"KMK" (space) message & send to 7575

پٹواری کامکو ٹھپنے کا طریقہ

ایک بات تو طے ہے کہ پاکستان میں کوئی نہ کسی کی سُن رہا ہے اور نہ مان رہا ہے۔ خیر سے ہم کالم نویس تو کسی شمار قطار میں ہی نہیں یہاں بڑوں بڑوں کی کوئی نہیں سن رہا۔ سپریم کورٹ نے مورخہ چار اپریل 2023ء کو فیصلہ دیا تھا کہ پنجاب میں مورخہ 14مئی 2023ء کو الیکشن کروائے جائیں۔
خیر سے الیکشن کمیشن نے اس حکم پر عمل نہ کرنے کا تکنیکی طریقہ نکالا اور اس حکم کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کردی۔ وہ درخواست مورخہ 31 اگست کو‘یعنی دی گئی الیکشن کی تاریخ کے ساڑھے تین ماہ بعد خارج کر دی گئی ہے۔ میں نے شاہ جی سے پوچھا کہ قبلہ الیکشن کیلئے دی گئی تاریخ تو ساڑھے تین ماہ پہلے گزر گئی ہے اور اس پر عملدرآمد نہیں ہوا تو اب اس حکم پر کیسے عمل ہو سکتا ہے؟ جس تاریخ کیلئے حکم دیا گیا تھا وہ تو کب کی گزر گئی۔ اب جبکہ الیکشن کمیشن کی نظرثانی کی درخواست خارج کردی گئی ہے تو الیکشن کمیشن کیا کر سکتا ہے؟ اب وہ کیلنڈر الٹا چلا کر دوبارہ سے چودہ مئی 2023ء کو واپس نہیں لا سکتا۔ تو اب کیا ہو سکتا ہے؟ شاہ جی مسکرائے اور کہنے لگے: ظاہر ہے نظرثانی کی درخواست خارج ہونے کے بعد الیکشن کمیشن کے پاس اب اور کوئی راستہ نہیں سوائے اس کے کہ وہ چودہ مئی کو الیکشن کروائے۔ میں نے کہا :شاہ جی یہی بات میں آپ سے پوچھ رہا ہوں کہ چودہ مئی کو گزرے ساڑھے تین ماہ گزر گئے ہیں‘ بھلا اب کس طرح ممکن ہے کہ گزشتہ تاریخوں میں الیکشن کروایا جا سکے؟ شاہ جی کہنے لگے: احمق آدمی! تمہارا کیا خیال ہے کہ چودہ مئی تاریخِ انسانی میں صرف ایک بار آیا ہے؟ یہ تاریخ ہر سال آتی ہے۔ الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل اور اعلیٰ عدالت کے فیصلے کے احترام میں اب یہی الیکشن چودہ مئی 2024ء کو کروا سکتا ہے اور اگر اس تاریخ پر بھی وہ الیکشن کروا دے تو بڑی بات ہے۔میں نے کہا: شاہ جی! مسئلہ صرف اس الیکشن پر سپریم کورٹ کے حکم میں پس و پیش کا نہیں ہے‘ اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ جس ملک میں محکمے اور ادارے ریاست کی اعلیٰ ترین عدالت کے حکم کو غچہ دے رہے ہوں وہاں کسی عام آدمی کی کون سنے گا؟ میں نے گزشتہ دنوں ایک کالم لکھا تھا جس میں انگریزوں کے زیر قبضہ ہندوستان میں چلنے والی برٹش انڈین ریلوے میں باتھ روم کی سہولت نہ ہونے کے باعث احمد پور کے سٹیشن پر حاجت کے دوران ٹرین کے چل پڑنے کی وجہ سے پلیٹ فارم پر بھاگتے ہوئے ایک مسافر اوکھل چندراسین نے برسر عام اپنی دھوتی کھل جانے کا صدمہ بیان کرتے ہوئے انگریز افسر کو ایکشن لینے کیلئے خط لکھا۔ اس خط کے نتیجے میں انگریز نے انڈین ریلوے کے تھرڈ کلاس کے ڈبوں میں بھی ٹوائلٹ بنانے کا فیصلہ کیا۔ ادھر یہ عالم ہے کہ چوبیس کروڑ میں سے تیئس کروڑ کے کپڑے اتر چکے ہیں مگر کسی کو ٹکے کی پروا نہیں۔ ادارے اور افسر کوئی ایکشن لینے کے بجائے اس صورتحال سے لطف لیتے ہوئے ٹھٹھے لگا رہے ہیں۔ لیکن وہ بھول رہے ہیں کہ جب ایسی روایت چل نکلے تو کسی کی عزت سلامت نہیں رہتی۔
مہینوں پہلے ایک کالم لکھا تھا کہ ضلع ملتان کے سب سے بڑے انتظامی افسر کے گھر کے سامنے واقع ہوٹل نے فٹ پاتھ پر اپنا بیریئر اور فوارے لگا رکھے ہیں اور اس کے بالکل ساتھ بننے والے پلازے کا دفتر ایک کنٹینر میں بنایا گیا ہے اور وہ کنٹینر بھی پیدل چلنے والوں کیلئے بنائی گئی سرکاری فٹ پاتھ پر رکھا ہوا ہے۔جس جگہ پر کنٹینر رکھا ہوا ہے اس کے عین سامنے ضلعی پولیس کے سربراہ کے گھر کا دروازہ ہے۔ دونوں افسران اپنے اپنے گھر کے عین سامنے سڑک کی دوسری طرف بنی ہوئی فٹ پاتھ پر ناجائز قبضہ اور تجاوزات دیکھتے ہیں مگر نہ کسی کو عوامی مفاد کا خیال ہے اور نہ ہی اپنے فرائض کی انجام دہی کا کوئی احساس ہے۔ آج اس کالم کو لکھے کئی ماہ گزر گئے ہیں مگر سب کچھ جوں کا توں پڑا ہوا ہے‘ تاہم افسران کا رعب داب خوب چل رہا ہے۔ آگے پیچھے ہوٹر بجاتے ہوئے ڈالے ہوں تو بندے کو مخلوقِ خدا کی ذلت اور تکلیف کا رتی برابر احساس نہیں ہوتا۔ ایسے میں مجھے پھر اوکھل چندرا سین کا گورے افسر کے نام لکھا خط اور اس پر ہونے والا عملی مظاہرہ یاد آ جاتا ہے۔ ہمارے افسروں کی کھال اتنی موٹی ہے کہ اس پر کسی بات کا اب نہ تو کوئی اثر ہوتا ہے اور نہ ہی انہیں ان فرائض کی انجام دہی کا ہی کوئی احساس ہے جس کیلئے سرکار نے ان کو ملازم رکھا ہے۔ اب ہمارے سرکاری ملازم عوام کی خدمت کیلئے نہیں بلکہ عوام سے اپنی خدمت کروانے کیلئے سرکاری نوکری کا انتخاب کرتے ہیں۔
مورخہ سترہ اگست کو ایک کالم ''نوحۂ شہرِ ناپرساں‘‘ لکھا تھا جس میں ملتان کے ایک قدیمی قبرستان پیر عمر کے داخلی راستے کی گندے پانی اور غلاظت کے باعث بندش کا ذکر کیا تھا۔ آج اس بات کو پندرہ دن گزر چکے ہیں مگر پانی اسی طرح کھڑا ہے اور غلاظت اسی طرح پڑی ہے۔ کسی ذمہ دار ادارے کے کان پر جوں تک نہیں رینگی اور لوگ قبرستان میں جنازہ لے کر جانے کیلئے کسی سواری کے محتاج ہیں۔ چونگی نمبر نو سے کچہری کی طرف جانے والی سڑک پر پڑا ہوا برسوں پرانا معمولی سا کھڈا اپنی پوری شان و شوکت اور آب و تاب کے ساتھ موجود ہے اور کسی کو اس پر چار ٹوکریاں اسفالٹ ڈالنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ اسی طرح تحصیل چوک سے چونگی نمبر نو کی طرف آنے والی سڑک جو کراؤن فیلیئر کی وجہ سے ڈیڑھ سال پہلے بیٹھ گئی تھی اور وہ کھڈا مٹی ڈال کر بند کر دیا گیا تھا وہ کھڈا گزشتہ ڈیڑھ سال سے بجری اور تار کول کا منتظر ہے۔ یہ بوسن روڈ کا حال ہے جو ملتان کی مصروف ترین سڑک ہے۔ دراصل سیاسی افراتفری کی آڑ میں پہلے سے نکمی افسر شاہی کو اپنی نالائقیاں چھپانے کا ایک اور جواز مل گیا ہے۔
میرا ایک یونیورسٹی فیلو اور چالیس سال پرانا دوست جو گزشتہ تین عشروں سے امریکہ میں مقیم ہے ایک اور مصیبت کا شکار ہے۔ اس کی آبائی زمین ملتان کے موضع قادر پور روڈ میں واقع ہے اور اس کا پٹواری گزشتہ کئی ماہ سے بمعہ ریکارڈ زمین غائب ہے۔ ضلع کے انتظامی اور محکمہ مال کے افسران کا کہنا ہے کہ پٹواری عدم پتہ ہے اور اس کو معطل کرکے ایف آئی آر درج کروا دی ہے‘ اب ہم اور کیا کریں؟ امریکہ سے صرف اسی غرض سے آیا ہوا دوست گزشتہ کئی ماہ سے اپنی زمین کے کاغذات کے حصول کیلئے ملتان میں خوار ہو رہا ہے۔ بقول شاہ جی! یہ ہے اصلی طوائف الملوکی جس میں پٹواری کی دیدہ دلیری اور سرکار کی کسمپرسی کے سبب اپنی ہی زمین کا مالک اپنی ملکیت کے کاغذات کے حصول میں بے بس بیٹھا ہوا ہے۔
میں نے شاہ جی سے اس سلسلے میں مشورہ مانگا تو مجھ سے پوچھنے لگے کہ ہمیں اس مسئلے کا فوری اور بین الاقوامی حل چاہئے یا مقامی اور تیزہدف نتیجہ چاہئے؟ میں نے حیرانی سے پوچھا شاہ جی! یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ شاہ جی کہنے لگے :اگر پٹواری سے کاغذات نکلوانے ہیں تو اس کا بین الاقوامی حل یہ ہے کہ دوست سے کہو کہ وہ امریکہ جا کر آئی ایم ایف کے صدر کو یقین دلا دے کہ اگر اس کی زمین کے کاغذات مل جائیں تو ملکی ٹیکس کی وصولی میں اضافہ ہو جائے گا اور پاکستان کو آئی ایم ایف کا قرضہ ادا کرنے میں آسانی ہو جائے گی‘ پھر تم دیکھنا کہ پٹواری کو نگران وزیراعظم کاکڑ صاحب اور وزیر خزانہ شمشاد اختر خود پکڑ کر تھانے لے آئیں گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ تم کسی طرح علاقے کے تھانیدار سے مل ملا کر پٹواری کا نام نو مئی کے نامعلوم مفروروں میں ڈلوا دو۔ میرے پاس دو ایف آئی آر ایسی پڑی ہیں جن میں نامعلوم شرپسندوں کا ذکر ہے۔ تم لکھوادو کہ پٹواری نو مئی کو ملتان کینٹ میں پٹوار کے پرت جلاتے ہوئے نعرے لگا رہا تھا۔ پھر دیکھنا پٹواری پریس کانفرنس بھی کر ے گا اور کاغذات بھی ہاتھ جوڑ کر واپس کرے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں