"KMK" (space) message & send to 7575

ایک اور مردِ درویش رخصت ہوا

ڈاکٹر حنیف چوہدری اپنے اللہ کے حضور پیش ہو گئے۔ میرا مالک اُن کے درجات بلند فرمائے‘ ان کی لغزشوں اور خطاؤں سے درگزر کرے اور ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ ملتان ایک درویش صفت محقق اور صاحبِ قلم سے محروم ہوگیا۔ یہ لوگ غنیمت تھے‘ لیکن ملال تب اور بڑھ جاتا ہے جب شہر بھر پر نظر دوڑائیں اور دور دور تک یہ دکھائی نہ دے کہ جانے والے کا ہم پایہ نہ سہی اُس جیسی تھوڑی بہت خوبیوں کا حامل شخص ہی موجود ہو۔ چوہدری صاحب سے میرا تعلق بہت عجیب سا تھا۔ میری اور ان کی پہلی ملاقات 1977ء میں ابا جی کے کمرے میں ہوئی۔ میں تب ایمرسن کالج میں فورتھ ایئر کا طالب علم تھا اور میرے بی اے کے مضامین میں پنجابی اختیاری بھی شامل تھی۔ بی اے میں پنجابی کا مضمون اُس سال پہلی بار شامل ہوا تھا۔ ہمارے پنجابی کے استاد امین نقوی تھے۔ نوجوان اور ہنس مکھ امین نقوی نے ایک سال قبل اورینٹل کالج لاہور سے پنجابی میں ایم اے کیا تھا اور اُن کی بطور لیکچرار چند ماہ پہلے ہی سلیکشن ہوئی تھی۔ لیکن ایسی محبت اور لگن سے پڑھاتے کہ پرائمری کے استاد ماسٹر غلام حسن اور گلگشت ہائی سکول کے استاد عبدالقادر اور ماسٹر ظہور الحق شیخ یاد آ جاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ پروفیسر امین نقوی کو غریقِ رحمت کرے جواں سالی میں ہی اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔
تب ایمرسن کالج میں طالب علم زیادہ اور کلاس روم کم ہوتے تھے۔ اوپر سے طرہ یہ کہ میں پنجابی کا اکلوتا طالب علم تھا۔ اب بھلا ایک بندے کی کلاس کیلئے پورا کمرہ کہاں سے دیا جاتا؟ ایک استاد اور ایک شاگرد پر مشتمل یہ کلاس لائبریری کے آخری کونے میں لگتی۔ امین صاحب سے استاد شاگرد والا احترام بھی تھا اور دوستی بھی۔ تھرڈ ایئر میں تو میں اُن کا اکلوتا شاگرد تھا تاہم اگلے سال جب میں فورتھ ایئر میں پہنچا تو تھرڈ ایئر میں دو مزید طالب علموں نے داخلہ لے لیا۔ ہمارے کورس میں میاں محمد بخش کی سیف الملوک‘ حافظ شاہ جہاں مقبل کی ہیر رانجھا اور پنجابی افسانوی کی کتاب ''لہراں‘‘ لگی ہوئی تھی۔ یہ کتاب سٹیج اور ٹی وی کے معروف آرٹسٹ اور دنیا ٹی وی کے پروگرام ''حسبِ حال‘‘ کے شہرہ آفاق سہیل احمد 'عزیزی‘ کے نانا ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کی مرتب کردہ تھی۔
اگلے سال ہم تین طلبہ کیلئے دو علیحدہ علیحدہ کلاسیں لینے کے بجائے ایک ہی کلاس کا اہتمام کر دیا گیا۔ میں پہلے سال سیف الملوک جو سب سے ضخیم کتاب تھی‘ ختم کر چکا تھا۔ دوسرے سال میں نے ہیر مقبل اور لہراں پڑھنی تھی۔ ہم تینوں نے یہ والی دو کتابیں پڑھنی شروع کر دیں۔ طے یہ پایا کہ وہ دونوں سیف الملوک اگلے سال آنے والی کلاس کے ساتھ پڑھ لیں گے۔لہراں پڑھتے ہوئے بعض جگہوں پر ایسا محسوس ہوتا کہ امین نقوی صاحب کی تمام تر لگن اور توجہ کے باوجود کچھ کمی سی رہ گئی ہے۔ کلاس لائبریری میں لگتی تھی اور ابا جی مرحوم ایمرسن کالج میں لائبریرین تھے اور ان کی طرف سے ایک بار ان کے کمرے میں حاضری کا نادر شاہی حکم تھا لہٰذا اُدھر حاضری دینا پڑتی۔ میں کلاس سے فارغ ہو کر اباجی کے کمرے میں آیا تو وہ پنجابی کے شاہ مکھی اور گورمکھی رسم الخط پر ایک شخص سے علمی گفتگو کر رہے تھے۔ میں اندر داخل ہوا تو اباجی نے انہیں بتایا کہ یہ میرا بیٹا ہے اور بی اے میں پنجابی پڑھ رہا ہے۔ پھر مجھے کہا کہ ان سے ملو‘ یہ حنیف چوہدری صاحب ہیں جو روزنامہ امروز (تب امروز ملتان کا سب سے زیادہ فروخت ہونے والا اخبار تھا) میں سب ایڈیٹر ہیں‘ لیکن ان کی اصل شناخت یہ ہے کہ یہ پنجابی کے بہت بڑے افسانہ نگار‘ لکھاری اور محقق ہیں۔ یہ میری حنیف چوہدری سے پہلی ملاقات تھی جو اگلی بہت سی ملاقاتوں کا پیش خیمہ تھی۔
تب ابا جی بھی پنجابی میں ایم اے کر چکے تھے اور اکثر و بیشتر یہ کہتے رہتے تھے کہ اگر کوئی مشکل ہو تو مجھ سے سمجھ لینا لیکن ابا جی کے دل میں بیٹھے ہوئے خوف کے باعث یہ خوف دو چند ہو جاتا تھا کہ وہ ہمیں نالائق سمجھتے تو ہیں کہیں انہیں ہماری نالائقی کا یقین ہی نہ ہو جائے۔ حنیف چوہدری صاحب نے مجھے آفر کی کہ اگر مجھے کسی قسم کی مدد کی ضرورت ہو تو میں ان سے گھر آکر مل سکتا ہوں۔ امتحانوں میں چند ماہ باقی تھے اور میں ایک کتاب کی پڑھائی سے مطمئن نہیں تھا۔ مجھے ایک آسرا دکھائی پڑا اور میں نے اگلے ہی روز اُن کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹا دیا اور پھر یہ سلسلہ چل نکلا۔1990ء میں امروز اخبار بند ہو گیا اور چوہدری صاحب مکمل طور پر ادب اور تحقیق سے جُڑ گئے۔ ایم اے پنجابی کرنے کے بعد ایم فل کیا اور پھر پی ایچ ڈی کا بیڑہ اٹھا لیا۔ وہ پی ایچ ڈی کسی ڈگری کے حصول کیلئے نہیں کر رہے بلکہ مقصد صرف خود کو کسی باضابطہ اور لازمی تحقیق کیلئے وقف کرنا تھا۔ جب انہوں نے اپنی پی ایچ ڈی 2019ء میں مکمل کی تو اپنی عمر کی 89بہاریں دیکھ چکے تھے۔ نواسی سال کی عمر میں اُن کے نام کے ساتھ ڈاکٹر کا لاحقہ لگ گیا۔ سچ تو یہ ہے کہ لفظ ڈاکٹر اُن کے نام سے جُڑ کر معتبر ہو گیا۔
وہ پنجابی ادب اور اس سے وابستہ انجمنوں اور اداروں کے حوالے سے بھی بہت متحرک اور فعال رہے۔ وہ ایک عرصہ تک ماہنامہ ''وارث شاہ‘‘ کے اعزازی ایڈیٹر رہے۔ پنجابی ادبی بورڈ‘ پنجابی رائٹر فورم‘ پنجابی پرھیا‘ پنجابی ادبی سنگت کے مختلف عہدوں پر رہنے کے علاوہ بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کے بورڈ آف سٹڈیز اور جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کے پنجابی لینگویج اینڈ لٹریچر کے بورڈ آف سٹڈیز کے رکن رہے۔ان کی ادبی تخلیقات کی تعداد درجن بھر سے زائد ہے اور اُن کے بیشتر ناول اور افسانوں کے مجموعے بھارت میں ہندی (دیو ناگری) اور گورمکھی میں شائع ہو چکے ہیں اور بھارتی پنجاب کی کئی یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل ہیں۔ اُن کے قلم کا اصل میدان تو کہانی کاری تھا مگر انہوں نے پنجابی زبان میں بہت سا تحقیقی کام بھی کیا‘لیکن ہم اہلِ ملتان ان کے اس احسان کو تا دیر یاد رکھیں گے جو انہوں نے ''ایک صدی کا ملتان‘‘ لکھ کر کیا ہے۔یہ ملتان پر ایک ایسی تاریخی اور تحقیقی دستاویز ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔
شاید ڈیڑھ دو ماہ پہلے کی بات ہے جب شاکر حسین شاکر نے مجھے کہا کہ چوہدری صاحب کی ملتان پر تحقیقی کتاب کا کام مکمل ہو گیا ہے اور اب توچھاپنے کا مرحلہ آن پڑا ہے۔ آپ کو تو علم ہی ہے کہ چوہدری صاحب درویش آدمی ہیں اور کتاب کی چھپائی اب کوئی آسان کام نہیں رہا۔ کاغذ اتنا مہنگا ہو گیا کہ تصورمحال ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ اس کتاب کو شائع کرنے کا اہتمام کریں۔ میں نے ہامی بھر لی اور شاکر سے اس کتاب کا تخمینہ پوچھا جو اس نے بتا دیا۔ میں نے اپنے ایک دوست ڈاکٹر شفیق پتافی سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے فوراً ہی اس کام کی ہامی بھر لی۔ شاکر نے مجھے اس کتاب کا کمپوز شدہ مسودہ پڑھنے کیلئے بھیج دیا اور کہا کہ میں اس پر مضمون بھی لکھوں۔ یہ کتاب نہیں ایک جادونگری ہے جس میں ملتان کی حویلیاں اور سرائے‘ ملتان کے مندروں کا انہدام‘ ملتان کے خانہ بدوشوں کے عقائد اور ملتان میں نوگزی قبروں کی حقیقت‘ بیس ہزار سال قبل از مسیح کا ملتان‘ ملتان کے گم گشتہ قبرستان‘ ملتانی وسیب کے توہمات اور لوک عقیدے‘ ملتان کے باغوں پر کیا گزری جیسے مضمون ہیں اور بہت کچھ۔ملال تو یہ ہے کہ چوہدری صاحب اپنی اس بے پایاں تحقیق کو کتابی شکل میں نہ دیکھ سکے۔ ان کی کتاب کا مسودہ آج ان کی ترانویں سالگرہ کے روز پریس میں گیا ہے جب انہیں مٹی کا مہمان ہوئے پانچ روز گزر چکے ہیں۔
ہم قرض اتارنے میں تھوڑی تا خیر کر گئے مگر جالندھر کی تحصیل نکودر سے آنے والا مٹی کا مہمان جاتے جاتے مٹی کا قرض اتار گیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں