جب ہماری حکومتوں سے کوئی ڈھنگ کا کام نہ ہو رہا ہو جو ان سے کبھی بھی نہیں ہوتا تو وہ بیکار بیٹھنے کے بجائے کسی نہ کسی بہانے اپنی رہی سہی عزت (یہ بھی میرا خیال ہے) کو مزید خوار و خستہ کرنے کا کوئی نہ کوئی طریقہ نکال لیتی ہیں۔ جب بجلی کا مسئلہ ان سے حل نہ ہو رہا ہو‘ لوڈشیڈنگ قابو میں نہ آ رہی ہو‘ بجلی پوری نہ بن پا رہی ہو اور بجلی چوری نہ رک رہی ہو تو حکومت کو اچانک یاد آتا ہے کہ بجلی بچائی جائے اور اس کیلئے ان کے پاس جو فوری حل ہوتا ہے وہ یہ کہ مارکیٹیں اور دکانیں رات آٹھ بجے بند کر دی جائیں۔
یہ حکومتی فیصلہ دراصل دکانیں رات آٹھ بجے بند کروانے کیلئے نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنی رسوائی کے عوض ایک دو دن کی تاجروں کی ہڑتال کا بندوبست کرتی ہے اور تیسرے دن اپنے اس فیصلے سے ایسے پیچھے ہٹ جاتی ہے جیسے اس نے یہ فیصلہ کبھی کیا ہی نہ تھا۔ اس سے صرف یہ ہوتا ہے کہ حکومت کے دو دن اور مزے سے گزر جاتے ہیں۔ تاجر بھی دو دن ہڑتال کے بہانے آرام کر لیتے ہیں اور اس دو روزہ ہڑتال کے بعد تازہ دم ہو کر تیسرے دن دوبارہ دوپہر ڈیڑھ بجے اپنی پرانی روٹین کے مطابق دکانیں اور مارکیٹیں کھولتے ہیں اور رات بارہ بجے بند کرکے آرام سے گھر کی راہ لیتے ہیں۔ تاجر حسبِ معمول انہی پرانے اوقات کار پر عمل کرتے ہیں اور ہر دو فریقین اپنی پرانی ڈگر پر چلتے رہتے ہیں۔ نہ حکومت اپنے حکم کی ذلت و رسوائی کو مائنڈ کرتی ہے اور نہ ہی تاجر حضرات دنیا میں رائج کاروباری اوقات پر ہی عمل کرنے کی کوئی سعی کرتے ہیں۔
کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ زیادہ دنیا دیکھنے کے فائدے کم اور نقصانات زیادہ ہیں اور ان نقصانات میں سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ بندے کو ان ممالک کے رسم و رواج‘ معاشرت اور اخلاقیات کے بہت سے پہلوؤں کو اپنے ملک میں رائج خرابیوں سے موازنہ کرنے کے بعد جو ڈپریشن ہوتا ہے وہ دنیا گھومنے کا سارا مزہ برباد کر دیتا ہے اور بندے کو خوامخواہ محرومی اور کمتری کا احساس سا لاحق رہتا ہے۔ میں کبھی ہر سال ایک ڈیڑھ ماہ کیلئے برطانوی شہر مانچسٹر کے نواحی قصبے آشٹن انڈر لائن کے ٹاؤن سنٹر کے عین درمیان میں اپنے ایک عزیز دوست کے فلیٹ میں مفت کے مزے کیا کرتا تھا۔ ادھر پاکستان میں ہوتا تو شہر کے کاروباری علاقے کے وسط میں اس قسم لوکیشن کے طفیل رات بارہ بجے تک تو اس فلیٹ میں داخل ہی نہ ہو سکتا کہ اس کے دروازے کے سامنے والی فٹ پاتھ پر دکانداروں نے اپنا سامان سجایا ہونا تھا اور اسے پھلانگ کر فلیٹ کی سیڑھیاں چڑھنا بھلا کہاں ممکن ہوتا؟ بفرضِ محال اگر میں اندر داخل ہو بھی جاتا تو پھر دوبارہ باہر نکلنا یا رات گئے تک شور شرابے کے باعث سونا کہاں ممکن ہوتا؟ مگر شہر کے ٹاؤن سنٹر میں دکانوں کے اوپر بنا ہوا یہ فلیٹ اتنا پُرسکون تھا کہ میں گمان بھی نہیں کر سکتا کہ ایسی جگہ پر بھی کوئی رہائش گاہ اتنی خاموش ہو سکتی ہے۔
صبح نو بجے دکانیں کھل جاتی تھیں اور مجال ہے جو کسی دکان کی کوئی شے اس کے قانونی ملکیت والی حدود سے ایک انچ بھی باہر ہو۔ ہاں صرف کافی شاپس اور فش اینڈ چپس کی دو تین دکانیں تھیں جن کے سامنے گاہکوں کیلئے کرسی میز یا بنچ لگے ہوئے تھے اور وہ ٹاؤن کونسل سے اس مقصد کے لیے منظور شدہ جگہ تھی۔ پانچ بجے ساری دکانیں بند ہو جاتی تھیں اور اپنے وقت پر بلا کسی افراتفری کے ایسی خاموشی اور سکون سے بند ہو جاتی تھیں کہ حیرت ہوتی تھی۔ ایک دو بڑے سٹور تھے جن میں پونے پانچ بجے یا زیادہ سے زیادہ پانچ بجے تک جو لوگ داخل ہو جاتے تھے انہی کو فارغ کیا جاتا تھا۔ اس کے بعد ٹاؤن سنٹر میں ایسا ہُو کا عالم ہوتا تھا کہ کرفیو کا گمان ہوتا تھا۔ کافی شاپس اور فش اینڈ چپس کے سامنے بچھی کرسیوں‘ میزوں اور بنچوں کے نیچے گرے ہوئے آلو کے چپس‘ ڈبل روٹی کے ٹکڑے اور بسکٹ وغیرہ کے ''بھور چور‘‘ کو کھانے کیلئے کبوتر‘ تِلیّر اور چڑیوں وغیرہ کے علاوہ وہاں کوئی اور ذی روح دکھائی نہیں دیتا تھا۔ ہاں صرف کارنر والا پب آباد رہتا تھا۔
یہ تو ایک قصبے کا حال ہے تاہم وہاں ہر بڑے شہرکے تجارتی مراکز کا بھی یہی حال ہے۔ صرف کھانے پینے کی اور روزمرہ ضروریات کی چند اجازت یافتہ دکانوں کے علاوہ وہاں ہر قسم کی دکانیں شام کو اندھیرا پھیلنے سے پہلے بند ہو جاتی ہیں۔ امریکہ میں رات گیارہ بجے تک کھلے رہنے والے ایسے سٹورز کی ایک چین کا نام ہی ''سیون الیون‘‘ ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ سٹور صبح سات بجے سے رات گیارہ بجے تک کھلے رہیں گے۔ ہمارے ہاں تو اب یہ عالم ہے کہ رحیم یار خان کی ایک ڈیری کا سٹور میرے گھر کے قریب تھا جہاں سے بہت اچھی کوالٹی کا پیسچرائزڈ دودھ اور دہی مل جاتا تھا مگر وہ سٹور بالآخر بند ہو گیا کہ اس کے مالک نوجوان گیارہ بجے سے پہلے دکان ہی نہیں کھولتے تھے۔ اب بندہ پوچھے کہ جس چیز کا استعمال ہی زیادہ تر صبح ناشتے میں ہوتا ہے اس کی دکان دن گیارہ بجے کھلے گی تو بھلا کیسے چلے گی؟ مالک نے کیونکہ صبح سویرے دکان نہ کھولنے کی گویا قسم کھا رکھی تھی‘ لہٰذا دکان بند ہو گئی اور ہم لوگ اچھی کوالٹی کے دودھ سے محروم ہو گئے۔
امریکہ‘ برطانیہ‘ کینیڈا‘ آسٹریلیا اور یورپ تو خیر سے ترقی یافتہ ممالک ہیں میں نے کمبوڈیا‘ تھائی لینڈ‘ ترکی اور نیپال وغیرہ میں بھی دکانیں علی الصبح کھلنے کا رواج دیکھا ہے۔ صبح سات بجے ہم لوگ کمبوڈیا کے دارالحکومت نوم پنہہ سے قدیم ٹمپل انگکورواٹ دیکھنے کیلئے سیم رپ روانہ ہوئے تو کھانے پینے ہی نہیں بلکہ ہر قسم کی دکانیں کھل چکی تھیں۔ ہمارے تاجروں اور دکانداروں نے شاید عشروں سے صبح کے سات بجتے اپنی کھلی آنکھوں سے نہیں دیکھے ہوں گے۔ ہمارے تاجروں کو خدا جانے صبح دکان یا مارکیٹ کھولنے میں کیا مسئلہ درپیش ہے۔ کوئی بھی گاہک کسی دکان پر جذبۂ خیر سگالی کے طورپر نہیں جاتا بلکہ اپنی مجبوری خریدنے جاتا ہے اور اگر اسے معلوم ہو کہ دکان شام پانچ بجے بند ہو جائے گی تو وہ بھاگ دوڑ کر کے وقت سے پہلے دکان پر پہنچے گا کہ یہ اس کی مجبوری ہے نہ کہ مرضی۔
سیاسی مصلحتوں سے لے کر حکومت کی روز افزوں پاتال میں گرتی ہوئی انتظامی طاقت کے باعث اب حکومت کیلئے اپنے ہی احکامات پر عمل کروانا تقریباً تقریباً ناممکن بنتا جا رہا ہے۔ عوام اب حکومتی اعلانات کو کسی مذاق سے بڑھ کر اہمیت دینے پر تیار نہیں۔ تاجر حکومتی احکامات کو جوتے پر بھی نہیں لکھتے اور سچ تو یہ ہے کہ حکومت قوتِ فیصلہ اور قوت ِنافذہ سے بالکل تہی دست ہو چکی ہے‘ لیکن حیرت ہے کہ اسے ابھی تک اپنی اس کمزوری کا علم نہیں ہو سکا‘ تاہم عوام کو اس حکومتی کمزوری کا بخوبی علم ہے۔ کیا حکومت اس مذاق کو بند نہیں کر سکتی؟
اگر یہ بات طے ہے کہ تاجروں نے من مانی کرنی ہے اور حکومت نے اپنا حکم ناک کے ذریعے واپس اٹھانا ہے تو پھر ہر ایک دو سال کے بعد اس قسم کے اعلان کرنے اور اپنی بھداڑوانے کی کیا ضرورت ہے؟ جب آپ کے پاس اپنا حکم منوانے کی طاقت نہیں تو کس حکیم نے آپ کو مشورہ دیا ہے کہ حکم دیں اور پھر بے عزت ہو کر چپکے سے بیٹھ جائیں ؟ جس کام کی آپ میں اہلیت‘ طاقت اور صلاحیت نہیں تو اس کا اعلان کر کے ذلیل ہونا بھلا کون سا عقلمندی ہے؟ حل ہر دوسرے سال پسپائی اور رسوائی کا اہتمام کرنا ضروری نہیں۔ اس طرح پہلے سے بے عزت اور بے وقعت نظام کا کم از کم پردہ ہی رہ جائے گا۔