"KMK" (space) message & send to 7575

خزاں رُت کی خوبصورتی

ادھر برطانیہ میں بھی سردیوں کا آغاز ہو چکا ہے۔ سدا بہار درختوں کے علاوہ والے درختوں کے پتے یا گر چکے ہیں یا گر رہے ہیں۔ یہاں خزاں کا موسم ہے جسے ادھر Fall کہا جاتا ہے۔ ہر طرف گرے ہوئے ان پتوں کا قالین سا بچھا دکھائی دیتا ہے۔ درختوں پر جو پتے بچے ہوئے ہیں‘ ان کا رنگ بھی پیلا پڑ چکا ہے۔ زمین پر گرے ہوئے پیلے پتے سوکھ کر ہلکے نسواری رنگ میں بدل چکے ہیں۔ جدھر میں ٹھہرا ہوا ہوں ادھر سامنے ہی ایک چھوٹا سا پارک ہے۔ علی الصبح کافی سردی ہوتی ہے۔ ایک قطار میں لگے ہوئے درختوں کے نیچے ہلکے پیلے سے لے کر نارنجی اور پھر نسواری رنگ کے پتوں سے بنا ہوا رنگ برنگا فرش ایسی پھبن دکھا رہا ہے کہ دنیا کا کوئی ہاتھ سے بُنا ہوا قالین بھی اس کی خوبصورتی تک نہیں پہنچ سکتا۔ فال اداسی کا موسم ہے لیکن اس میں قدرتی حسن اپنے تنوع کے ساتھ ایسا جلوہ گر ہوتا ہے کہ سر سبز اور پتوں سے لدے ہوئے درخت ٹنڈمنڈ ہوتے ہیں تو ایک اور قسم کی خوبصورتی کا اظہار کرتے ہیں۔ میں خزاں سے بھی اسی طرح لطف اندوز ہوتا ہوں جس طرح بہار سے‘ جب ہر طرف پھول کھلتے ہیں۔
خزاں ہمارے ہاں بھی بہت خوبصورت ہوتی ہے لیکن اس کا حقیقی نظارہ کرنے کے لیے ملتان سے نکلنا پڑتا ہے۔ ادھر ملتان میں گرمی کا موسم بہت لمبا ہے بلکہ بقول شخصے ملتان میں دو موسم ہوتے ہیں‘ ایک گرم اور دوسرا بہت گرم۔ سردی تو بس اپنی چھب دکھانے کے لیے چند روز مہمان کی طرح آتی ہے اور ابھی بندہ اس سے پوری طرح لطف اندوز بھی نہیں ہوتا اور وہ رخصت ہو جاتی ہے۔ اول تو ملتان ویسے ہی شجر بیزار علاقہ ہے‘ سوائے آموں اور اب گزشتہ چند سال سے اس علاقے میں لگنے والے ترشاوہ پھلوں (citrus) کے باغات کے درخت بہت ہی کم ہیں۔ شیشم اس علاقے کا صدیوں پرانا درخت تھا جو سخت جان اور لمبی عمر کا حامل تھا مگر گزشتہ چند عشروں سے ایک وائرس کے باعث فوری طور پر سوکھ کر ختم ہونے کی بیماری کے باعث سڑکوں کے دونوں طرف لگا ہوا یہ درخت بہت سی جگہوں پر تو باقاعدہ ناپید ہو گیا ہے۔ اب دوبارہ لگایا جا رہا ہے لیکن اس لگن سے نہیں جس کا یہ متقاضی تھا۔ نہروں کے کناروں پر لگے پچاس‘ ساٹھ سال پرانے شیشم کے درخت چوری ہو گئے۔ سرکاری ذخیروں میں لگی شیشم ٹمبر مافیا نے غتر بود کر لی۔ سرکار کے محکمہ جنگلات اور ہارٹیکلچر والوں کے پاس نہ کوئی متبادل منصوبہ ہے اور نہ ہی کام کرنے کا جذبہ۔ بھلا ایسے میں درخت کہاں پروان چڑھ سکتے ہیں؟ اوپر سے عوام باقاعدہ درخت دشمن قسم کے خیالات کے حامل ہیں۔
دو سال قبل میں اور ڈاکٹر عنایت اللہ زیارت گئے۔ راستے میں سنجاوی سے زیارت کی جانب جاتے ہوئے کئی میل تک سڑک کے دونوں طرف لگے ہوئے درختوں کے آدھے پتے گر چکے تھے اور آدھے اپنا رنگ بدل چکے تھے مگر ابھی ہوا نے انہیں درخت کی رفعت سے زمین کی پستی کی جانب روانہ نہیں کیا تھا۔ پیلے درختوں کی اس دو طرفہ قطار نے ایسا مسحور کیا کہ میں نے گاڑی روک لی اور اس منظر کی تصویر کشی شروع کر دی۔ پھر فون پر موجود ان تصاویر کا موازنہ اپنے سامنے موجود منظر سے کیا تو دل چاہا کہ ساری تصاویر کو ڈیلیٹ کر دوں مگر پھر یہ سوچ کر رک گیا کہ یہ حقیقی منظر تو سدا میرے دل میں محفوظ رہے گا مگر یہ تصاویر‘ جو اصل کا عشر عشیر بھی نہیں‘ ملتان جا کر غنیمت لگیں گی۔ سچ یہ کہ جس نے بھی یہ تصاویر دیکھیں‘ قدرت کی رنگ آمیزی پر ششدر رہ گیا۔
مجھے پہلی بار یورپ کی بھرپور خزاں دیکھنے کا اتفاق ناروے میں ہوا۔ میں ایک مشاعرے کے سلسلے میں ناروے گیا‘ مشاعرہ اوسلو میں تھا۔ میں نے مشاعرے کے منتظم سے کہا کہ اگر ممکن ہو تو مجھے دیگر شعرا کے ساتھ ہوٹل میں ٹھہرانے کے بجائے شہر کے آخری سرے پر موجود کسی جنگل کے قریب ٹھہرا دیا جائے تو میں ان کا مشکور رہوں گا۔ مشاعرے کے منتظم پاکستان ایسوسی ایشن ناروے کے صدر فضل حسین اور جنرل سیکرٹری خالد محمود (جو بعد میں ناروے کی پارلیمنٹ کے رکن رہے) نے کہا کہ یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ ہمارے ایک دوست کا فلیٹ جو جنگل سے محض سو گز دور ہے بالکل خالی پڑا ہے‘ آپ چاہیں تو اس میں ٹھہر سکتے ہیں لیکن وہاں آپ کو اکیلا رہنا پڑے گا۔ میں نے کہا: بھلا مجھے اور درکار ہی کیا ہے؟ فلیٹ کی بالکونی سے جنگل صاف دکھائی دے رہا تھا۔ جنگل کا یہ حصہ شہر میں آ گیا تھا اور سلامت تھا۔ رات مجھے اس فلیٹ میں چھوڑ جانے سے پہلے ہر دو حضرات نے کہا کہ میں اس جنگل میں بہت زیادہ دور تک اندر نہ جاؤں۔ کبھی کبھار جنگلی جانور اور بھیڑیے دکھائی دیتے ہیں۔ میں علی الصبح اُٹھ کر جنگل کی طرف چل پڑا۔ چند قدم پر کار پارکنگ تھی اور اس کے آگے ایک چھوٹا سا بیریئر تھا جہاں سے جنگل کے اندر ایک پگڈنڈی سی جا رہی تھی۔ اللہ جانے کس نے اس بیریئر کے ساتھ ایک مضبوط سا ڈنڈا رکھا ہوا تھا۔ میں نے وہ ڈنڈا اٹھایا اور اندر کی طرف چل پڑا۔ یہی نومبر کا مہینہ تھا اور خزاں (فال) اپنے جوبن پر تھی۔ سارے راستے کو پتوں کی دبیز تہہ نے ڈھانپ رکھا تھا اور لگتا تھا کہ پاؤں تلے کئی انچ موٹی دوب بچھی ہوئی ہے۔ یہ میپل کے درختوں پر مبنی جنگل تھا۔ میپل سے یہ میرا پہلا تعارف تھا۔ تب اس کے پانچ کونوں والے پتے دیکھ کر چنار کے پتوں کا شبہ ہوا۔ مجھے گمان سا ہوا کہ شاید چنار اور میپل ایک ہی قسم کے درختوں کی دو ملتی جلتی اقسام ہیں لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ دونوں بالکل ہی مختلف قسم کے درخت ہیں تاہم ان کے پتوں میں بہت زیادہ مشابہت پائی جاتی ہے۔ میپل بنیادی طور پر یورپ اور شمالی امریکہ کا درخت ہے جو چین کے مشرقی علاقوں میں بھی کثرت سے پایا جاتا ہے۔ اس کی بعض اقسام سے چینی حاصل کی جاتی ہے۔ میپل شوگر اور میپل سیرپ اپنے ذائقے اور مہک کے باعث بہت سے کھانوں کا روایتی حصہ ہے۔ میپل کا پتا کینیڈا کا قومی نشان ہے اور اس کے جھنڈے پر بھی بنا ہوا ہے۔ میپل کے پتے کی کئی اشکال ہیں۔ پانچ کونوں سے لے کر تین کونوں تک کا یہ پتا خزاں میں پیلا ہو جاتا ہے اور گرکر سوکھ جائے تو خاکی یا ہلکا نسواری ہو جاتا ہے جبکہ چنار کا پتا سبز سے لے کر نارنجی رنگ تک ہوتا ہے‘ تاہم جب درخت اپنے جوبن پر ہو تو اس کے پتے نارنجی سے شوخ سرخ رنگ اختیار کر جاتے ہیں۔ تب چنارکا درخت گویا بھڑکتے ہوئے آتش کدے میں بدل جاتا ہے۔ اسی سرخ رنگ سے آگ کی مشابہت کے پیش نظر جناب علامہ اقبالؔ نے اسے آتشِ چنار سے تشبیہ دی تھی۔ چنار کا درخت وادیٔ کشمیر میں کثرت سے پایا جاتا ہے اور وادیٔ کشمیر کا قومی نشان بھی ہے۔ علامہ اقبالؔ کی تشبیہ کے پیش نظر شیخ عبداللہ نے اپنی خود نوشت کا نام بھی ''آتشِ چنار‘‘ رکھا۔ جو کشمیر کے اس قومی درخت کے پس منظر میں اس کتاب کا ازخود تعارف ہے۔
چنار بنیادی طور پر ایران‘ ترکی اور یونان کے علاقے کا درخت ہے۔ کشمیر میں اسے لانے کا سہرا مغل بادشاہ اکبر کے سر جاتا ہے۔ روایت ہے کہ جب اس درخت پر لگے سبز پتے سرخ رنگ میں تبدیل ہوئے اور انہوں نے باغ میں گویا آگ سی لگا دی تو کسی نے پکار کر کہا کہ ''چہ نار است‘‘ کہ یہ کیا آگ سی لگی ہوئی ہے؟ اسی لیے اس کا نام چنار مشہور ہوا۔ خدا معلوم وادیٔ کشمیر کا یہ درخت اس علاقے میں عمومی طور پر اور خاص طور پر آزاد کشمیر میں کیوں دکھائی نہیں دیتا؟ جاپان کی طرف سے تحفہ کردہ تین ہزار چیری بلاسم کے پودے واشنگٹن ڈی سی میں اپنی خوبصورتی سے دل موہ رہے ہیں۔ جو ہانسبرگ میں جیکارانڈہ کے درخت اس وقت جوبن پر ہوں گے اور ہر طرف کاسنی پھولوں کا جشن چل رہا ہوگا۔ اوپر درختوں پر بھی‘ نیچے زمین پر بھی۔ اور ہاں! ہنزہ کی خزاں کی بھی اپنی ہی بات ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں