"KMK" (space) message & send to 7575

کتاب اور لائبریری سے محبت…(2)

عالم یہ ہے کہ ملک کی آبادی میں دن دوگنی رات چوگنی ترقی ہو رہی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں لائبریریوں کی تعداد روز بروز کم ہو رہی ہے اور اگر کم نہیں ہو رہی تو ان کی حالت ضرور ہر گزرتے دن پہلے سے خراب تر ہو رہی ہے اور اوپر سے مزید افسوسناک بات یہ ہے کہ لائبریری میں آنے والے اور کتاب سے دلچسپی رکھنے والوں کی تعداد دن بہ دن کم ہوتی جا رہی ہے۔
اب ملتان کو لے لیں۔ یہاں پبلک کیلئے پہلے سینکڑوں نہیں تو درجنوں لائبریریاں ہوتی تھیں۔یہ گلی محلوں میں قائم المعروف آنہ لائبریریاں تھیں۔جس طرح ہر محلے میں دودھ‘ دہی اور سبزی وغیرہ کی دکانیں ہونا ضروری ہیں اسی طرح کبھی ملتان شہر کے ہر قابلِ ذکر محلے اور آبادی میں کم از کم ایک عدد آنہ لائبریری ہوتی تھی جہاں سے ایک آنہ روزانہ پر کتاب کرائے پر مل جاتی تھی۔ بعد میں گو کہ روزانہ کا کرایہ ایک آنے سے بڑھ کر دو آنے اور پھر چار آنے تک بھی پہنچا مگر پھر آہستہ آہستہ یہ لائبریریاں بند ہو گئیں۔ اب اس پر کیا بحث کرنا کہ پہلے ان لائبریریوں سے استفادہ کرنے والے کتاب کے قاری کم ہوئے یا پہلے لائبریریاں بند ہوئیں۔ تاہم یہ بات طے ہے کہ اگر قاری موجود ہوتے تو لائبریریاں قائم رہتیں کہ مارکیٹ اکانومی کا یہی اصول ہے کہ گاہک موجود ہو تو مال کی سپلائی اور دستیابی کوئی مسئلہ نہیں ہوتی۔
بقول ہمارے ایک دوست کے جب آنہ ہی ختم ہو گیا تھا تو آنہ لائبریریاں کہاں قائم رہتیں۔ یہ تو خیر وہ تفننِ طبع کیلئے کہتا تھا لیکن یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ ملک میں کتاب پڑھنے کا رواج ختم نہیں ہوا تو کم از کم بہت حد تک کم ہو گیا ہے۔ اب بظاہر کتابیں زیادہ تعداد میں طبع ہو رہی ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ کتابیں جو پڑھی جانے کے قابل ہیں اور انہیں پبلشر کمرشل بنیادوں پر چھاپ کر فروخت کر رہے ہیں۔ ان کا پہلا ایڈیشن آج بھی پانچ سو سے لے کر ایک ہزار کے درمیان چھپتا ہے۔ اور یہ ایڈیشن مہینوں‘ بلکہ بعض اوقات سالوں میں فروخت ہوتا ہے۔ اب اس میں پبلشر بھی تھوڑی بہت ہینکی پھینکی کرتا ہے لیکن تحقیق کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اچھے نام اور شہرت والے ایماندار پبلشر بھی اپنا ایک ہزار کتابوں والا ایڈیشن خاصی دوڑ دھوپ کے بعد ہی بیچ پاتے ہیں۔ عشروں پہلے بھی کتاب کا ایک ایڈیشن اسی تعداد میں چھپتا تھا اور اب جبکہ ملک کی آبادی کئی گنا بڑھ چکی ہے کتاب کی فروخت کا وہی حال ہے۔ ملکی آبادی اور کتاب کی شرح فروخت کا موازنہ کریں تو اصل میں کتاب کی فی کس فروخت شاید کئی گنا کم ہو چکی ہے۔آنہ لائبریریاں ختم ہو گئیں۔ بک سٹال بھی شاذ ہی دکھائی دیتے ہیں۔ ملتان میں حرم دروازے کے باہر دائیں طرف اور اندر بائیں طرف دو عدد بک سٹال تھے جن پر اخبارات‘ رسالے‘ ڈائجسٹ اور ابن صفی کے تازہ ترین ناول دھڑا دھڑا فروخت ہوتے تھے۔ حرم دروازے کے ہی باہر تھانہ حرم گیٹ اور نشاط روڈ کے اتصال پر بھی ایک کھوکھا نما بک سٹال ہوتا تھا۔ بوہڑ دروازے سے شاہین مارکیٹ کی طرف جائیں تو سڑک کے موڑ پر ایک بک سٹال ہوتا تھا جس پر دیو جانس کلبی کے حلیے کا لمبے بالوں اور بے ہنگم سی داڑھی والا ایک شخص بیٹھا ہوتا تھا۔ اسی طرح گھنٹہ گھر کے تغلق روڈ والے دروازے کے دائیں طرف ایک بک سٹال ہوتا تھا۔ یہ سارے بک سٹال اب کسی گم گشتہ تاریخ کا حصہ ہیں۔ شہر بھر میں اب اس طرح کا کوئی بک سٹال دکھائی نہیں دیتا۔
لے دے کر شہر میں دو عدد پبلک لائبریریاں تھیں ایک پبلک لائبریری باغ لانگے خان تھی اور دوسری میونسپل پبلک لائبریری قلعہ کہنہ قاسم باغ تھی۔ میں نے ان لائبریریوں کے ساتھ لفظ ''تھی‘‘ لکھ دیا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ لائبریریاں اب موجود نہیں۔ نہ صرف یہ کہ دونوں لائبریاں اب بھی موجود ہیں بلکہ اب شہر میں ایک تیسری لائبریری بھی وجود میں آ چکی ہے۔ یہ گیریژن پبلک لائبریری ہے۔ اس نئی لائبریری کی عمارت بہت شاندار ‘ماحول بہت عمدہ اور کتابوں کی بھی خاصی تعداد ہے لیکن اس سب کے باوجود یہاں آنے والوں کی تعداد بھی اس حد تک نہیں کہ اسے قابلِ ذکر کہا جائے حالانکہ اس لائبریری میں تقریباً وہ سب کچھ موجود ہے جو کسی لائبریری اور قاری کی دلچسپی کیلئے لازمی ہے‘ لیکن نتائج اس طرح حوصلہ افزا نہیں جس طرح ہونے چاہئیں۔ تاہم اس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ اس لائبریری کا نظم و نسق جن ہاتھوں میں ہے وہ اسے پبلک لائبریری کم اور ایک ڈسپلن فورس کے طور پر چلانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ اوپر سے اس کی ماہانہ ممبر شپ فیس کافی زیادہ ہے اور سکیورٹی کے مسائل اس پر سوا ہیں۔
پبلک لائبریری لانگے خان ملتان کی سب سے قدیم پبلک لائبریری ہے جس میں نہ صرف یہ کہ ہزاروں کتابیں موجود ہیں بلکہ اس لائبریری میں بہت سی نایاب کتابیں اور مخطوطے بھی موجود ہیں اور اپنی قدامت کے باعث خستگی کی اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ اگر انہیں بروقت جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے محفوظ نہ کیا گیا تو یہ خستہ حال مخطوطے مکمل طور پر ضائع ہو سکتے ہیں۔ اللہ مجھے بدگمانی سے بچائے لیکن اس لائبریری کے ٹرسٹی حضرات اس لائبریری پر محض اپنے اس خوف کے باعث کہ کوئی اس قدیم لائبریری پر قبضہ نہ کر لے کسی شخص یا تنظیم کو اس کے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتے۔ ایک صاحبِ دل لائبریرین نے اس لائبریری کو ڈیجیٹا ئز کرنے کیلئے بلا معاوضہ اپنی خدمات پیش کیں لیکن اس لائبریری کے ٹرسٹی حضرات نے اسے کئی بار چکر لگوانے کے بعد یہ کہہ کر انکار کردیا کہ انہیں اس کی خدمات کی ضرورت نہیں۔ لائبریری کی پرانی عمارت بھی خستہ ہو چکی ہے‘ تاہم نئی عمارت بھی لائبریری کی ضرورت سے کہیں کم ہے اور اس کی ممبر شپ بھی ایک عرصہ سے بہتری کی طرف جاتی دکھائی نہیں دے رہی۔
دوسری پبلک لائبریری میونسپل کارپوریشن ملتان کے زیرانتظام ہے ‘تاہم حالت یہ ہے کہ ہزاروں کتابوں پر مشتمل یہ لائبریری جس میں بہت کمیاب اور نایاب کتابوں کی اچھی خاصی تعداد شامل ہے۔ شہر کے وسط میں موجود قدیمی قلعہ کہنہ قاسم باغ کی حدود سے متصل یہ لائبریری بھی دیگر سرکاری اداروں کی طرح مسلسل بربادی کی ایک داستان ہے۔ اس لائبریری میں کبھی ایک عدد لائبریرین بھی ہوا کرتا تھا۔ یہ آخری لائبریرین چچا اشرف سیال تھے۔ ماسٹرز اِن لائبریری سائنس کی ڈگری کے حامل اشرف سیال صاحب اس لائبریری کے آخری باقاعدہ لائبریرین تھے۔ یہ ابا جی مرحوم کے دوست تھے اور ہمارے گھر تشریف لاتے رہتے تھے۔ ابا جی کے دوست ہونے کے رشتے سے یہ میرے چچا تھے ‘میں ان کے زمانے میں کبھی کبھار اس لائبریری میں چلا جاتا تھا۔ پھر وہ ساٹھ سال پر پہنچنے کے باعث ریٹائر ہو گئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے وکالت کی پریکٹس شروع کردی۔ میری ان سے کچہری میں بھی کبھی کبھار ملاقات ہو جاتی تھی۔نہایت شفیق اور محبت کرنے والے چچا اشرف سیال نے اس لائبریری کو نہایت شاندار انداز میں چلایا۔ اب مجھے یہ تو یاد نہیں کہ چچا اشرف سیال کب ریٹائر ہوئے تاہم اب اس کو کم از کم بھی دو اڑھائی عشرے تو ہو گئے ہوں گے۔ حالت یہ ہے کہ یہ لائبریری گزشتہ بیس پچیس سال سے کسی باقاعدہ لائبریرین سے محروم ہے۔ چچا اشرف سیال کی ریٹائرمنٹ کے بعد اس لائبریری کا انتظام یہاں کے ایک سینئر کلرک عبداللہ کے ہاتھوں میں آ گیا۔ چند سال پہلے عبداللہ بھی ریٹائر ہو گیا۔ چند عشرے قبل جہاں چوبیس ہزار کتب تھیں اب بیس ہزار کے لگ بھگ بچی ہیں۔ جب کتب خانے کی زمام کار اناڑیوں کے ہاتھوں میں ہو تو اس کی حالت کا اندازہ کرنے کیلئے کسی شخص کا حکیم الامت ہونا ضروری نہیں۔(جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں