سرکاری ملکیت میں چلنے والے اداروں کی اکثریت خسارے کا شکار ہے۔ اور خسارہ بھی کوئی ایسا ویسا؟ اربوں روپے سے کم کی تو بات ہی نہ کریں۔ اس سلسلے میں زیادہ بدنام اداروں میں پی آئی اے‘ ریلوے‘ سٹیل ملز وغیرہ شامل ہیں لیکن حقیقت اس سے تھوڑی مختلف ہے۔ پاکستان میں خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں میں پہلا نمبر کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی یعنی کیسکو کا ہے۔ کیسکو کا گزشتہ سال کا خسارہ 108ارب 50کروڑ روپے ہے۔ این ایچ اے کا خسارہ 94ارب 30کروڑ روپے ہے۔ ریلوے کا خسارہ 50ارب 20کروڑ روپے ہے۔ سکھر الیکٹرک پاور کمپنی (سیپکو) کا خسارہ 40ارب 80کروڑ روپے جبکہ پی آئی اے کا خسارہ 36ارب 7کروڑ روپے تھا۔ سوئی سدرن کا خسارہ 21 ارب 40کروڑ روپے‘ پاکستان سٹیل ملز کا خسارہ 20ارب 60کروڑ روپے‘ حیدر آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی کا خسارہ 17ارب 7کروڑ روپے‘ پی ایس او کا خسارہ 14ارب 80کروڑ روپے اور پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی کا خسارہ 14ارب 60کروڑ روپے تھا۔ اس کے علاوہ درجن بھر سے زائد اور کمپنیاں اور ادارے بھی ہیں جو اس خسارے کی مجموعی رقم میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔
یہ سب ادارے اچانک ہی کسی آسمانی آفت کے باعث خسارے میں نہیں گئے بلکہ مسلسل انتظامی خرابیوں‘ سیاسی دھکے زوری‘ سفارشی بھرتیوں‘ نااہل افسروں کی تعیناتیوں‘ یونینز کی مداخلتوں اور کرپشن کے باعث برسوں سے مسلسل انحطاط کا شکار ہیں اور اب معاملات ناقابلِ اصطلاح حد تک بگڑ چکے ہیں۔ان اداروں پر انتظامی اخراجات کا بوجھ اب قطعاً ناقابلِ برداشت ہو چکا ہے۔ سٹاف نہ صرف ضرورت سے بہت ہی زیادہ ہے بلکہ نکما اور نالائق ہے۔ جس کام کو ایک بندہ کر سکتا ہے وہاں دس بندے ہیں اور ان میں سے ایک بھی کام نہیں کرتا۔ سید یوسف رضا گیلانی ریلوے کے وزیر بنے تو پہلے سے ملازمین کے بوجھ تلے دبے ہوئے اس ادارے میں موصوف نے درجنوں نہیں سینکڑوں بندے بھرتی کروا دیے۔ ان کا ووٹ بینک بڑھ گیا اور ریلوے کی کمر پر ملازمین کا بوجھ۔ قومی اسمبلی میں سپیکر بنے تو وہاں ایمپلائمنٹ بیورو کھول لیا اور یہ صرف یوسف رضا گیلانی تک محدود نہیں‘ اس حمام میں اور بہت سے لوگ بھی ان کے نقشِ قدم پر چلتے دکھائی دیتے ہیں۔مزے کی بات یہ ہے کہ اس ملک میں جب خسارے سے چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری کی کہانی چلتی ہے تو اس کی آڑ میں ہمیشہ منافع بخش ادارے بیچ دیے جاتے ہیں لیکن خسارے والے ادارے جوں کے توں سرکار کے کندھوں پر سوار رہتے ہیں۔ منافع میں چلنے والا پی ٹی سی ایل خلیجی کمپنی کو فروخت کر دیا گیا۔ اس کا انتظامی اختیار اس غیر ملکی کمپنی کو پکڑا دیا ‘تاہم اس کمپنی نے پی ٹی سی ایل کی خرید کیلئے طے کردہ حصص کی پوری رقم ہی ادا نہ کی اور شنید ہے کہ وہ رقم آج تک ان کے ذمے واجب الادا ہے اور ہم اس کو وصول کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔
اس حکومت کے پیٹ میں اب دوبارہ سے پرائیویٹائزیشن کا درد اٹھا ہے اور اس کیلئے جن سرکاری اداروں کو بیچنے کی بات ہو رہی ہے اس میں ایل این جی سے چلنے والے دو پلانٹ جو بہترین استعداد کے مالک ہیں بیچے جانے والے ہیں۔ یہ بلوکی ایل این جی پاور پلانٹ اور حویلی بہادر شاہ ایل این جی پاور پلانٹ ہیں۔ بلوکی پاور پلانٹ کی استعداد 1223میگاواٹ ہے اور اس کی ایفی شنسی 62 فیصد کے لگ بھگ ہے۔ اور اس میں جنرل الیکٹرک کمپنی امریکہ کی دو عدد گیس ٹربائنز ہیں جو اپنی نوعیت کی دنیا کی بہترین نتائج دینے والی ٹربائنز ہیں۔ حویلی بہادر شاہ پاور پلانٹ کی استعداد 1230میگاواٹ ہے اس میں بھی جنرل الیکٹرک کمپنی کی دو عدد گیس ٹربائنز ہیں جن کی پیداواری ایفی شنسی 62فیصد سے زائد ہے۔ اس فہرست میں نندی پور پاور پلانٹ بھی شامل ہے۔525میگاواٹ کی پیداواری استعداد کے اس پلانٹ کی ایفی شنسی محض 40فیصد ہے۔ صرف 27ارب روپے سے شروع ہونے والا یہ پاور پراجیکٹ آخر کار سرکار کو 59ارب روپے میں جا کر پڑا اور اس طرح کہ چلنے کے محض پانچ دن بعد بند ہو گیا۔ فی یونٹ پیداواری قیمت اتنی زیادہ ہے کہ بندہ سنے تو ہوش اڑ جائیں۔ اس پلانٹ میں ہونے والی انتظامی خرابیوں‘ پیداواری مسائل اور کھانچوں کی کہانی ایسی ہے کہ ایک پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ اس کی تباہی کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ اس کا سارا انتظام وانصرام ایک نان ٹیکنیکل بندے کے حوالے کردیا گیا۔ موصوف ضیاء الحق کے پسندیدہ قاری کے فرزند ارجمند تھے جنہیں فوج سے ڈی ایم جی میں انڈکٹ کیا گیا اور میاں صاحبان نے اسے اپنے مرشد کی جانب سے عطا ہونے والے تبرک کی مانند بڑی عزت و آبرو سے ہر بڑے انتظامی عہدے پر تعینات کیا اور کسی جگہ سے بھی خیر کی خبر نہ آئی۔
چلیں نندی پور اور گدو پاور پلانٹ کی پرائیویٹائزیشن کی تو سمجھ آتی ہے مگر دو چار مزید گھاٹے اور خسارے والے پاور پلانٹس کی موجودگی میں بلوکی اور حویلی بہادر شاہ کے پاور پلانٹس کی نجکاری کی بات سمجھ نہیں آتی۔ دو عدد سفید ہاتھیوں کے ساتھ دو عدد بہتر پاور پلانٹس بیچے جا رہے ہیں جبکہ حکومت کو چاہئے تھا کہ پہلے ان حکومتی پاور پلانٹس سے جان چھڑواتی جو اول تو بند پڑے ہیں یا جن کی ایفی شنسی خراب ہے اور خسارے کا شکار ہیں۔ مظفر گڑھ تھرمل پاور پلانٹ اس کی ایک مثال ہے اور عشروں سے بند ہوا پیراں غائب پاور پلانٹ ملتان اس فہرست میں پہلی ترجیح کے طور پر ڈالا جا سکتا تھا‘ مگر ہوگا یہ کہ نسبتاً منافع بخش یاBreakevenکرنے والے پلانٹ تو بیچ دیے جائیں گے اور خسارے میں چلنے والے پاور پلانٹس کی اکثریت حکومتی کمر پر بوجھ بن کر لدی رہے گی۔
سب سے زیادہ خسارہ کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی کر رہی ہے اور اس کے ساتھ سکھر اور پشاور کی الیکٹرک سپلائی کمپنیاں ہیں‘ تاہم میاں نواز شریف کے گزشتہ دور میں جب بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری کا پروگرام بن رہا تھا تو اس میں پہلی ترجیح فیصل آباد اور ملتان الیکٹرک سپلائی کمپنیاں تھیں۔ یاد رہے کہ 2020ء میں فیصل آباد پاور سپلائی کمپنی کا منافع چھ ارب روپے تھا۔ بند پڑے ہوئے سرکاری پاور جنریشن پلانٹس پر کئی جگہ عملہ موجود ہے لیکن پلانٹ عرصے سے بند پڑے ہوئے ہیں۔ دریائے سندھ کے دائیں کنارے پر سکھر اور روہڑی کے درمیان سکھر تھرمل پاور سٹیشن 2005ء سے بند پڑا ہوا ہے۔ اداروں کے حالات یہ ہیں کہ درجنوں تحقیقاتی‘ تعلیمی اور خودمختار اداروں کے لیے اہل اور مستقل سربراہانِ ادارہ کی ضرورت ہے ‘ان جگہوں پر برسوں سے ایڈہاک اور عارضی بندوبست سے کام چلایا جا رہا ہے جبکہ دوسری طرف پھرتیوں کا یہ عالم ہے کہ چار دن کے لیے مستعار لیے گئے لوگوں نے بھی اپنے زیر اثر اداروں کی چولیں ہلانے میں بڑھ چڑھ کر اپنا حصہ ڈالا ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت آئی تو وزیراعظم عمران خان نے کے الیکٹرک کے سابقہ چیف ایگزیکٹو آفیسر اور چیئرمین بورڈ آف ڈائریکٹرز تابش گوہر کو اپنا معاونِ خصوصی برائے پاور و پٹرولیم مقرر کر دیا۔تابش گوہر ایک پٹرولیم کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹر بھی رہے۔ انہوں نے آ کر بجلی اور تیل کے سارے معاملات کو اپنے ہاتھ میں کر لیا۔ ویسے تو یہ بھی سیدھا سادا ''conflict of interest‘‘ کا معاملہ تھا مگر اس پر مٹی ڈالیں۔ انہوں نے آتے ہی بجلی کی تقسیم کار نو عدد کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو تحلیل کر دیا اور فردِ واحد نے اپنی مرضی کے نئے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا تقرر کر دیا۔ یہ نظام سقہ کی مانند چمڑے کے سکے چلانے کے مترادف تھا۔ (جاری)