"KMK" (space) message & send to 7575

آسان بات ہی مشکل ہوتی ہے

سچ پوچھیں تو ملکِ عزیز میں جاری حالیہ سیاسی قلابازیوں کے موسم میں جو چیز عام ہے وہ کنفیوژن ہے۔ عوام کی تو بھلی پوچھیں‘ انہیں تو یہ بھی یقین نہیں کہ الیکشن ہوں گے یا نہیں ہوں گے۔ اگر ہوں گے تو کب ہوں گے اور کیا وہ واقعی الیکشنز ہی ہوں گے؟ اوپر سے نگران ہیں کہ انہیں دیکھ کر خیال آتا ہے کہ ٹھیک ہے ملک میں قحط الرجال ہے مگر ایسا قحط الرجال کہ محض الیکشن کروانے جیسے کام کے لیے گنتی کے چند مناسب لوگ بھی نہ مل سکیں؟ پہلے بھی ایک سے بڑھ کر ایک خلیفہ نگران آتے رہے ہیں مگر معاملہ اس قدر نہلوں تک نہیں پہنچا تھا۔ انہیں کون سمجھائے کہ آپ صرف صاف اور منصفانہ الیکشن کروانے کے لیے آئے ہیں اور آپ کا اس دوران صرف اتنا کام ہے کہ امورِ حکومت کو روز مرہ کی بنیاد پر سرانجام دیں اور بروقت الیکشن کا ایسا انتظام کریں کہ لوگوں کو اس کے نتیجے پر اعتماد ہو‘ لیکن اس میں سے کوئی ایک بات بھی ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔
لیو ٹالسٹائی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ''آپ کے بولنے کی خواہش جتنی زیادہ ہوگی‘ اتنا ہی زیادہ خطرہ ہے کہ آپ کچھ احمقانہ بات کہیں گے‘‘ فی الوقت یہی حال نگرانوں کا ہے۔ زیادہ بولنے کی خواہش کچھ ایسا الٹا سیدھا کہلوا دیتی ہے کہ بندے کو بعد میں وضاحتیں اور تردیدیں کرنا پڑتی ہیں۔ پہلے وزیر داخلہ نے میاں نوازشریف کے بارے میں کچھ کہہ دیا پھر جب مسلم لیگیوں نے چڑھائی کی تو پھر وہی پرانی دلیلیں کہ میرے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر نشر کیا گیا ہے۔ اوپر سے نگران وزیراعظم بھی بولنے کے شوق میں مبتلا ہیں اور فرمایا کہ عمران خان اور تحریک انصاف کے بغیر بھی الیکشن ہو سکتے ہیں۔ بندہ پوچھے کیا یہ نگران وزیراعظم کے منصب اور مینڈیٹ کے مطابق گفتگو ہے؟ کس نے الیکشن میں حصہ لینا ہے اور کون اس عمل سے باہر ہوگا اس کا فیصلہ یا تو عدالتیں کریں گی یا پھر اس کا مجاز الیکشن کمیشن ہے اور دونوں فورم موجود بھی ہیں اور فعال بھی‘ تو بھلا اس سلسلے میں نگران وزیراعظم کو ان موضوعات پر گفتگو کی کیا ضرورت ہے جو اس کے دائرہ کار سے باہر ہیں۔ ویسے تو سہ ماہی قسم نگران وزیراعظم کا اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے امریکہ جانا بھی منطقی طور پر سمجھ نہیں آتا‘ اوپر سے سرکاری خرچے پر عمرے کا شوق ایسی علت ہے جس میں ہمارا ہر حکمران خواہ وہ عارضی ہی کیوں نہ ہو‘ مبتلا ہے۔
ملک کے مالی حالات خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں اور فی الحال دور دور تک ایسے آثار کم از کم اس عاجز کو تو قطعاً دکھائی نہیں دے رہے جو یہ حوصلہ دیں کہ حالات بہتری کی طرف گامزن ہیں۔ ایسے میں سرکاری خرچوں پر عمرہ کرنا کم از کم ایسے شخص کو تو زیب نہیں دیتا جو صرف اور صرف ایک ذمہ داری کو نبھانے کے لیے نوے دن کے لیے وزیراعظم بنایا گیا ہے۔ ملک میں ایک قدیم روایت ہے کہ جب حکمران اپنے ساتھ کسی لمبے چوڑے وفد کو عمرے وغیرہ کے لیے لے کر جاتے ہیں تو خبر لگتی ہے کہ وزیراعظم اپنے ذاتی خرچے پر عمرہ کرنے جا رہے ہیں جبکہ وفد کے ارکان بھی اپنا خرچہ خود کر رہے ہیں۔ پھر خبر اُڑتی ہے کہ وفد نے اپنی ٹکٹیں تو پلے سے خریدی تھیں مگر ان کی رہائش اور دیگر سہولیات کا اہتمام مقامی سفارت خانے نے کیا تھا۔ جب سب کچھ ہو جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس عمرے پر جانے والے سارے لشکر کا مکمل خرچہ حکومت نے کیا تھا۔
جب میاں نوازشریف دوران ِوزارتِ عظمیٰ برطانیہ میں اپنے علاج کے لیے تشریف لے گئے تو بڑے زور و شور سے اعلان کیا گیا کہ اس سارے سفر اور علاج کا خرچہ میاں صاحب نے اپنی جیب سے کیا ہے بعد میں معلوم ہوا کہ اس دورے میں جہاز کا خرچہ‘ اس کے برطانیہ میں کھڑے رہنے کا کرایہ‘ ہوٹل کا خرچہ‘ رینٹ اے کار والی گاڑیوں کا کرایہ‘ کھانے کا بل‘ فیکس کا خرچہ حتیٰ کہ اخبار کا بل تک حکومتِ پاکستان کے ناتواں کندھوں پر ڈالا گیا۔ ہمارے حکمران اس یقین اور اعتماد کے ساتھ جھوٹ بولتے ہیں کہ بندہ پریشان ہو جاتا ہے۔
میں نے الیکشن کمیشن کی جانب سے جنوری کے آخر میں الیکشن کروانے کا اعلان سن کر شاہ جی سے ان کی رائے لی تو وہ فرمانے لگے کہ دو باتوں پر کم از کم مجھے تو بالکل یقین نہیں آ رہا۔ پہلی یہ کہ میاں نوازشریف اکیس اکتوبر کو پاکستان آ رہے ہیں اور دوسری یہ کہ پاکستان میں عام انتخابات جنوری کے آخر میں ہو رہے ہیں۔ میں نے حیرانی سے پوچھا کہ شاہ جی!آپ بھلا اتنے یقین سے یہ بات کیسے کہہ رہے ہیں کہ میاں صاحب کی واپسی اور الیکشن دی گئی تاریخ پر نہیں ہوں گے ؟ شاہ جی کہنے لگے: حکمرانوں کے ارادے اور کام دیکھتا ہوں تو مجھے یقین ہو جاتا ہے کہ نہ تو یہ نگران جانے کے موڈ میں ہیں اور نہ ہی ان کے ارادے اس بات کی گواہی دے رہے ہیں۔ انہوں نے وہ کام چھیڑ لیے ہیں جو کم از کم جنوری کے آخر تک تو ہر گز ختم نہیں ہو سکتے۔
امریکہ میں روزویلٹ ہوٹل کی فروخت‘ پی آئی اے کی نجکاری‘ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے مستقبل کا تعین اور دیگر کئی سرکاری اداروں‘ کارپوریشنوں اور کمپنیوں سے جان چھڑوانے کا عمل بھلا جنوری تک کہاں مکمل ہوگا اور اسے درمیان میں بھی کیسے چھوڑا جا سکتا ہے؟ ایک عدد پورے نجکاری کے وزیر کی تعیناتی محض خانہ پری کے لیے تو نہیں کی گئی۔ یہ وہ کام ہیں جو آئی ایم ایف منتخب حکومتوں کو بھی کہتی آئی ہے مگر منتخب حکومتیں اپنی سیاسی مجبوریوں‘ ووٹ بینک اور دیگر اسی قسم کے عوامل کے پیش نظر خسارے میں چلنے والے سرکاری یونٹس اور کمپنیوں کی نجکاری کے سلسلے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتی تھیں۔ بلکہ پیپلزپارٹی تو یہاں تک کرتی آئی ہے کہ مسلم لیگ (ن) رائٹ سائزنگ کے نام پر سرکاری اداروں میں ضرورت سے زیادہ بھرتی عملے میں چھانٹی کرتی تھی تو پیپلزپارٹی اپنے دور میں ایسے تمام ملازمین کو ان کی تاریخِ فراغت سے بحال کر کے ان کو تمام بقایا جات اور الاؤنسز بھی ادا کر دیتی تھی۔ اب بھلا ایسے لوگوں کے ذمے دوبارہ یہ کام کیسے لگایا جا سکتا ہے؟ اس کام کے لیے یہ غیر منتخب لوگ لائے گئے ہیں اور یہ کام انہی سے لیا جائے گا اور ظاہر ہے وہ یہ کام ادھور چھوڑ کر تو نہیں جائیں گے۔ اب تم خود بتاؤ کہ جنوری میں انتخابات کیسے ہو سکتے ہیں؟
شاہ جی نے تھوڑا سا سانس لیا پھر کہنے لگے:ویسے بھی جب تک مرضی کے مطابق نتائج کی توقع نہیں ہوتی الیکشن نہیں ہوں گے اور صورتحال کے پیش نظر میں اپنی حد تک یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جنوری کے آخر تک مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکتے۔ ملتان کی حد تک بظاہر سب کچھ ٹھیک کر لیا گیا ہے مگر یہ بظاہر ہی ٹھیک دکھائی دے رہا ہے‘ جب الیکشن قریب آئیں گے تب معلوم ہو گا کہ صورتحال کیا ہے اور پی ٹی آئی کو کس صورت میں اور کس حد تک کھیلنے کا موقع دیا جائے گا۔ یہ بات تو طے ہے کہ خان کا ووٹ بینک ابھی تک اسی کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور بھلے سے انتخابی نشان کوئی بھی ہو اور امیدوار خواہ وہ گمنام ہی کیوں نہ ہو اسے ووٹ تو خان کے نام پر پڑیں گے۔
جو مفرور ہیں اور جیل میں ہیں ان کی تو بات اور ہے لیکن جو حوالات اور جیل بھگت کر واپس آئے ہیں خواہ انہوں نے پریس کانفرنس کی ہے یا نہیں کی‘ وہ اپنا سارا غصہ الیکشن والے دن نکالیں گے اور اب یہ تو ممکن نہیں کہ ان کو اور ان کے چاہنے والوں کو گھروں میں پابند کر دیا جائے۔ ہر بندے کے سر پر پہرے دار تو کھڑا نہیں کیا جا سکتا۔ آتش فشاں کہیں تو پھٹے گا اور پکتا ہوا لاوا کہیں تو نکلے گا۔ پریشر ککر سے بھاپ کے اخراج کے سارے راستے بند کر دیے جائیں تو آپ کا کیا خیال ہے یہ پریشر کہیں سے راستہ نہیں بنائے گا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں