شہروں کو بھیجے جانے کی منتظر تھیں۔ پوچھا تو پتا چلا کہ یہ روزانہ کی بنیاد پر آتی ہیں اور سارا سیزن یہی حال رہے گا۔ یہ وہ آم تھے جو صرف تحفے کے طور پر دوسرے شہروں میں دوستوں اور عزیزوں کو ملتان والے بھجواتے ہیں۔
ہمارے ایک دوست چند سال پہلے تک اپنے بیرونِ ملتان والے دوستوں کو بڑی باقاعدگی سے آم بھجوایا کرتے تھے لیکن دو تین سال پہلے انہوں نے آم بھیجنے بند کر دیے۔ پوچھا تو فرمانے لگے: اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو اب آم بھجوانا بہت ہی مہنگا کام ہو گیا ہے اور گزشتہ دو تین سال کے اندر اندر اس کا خرچہ تین گنا ہو گیا ہے۔دوسرے‘ دوست اتنے آرام طلب اور ڈیمانڈنگ ہو گئے ہیں کہ بس یا ریلوے کے ذریعے بک کروائے گئے آم اٹھانے کیلئے ریلوے سٹیشن یا بس اڈے پر جانے کیلئے بھی تیار نہیں‘ ان کا مطالبہ ہے کہ انہیں آم کوریئر کے ذریعے گھر بھجواؤں۔ ایک طرف مجھے دیکھیں‘ میں اس شدید گرمی اور حبس والے موسم میں باغ میں جاتا تھا۔ وہاں سے آم لے کر انہیں پیٹیوں میں پیک کروانے کے بعد وہاں سے ریلوے سٹیشن یا بس اڈے پر جا کر بک کرواتا تھا اور جواب میں یہ گلہ آتا تھا کہ آپ نے بڑی مصیبت ڈال دی ہمیں پندرہ کلو میٹر دور جا کر بس اڈے سے آموں کی پیٹیاں اٹھانی پڑیں۔ کبھی شکوہ سننا پڑتا کہ آپ نے جو آم بھجوائے تھے وہ گلے ہوئے نکلے۔ مزید دریافت کیا تو پتا چلا کہ وہ آم بھیجے جانے کے دس روز بعد اسے اٹھا کر لائے تھے۔ اب ایسی صورت میں آم گلتے نہ تو اور کیا کرتے۔
وہ دوست اپنی حالتِ زار سناتے ہوئے کہنے لگا: میں تقریباً تیس دوستوں کو فی کس آم کی دو عدد پیٹیاں بھجواتا تھا۔ پہلے اس پر میرا تقریباً چالیس ہزار روپے خرچہ آتا تھا۔ پھر یہ خرچہ پچاس ہزار ہو گیا۔ آخری سال کوریئر کے ذریعے آم بھجوائے تو یہ خرچہ اسی ہزار روپے سے زیادہ ہو چکا تھا۔ میں شاید ابھی دو چار سال مزید یہ آم بھجواتا رہتا مگر اس دوران عجب واقعات پیش آئے۔ ایک دوست سارا سال سلام دعا نہیں لیتا تھا مگر گرمیاں شروع ہوتے ہی آموں کی تصویروں والے میسج بھیجنا شروع کردیتا تھا۔ جب آم بھجوا دیے جاتے تو نہ صرف پیغامات بند ہو جاتے بلکہ اسے میسج کرکے اگر یہ پوچھا جاتا کہ کیا آم مل گئے ہیں تو کبھی اس کی طرف سے وصولی کا پیغام بھی نہیں آتا تھا۔ پھر ایسے ایسے دوستوں نے آم بھیجنے کی فرمائش شروع کردی جو کسی کو اپنا بخار بھی نہیں دیتے تھے۔ تیس دوستوں کو آم بھجواتا تھا‘ ساٹھ ستر دوستوں کا شکوہ موصول ہوتا تھا کہ ہمیں کیوں نہیں بھجوائے ؟ بھلا کتنے دوستوں کو آم بھجوائے جا سکتے ہیں ؟
ایک دن لاہور میں ریڑھی پر پڑے انوررٹول کا ریٹ پوچھا تو ملتان میں باغ سے خریدے گئے آموں سے کم تھا۔ آخری سال میں نے کسی مجبوری کے باعث آم ایک دوست کے ذریعے منگوا لئے‘ وہ آم کچھ زیادہ اچھے نہ نکلے۔ گھر بیٹھے بٹھائے مفت میں ملنے والے آموں پر میری ایسی کلاس لی گئی کہ ان لوگوں نے کبھی پلے سے خریدے گئے آموں کے خراب نکلنے پر دکاندار کی بھی نہ لی ہو گی۔ اسی ہزار روپے سے زیادہ خرچہ کرنے کے بعد صرف گلے شکوے وصول کرتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ ہم ملتانی کتنے بامروت ہیں اور احمق ہیں کہ پاکستان بھر میں اپنے دوستوں کو گرمیوں میں آم اور سردیوں میں سوہن حلوہ بھیجتے ہیں لیکن کبھی کسی دوست نے ہمیں اپنے شہر سے کوئی پھل یا سوغات نہیں بھجوائی۔ اس سال کے بعد آم بھجوانے تو بند کردیے ہیں مگر ایمانداری کی بات ہے کہ ملتانیوں والی ازلی مروت اندر ہی اندر مسلسل لعنت ملامت کر رہی ہے۔ سوچ رہا ہوں اس سال دوبارہ آم بھجوانے شروع کر دوں۔ آخر ملتانی مہر و مروت بھی کوئی چیز ہے۔ بقول مرحوم ارشد ملتانی
ڈھونڈے سے بھی نہ پاؤ گے ارشد ؔجہان میں
خوئے وفا و مہر جو ملتانیوں میں ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں