"KMK" (space) message & send to 7575

ادارے ایسے بربادنہیں ہوتے…(آخری)

اگر حساب کیا جائے تو اس وقت پاکستان میں جو سیکٹر سب سے زیادہ خسارے کا شکار ہے وہ بجلی کی تقسیم کار دس کمپنیاں ہیں جو ہر سال سینکڑوں ارب روپے کے مجموعی خسارے کا موجب ہیں اور یہ خسارہ سرکلر ڈیٹ کی صورت ہر سال مزید بڑھتا جا رہا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ ملتان ایریا الیکٹرسٹی بورڈ کا سربراہ ایک عدد ایس ای یعنی سپرنٹنڈنٹ انجینئر ہوتا تھا۔ پھر یہ کمپنی بن گئی اور نوکریوں کی لاٹری نکل آئی‘ اب صرف اسی علاقے پر مشتمل ملتان الیکٹرک سپلائی کمپنی (میپکو) میں اب نو عدد سرکل ہیں یعنی نو عدد ایس ای‘ اڑتیس ڈویڑن اور ایک سو اکیاسی سب ڈویڑن ہیں۔ یعنی افسران کی فوج ظفر موج ہے لیکن لائن لاسزاور بجلی چوری ہے کہ قابو میں نہیں آ رہی۔ ظاہر ہے بجلی چوری کی غالب مقدار محکمے کے ملازمین کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ ان سارے معاملات کو درست کرنے کی کوششیں اس لئے بار آور ثابت نہیں ہو سکیں کہ نچلے عملے کو یعنی لائن مین وغیرہ کو یونین کی سرپرستی اور افسروں کو سیاسی پشت پناہی حاصل ہے۔ سیاسی مداخلت کا یہ عالم ہے کہ ہر رکنِ قومی و صوبائی اسمبلی اپنے حلقے میں اپنی مرضی کا ایکسین اور ایس ڈی او لگواتا ہے۔
نوید قمر جب وفاقی وزیر برائے بجلی و پانی تھے تو انہوں نے ایک ٹرانسفر پوسٹنگ پالیسی کی منظوری دی اور اس کی سب سے پہلی خلاف ورزی بھی خود ہی کی۔ ملتان کے سابقہ ایم این اے ملک عامر ڈوگر کے ڈیرے پر بجلی چوری کا معاملہ سامنے آیا تو اسمبلی میں تحریکِ استحقاق پیش ہو گئی۔ ایس ڈی او‘ ایکسین اور ایس ای کی معطلی پر زور دیا گیا۔ تب کے وفاقی سیکرٹری عرفان علی نے کہا کہ جب تک ڈیپارٹمنٹل انکوائری میں مذکورہ افراد قصور وار نہیں ٹھہرتے ان کے خلاف کسی قسم کی تادیبی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ تاہم یہ صرف ایک معاملہ تھا جس میں محکمے نے سیاسی پریشر کے آگے ہتھیار نہ ڈالے لیکن ایسے بے شمار واقعات ہیں کہ سیاستدانوں نے حکم عدولی کرنے والے آفیسر کو سزا دے کر باقی لوگوں کیلئے نمونہ بنا دیا۔
جب تابش گوہر نے آکر چمڑے کے سکے چلائے تو تقسیم کار کمپنیوں کے نئے بورڈ بناتے ہوئے اپنی سابقہ آرگنائزیشن کے الیکٹرک سے تعلق رکھنے والے واقف کاروں اور دوستوں کو کئی کئی بورڈز کا بیک وقت رکن بنا دیا۔ میپکو کا چیئرمین بھی کے الیکٹرک کا سابقہ چیف آپریٹنگ آفیسر تھا۔ کوئی شخص میٹریل سپلائی کرنے والوں کا فرنٹ مین تھا اور کوئی مینوفیکچررز کا نمائندہ تھا۔ ''مفادات کے تصادم‘‘ کا یہ عالم تھا کہ اپنی مرضی کا میٹریل اپنے پسندیدہ مینوفیکچررز یا سپلائرز سے لینے کی غرض سے نہایت ضروری اشیا جن میں سنگل فیز اور تھری فیز میٹرز سرفہرست تھے کے ٹینڈر ہی منظور نہ ہوئے اور وجہ صرف یہ تھی کہ ان کے پسندیدہ مینوفیکچررز ان ٹینڈرز میں ناکام ہو گئے تھے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ کئی ماہ تک میٹرز نہ خریدے گئے اور نئے کنکشن کی لاکھوں درخواستیں میٹرز نہ ہونے کی وجہ سے مہینوں زیر التوا پڑی رہیں۔ میپکو کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں سوائے چیف ایگزیکٹو اور دو عدد پبلک نمائندوں کے تقریباً تمام ارکان کراچی سے اور ایک آدھ لاہور سے تھا۔
کارپوریٹ گورننس رُولز 2013ء میں یہ بات بڑی وضاحت سے درج ہے کہ پبلک سیکٹرز کمپنیوں کے بورڈز میں سیاسی جماعتوں کے ارکان یا نمائندے شامل نہیں کئے جا سکتے مگر پی ٹی آئی اور بعد ازاں پی ڈی ایم کی حکومت میں ان پابندیوں کو ہوامیں اڑا کر رکھ دیا گیا۔ میپکو میں دو عوامی نمائندوں کے طورپر بورڈ کا رکن بننے والے دونوں افراد سیاسی کھڑپینچ تھے۔ خیر سے پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمے پر تمام تقسیم کار کمپنیوں کے بورڈ تحلیل کر دیئے گئے اور مسلم لیگ (ن) نے اپنے بندے اکاموڈیٹ کرنے شروع کردیئے۔ میپکو کے بورڈ کا چیئرمین سابق صدر فاروق لغاری کے بڑے بیٹے جمال خان لغاری کو بنا دیا گیا جو مسلم لیگ (ن) کی سابقہ حکومت میں وفاقی وزیربرائے بجلی و پانی اویس خان لغاری کا بڑا بھائی اور 2013ء میں PP245سے آزاد رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہونے کے بعد مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوا تھا۔نئے بورڈ میں نہ صرف جمال لغاری مکمل سیاسی پس منظر کا مالک تھا بلکہ اس بورڈ کے اکثر ارکان کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے تھا۔
ایک بار منسٹری میں یہ فیصلہ ہوا کہ جہاں جتنی زیادہ بجلی چوری ہو گی وہاں اتنی زیادہ لوڈ شیڈنگ کی جائے گی۔ اس صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے جب اسی فیصد بجلی چوری کرنے والے علاقے فورٹ منرو میں جو وفاقی وزیر بجلی و پانی اویس لغاری کے حلقہ انتخاب میں تھا لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ بیس گھنٹے کیا گیا تو وہاں ہڑتال کروا دی گئی اور سڑک بند کروانے کے بعد انتظامی صورتحال کو مسئلہ بنا کر دوبارہ بجلی بحال کروا دی گئی۔ اس طرح سے سیاسی مداخلت نے بجلی چوری کا معاملہ طے کرنے کے بجائے دوبارہ بجلی بحال کروا دی۔
صورتحال یہ تھی کہ رحیم یار خاں اور ڈیرہ غازی خاں کے قبائلی اور کچے کے علاقے میں بجلی چوری معمول کی بات تھی اور بجلی چوری کا پرچہ بھی درج نہیں ہوتا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ صرف یہ تھی کہ علاقے کی سیاسی قیادت اس معاملے کو ملکی مفاد کی نظر سے دیکھنے کے بجائے اپنے ووٹ بینک کی نظر سے دیکھتی تھی اور کسی قسم کا ایکشن نہیں لینے دیتی تھی۔ یہ تو صرف ایک بجلی کی تقسیم کار کمپنی کی کہانی ہے جو شاید پاکستان کی پہلی تین چار بہترین اور کم خسارے والی کمپنیوں میں شامل ہے وگرنہ کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی (کیپکو) سکھر الیکٹرک پاور کمپنی (سیپکو) حیدر آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی(حیسکو) اور پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی (پیسکو) کا حال اتنا خراب ہے کہ بیان کرنا ممکن نہیں۔ لائن لاسز کی دو اقسام ہیں۔ ایک ٹی اینڈ ڈی لاسز یعنی ٹیکنیکل اینڈ ڈسٹری بیوشن لاسز ہیں جو بجلی کے تقسیم کار نظام میں ہونے والی خرابیوں‘ جدید آلات کی عدم موجودگی‘ متروک ٹیکنالوجی کے استعمال اور ضرورت سے زیادہ لمبی ٹرانسمیشن لائنز کی وجہ سے ہے اور اسے ٹھیک کرنے کیلئے جتنی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے وہ شاید ان حالات میں ہم افورڈ ہی نہیں کر سکتے۔ تاہم دوسرے لاسز نان ٹیکنیکل ہیں یعنی چوری‘ کنڈا اور بلوں کی عدم ادائیگی وغیرہ۔ ہماری کل ملکی بجلی کی پیداوار کا تقریباً18.3فیصد حصہ چوری ہو جاتا ہے تاہم صرف سکھر الیکٹرک سپلائی کمپنی میں شرح 41.3فیصد ہے۔ ادارے خرابی کی آخری حد تک پہنچ چکے ہیں اور ان کو درست کرنے کی کوششیں صرف وقت اور پیسے کے ضیاع کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ سرکاری ملکیت میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں‘ پاور پلانٹس‘ پی آئی اے‘ ریلوے‘ سٹیل ملز اور اس قسم کے دیگر مسلسل خسارے میں جانے والے ادارے اور کمپنیاں چلانا کم از کم ہماری کسی حکومت کے بس کی بات نہیں کہ درمیان میں کھانچے‘ کرپشن‘ بدانتظامی‘ سفارشی بھرتیوں اور نالائق افسروں کا ایک ایسا سمندر حائل ہے جسے پار کرنا ہماری جمہوریت کے بس میں نہیں ہے۔ اس لئے ان سے جتنی جلدی جان چھڑوالی جائے بہتر ہے لیکن دھیان رہے کہ پہلے ان اداروں سے جان چھڑوائی جائے جو خسارے میں پہلی دوسری اور اسی طرح ترجیح میں ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں ہوتا یہ ہے کہ نفع بخش ادارے پہلے بیچ دیئے جاتے ہیں جبکہ خسارے والے ادارے اسی طرح سینے پر مونگ دلنے کیلئے موجود رہتے ہیں کیونکہ فیصلہ کرنے والوں کے ذاتی مفادات کی فہرست بڑی طویل ہے۔ اس ملک میں سرکاری اداروں کے ساتھ جو کچھ عشروں سے ہو رہا ہے وہ کسی بھی اچھے سے اچھے ادارے کو بھی برباد کر سکتے ہیں اور ہمارے ہاں بھی یہی ہوا ہے وگرنہ ادارے ایسے برباد نہیں ہوتے۔ (ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں