"KMK" (space) message & send to 7575

الیکشن کمیشن سے عالم ِاسلام تک

گزشتہ روز ادھر برطانیہ میں ایک پرانے دوست سے گفتگو چل رہی تھی اور میری پوری کوشش تھی کہ اس کا رُخ سیاست کی طرف نہ جائے۔ یہ دوست اچھا خاصا سمجھدارہے لیکن پھر دیگر بہت سے دوستوں کی طرح یہ بھی خان صاحب کو پیارا ہو گیا‘ لہٰذا اب اس سے معقول گفتگو کی توقع عبث نہ بھی سہی مگر مشکل ضرور ہے۔مجھ سے کہنے لگا: کہ تمہارے کالموں میں جان نہیں ہوتی۔ میں نے کہا: اگر جان کی امان پاؤں تو اگر اس ''جان‘‘ سے تمہاری مراد وہ گالی گلوچ ہے جو اس وقت سوشل میڈیا پر رائج ہے تو پھر میرا کالم واقعی بے جان اور مردہ ہے۔ وہ کہنے لگا: میری مراد گالی گلوچ سے نہیں بلکہ سچ لکھنے سے ہے۔ میں نے کہا: چلو تم سے ایک سودا کرتے ہیں۔ تم ادھر سے‘ یا بے شک پاکستان جا کر اخبار نکالو اور اس میں وہ سچ چھاپنے کی ہمت کرو جو فی الوقت تمہارے دل میں ہے تو میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ بالکل ایسا ہی سچ لکھوں گا جو تم چاہتے ہو‘ بلکہ میں وہ بھی لکھ دوں گا جو تمہارے دل میں تو ہے یا نہیں لیکن میرے دل میں ضرور ہے۔ آگے سے وہ جواب دینے کے بجائے کھسیانی سی ہنسی ہنسنے لگ گیا۔ پھر کہنے لگا: صاف کہیں کہ آپ ڈر گئے ہیں۔ میں نے کہا :جتنے بہادر تم ہو میں خوب جانتا ہوں۔ تم نے ایک بار اپنی فیس بک پر ایک بہادرانہ پوسٹ لگائی تھی مگر جیسے ہی سنا کہ پاکستان واپسی پر ایسے لوگوں کے خلاف سائبر ایکٹ کے تحت کیس درج ہوں گے اور ان کے شناختی کارڈ بلاک ہو جائیں گے تو تم نے اگلے ہی روز اپنی پوسٹ ڈیلیٹ کر دی۔ تم ادھر کئی ہزار میل دور بیٹھ کر اپنے سچ سے ''دُڑکی‘‘ لگا گئے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ تم نہ صرف یہ کہ گزشتہ چھ سات سال سے پاکستان نہیں آئے اور مجھے امید ہے کہ اگلے کئی سال تک تمہارا پاکستان آنے کا کوئی ارادہ نہیں مگر بہادری کا یہ عالم ہے کہ صرف مجھے طعنے مارنے کے علاوہ تمہاری ہوا نکلی ہوئی ہے اور دوسروں کو سچ نہ لکھنے پر بزدلی کے طعنے مارتے ہو۔ اپنا یہ عالم ہے کہ فیس بک پر اسرائیل کے خلاف اور فلسطینیوں کے حق میں کوئی پوسٹ نہیں لگاتے کہ اکاؤنٹ بلاک نہ ہو جائے اور دوسروں کو بزدلی کے طعنے مارتے ہو۔ آگے سے مسمسی سی آواز میں کہنے لگا: دراصل آپ کو ہماری مجبوریوں کا اندازہ نہیں۔ پھر کہنے لگا: سیاست پر لعنت بھیجتے ہیں‘ کوئی اور بات کرتے ہیں۔ میں نے کہا :ہمارا مسئلہ سچ لکھنے سے زیادہ یہ ہے کہ سچ کوئی چھاپتا نہیں۔
ابھی ہماری یہ گفتگو جاری تھی کہ سامنے لگے ہوئے ٹی وی کی سکرین پر الیکشن کے سلسلے میں ہونے والی پیش رفت کے ٹِکر چلنا شروع ہو گئے۔ سپریم کورٹ کی طرف سے الیکشن کمیشن کو صدرِ مملکت سے مشاورت کرکے الیکشن کی حتمی تاریخ سے آگاہ کرنے کے حکم نامے کے بعد چیئرمین الیکشن کمیشن کی دیگر ارکان کے ہمراہ ایوانِ صدر میں ہونیوالی مشاورت کی خبریں دیکھ کر میں نے اپنے اس دوست سے کہا کہ تم دیکھ رہے ہو؟ وہ حیرانی سے پوچھنے لگا کہ کیا دیکھ رہا ہوں؟ میں نے کہا: یہی چیئرمین الیکشن کمیشن تھے جو صدرِ مملکت کے خط کے جواب میں بڑے دھڑلے سے فرماتے تھے کہ یہ خط غیر آئینی ہے اور میں الیکشن کی تاریخ کے سلسلے میں صدر سے ملنے اور مشاورت کرنے کا پابند نہیں ہوں۔ چیئرمین الیکشن کمیشن نے ملک کے آئینی سربراہ اور سپریم کمانڈر کو ٹکے سا جواب دے دیا تھا کیونکہ انہیں بخوبی علم تھا کہ صدرِ مملکت نہایت ہی بے اختیار عہدے پر متمکن ہیں ‘اسلئے چیئرمین نے ان کے خط کو نہ صرف ہوا میں اڑا دیا بلکہ ان کا اچھا خاصا ٹھٹھا اُڑایا۔ اب عدالت کا حکم ملا ہے تو صدرِ مملکت کی جانب سے ملنے والے خط کے بعد جو کام پہلے غیر آئینی تھا اب وہ آئینی بھی ہو گیا اور انہوں نے شتابی سے ایوانِ صدر میں حاضری بھی لگائی اور مشاورت سے ملنے والی تاریخ سے سپریم کورٹ کو آگاہ بھی کردیا۔
پہلے چیئرمین الیکشن کمیشن کا مؤقف تھا کہ ہم الیکشن کی تاریخ کیلئے کسی مشاورت کے پابند نہیں ہیں اور الیکشن کی تاریخ دینا کُلی طور پر الیکشن کمیشن کا کام ہے۔ پھر وہ نہ صرف صدرِ مملکت سے مشاورت کرنے کیلئے ایوانِ صدر چل کر گئے بلکہ صدرِ مملکت نے انہیں محض خوار کرنے کی غرض سے الیکشن کمیشن کی دی ہوئی گیارہ فروری کی تاریخ کو آٹھ فروری میں بدل کر انہیں یاد دلایا کہ وہ نہ صرف صدر سے مشاورت کے بلکہ صدر کی دی گئی تاریخ مقرر کرنے کے بھی پابند ہیں۔ سچی بات تو ہے کہ ایوانِ صدر جاتے ہوئے چیئرمین الیکشن کمیشن کے چہرے کی حالت دیکھنے والی تھی۔
سوچنے کی بات صرف یہ ہے کہ آخر چند روز پہلے جو چیز غیر آئینی تھی وہ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد آئینی کیسے ہو گئی؟ کیا آئین کی ہر تشریح صرف اور صرف سپریم کورٹ کے حکم کی محتاج ہے؟ کیا ملک کے ایک نہایت ہی معتبر ادارے الیکشن کمیشن آف پاکستان کا چیئرمین جو ایک آئینی عہدے کا حامل ہے آئینی تشریحات سے اتنا لاعلم ہے کہ الیکشن کی تاریخ کے سلسلے میں صدر مملکت کے خط کو پرِکاہ کی حیثیت بھی نہیں دیتا اور پھر چند روز بعد سپریم کورٹ کے حکم کی من و عن تعمیل کرنے کی غرض سے ایک منٹ ضائع کئے بغیر ایوانِ صدر پہنچ جاتا ہے۔ اگر صدر مملکت کا خط آئینی تھا تو اس سے انکار کیوں کیا گیا؟ اور اگر غیر آئینی تھا تو یہ بات سپریم کورٹ کو کیوں نہیں بتائی گئی کہ الیکشن کے سلسلے میں صدر سے ملاقات اور تاریخ کے سلسلے میں مشادرت غیر آئینی ہے اس لئے ہم صدر ِ مملکت سے ملنے اور مشاورت کرنے سے معذور ہیں۔ لیکن جو بات صدرِ مملکت کو ٹھک سے کہہ دی گئی تھی وہ سپریم کورٹ میں کہنے کی جرأت نہ تھی۔ ان درمیانی چند روز کے دوران آئین میں کوئی ترمیم بھی نہیں ہوئی تو پھر یکا یک یہ سارا منظر نامہ کیسے بدل گیا اور غیر آئینی قراردی جانے والی چیز آئینی کیسے ہو گئی؟
اس ملک میں ہر چیز کو چلانے کیلئے جب تک اس میں ڈنڈا جمع نہ کیا جائے جواب صفر نکلتا ہے۔ صدر مملکت کے پاس کیونکہ کوئی انتظامی اختیار اور اپنے حکم کو لاگو کرنے کا کوئی باقاعدہ میکنزم نہیں اس لئے ملک کے آئینی سربراہ کے حکم کو مذاق بنا کر رکھ دیا اور آئین پاکستان میں درج اس کے اختیارات کی من مانی تشریح کرکے معاملے کو داخل دفتر کردیا۔ تب چیئرمین الیکشن کمیشن نے اوپر والوں کی مرضی والا سچ بولا تھا اس لئے کسی نے ان سے بازپُرس نہیں کی۔ اب زور آوروں کا حکم تھا تو انہوں نے اپنے سابقہ سچ سے رجوع کر لیا۔
پاکستان میں آئین اور قانون بھی تب اپنی طاقت دکھاتے ہیں جب ان کے پیچھے کوئی طاقت دھکا لگانے کیلئے موجود ہو وگرنہ یہ بقول جنرل ضیا الحق کا غذ کے ٹکڑے ہیں۔ یعنی دوسرے لفظوں میں طاقت آئین و قانون میں کم اور اس طاقت میں زیادہ ہے جو اِن پر عمل درآمد کروانے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ پاکستان میں زور آور طاقتور حلقوں کی آشیر باد کے بغیر کسی حکم کا اطلاق ممکن نہیں ہے اور اس کا اندازہ بارہا ہو چکا ہے۔ کبھی کورٹ کا حکم ہو تو رات بارہ بجے قیدیوں والی وین عدالت کے باہر پہنچ جاتی ہے اور کبھی جسٹس سجاد علی شاہ کی جانب سے آئینی اختیارات کے استعمال سے متعلق درخواست رد کر دی جاتی ہے۔ ایسے میں سچ بھی صرف اتنا بولا جانا چاہئے جو طاقتوروں کو ہضم ہو سکے۔ اور یہ ساری دنیا میں ہو رہا ہے۔ امتِ مسلمہ کے ایسے ایسے حکمران جو اپنے ملک میں کسی کو اونچا کھانسنے بھی نہیں دیتے‘ اپنے بارڈر سے جڑے ہوئے ملک میں تاریخ کے بدترین قتلِ عام کو دیکھ رہے ہیں مگر کسی میں سچ بولنے کی ہمت نہیں۔ زبانی کلامی مذمت کرنے والے بھی امریکہ بہادر کو یقین دلاتے ہیں کہ یہ ہماری مجبوری ہے وگرنہ ہماری اتنی جرأت کہاں کہ آپ کے لے پالک کے بارے میں کوئی اونچا نیچا شبد بولنے کی جرأت کر سکیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں