"KMK" (space) message & send to 7575

سبزہ و گل کی خود مختار دنیا

یہ واقعتاً سبزہ و گل کی خود مختار دنیا ہے۔ اسے یہ نام میں نے نہیں دیا بلکہ اس کو یہ خوبصورت اور شاندار نام عشروں قبل کرنل محمد خان نے دیا تھا۔ میں گزشتہ کئی سال سے ارادہ کئے بیٹھے تھا کہ اگلی بار لندن آیا تو رائل بوٹینیکل گارڈنز المعروف کیو گارڈنز ضرور بالضرور جاؤں گا‘ مگر ہر بار کوئی ایسی افراتفری پڑتی تھی کہ اس کیلئے وقت ہی نہ نکال پایا۔ ویسے بھی اس کیلئے پورا دن درکار تھا جو کسی اور مصروفیت کی نذر ہو جاتا تھا۔ اس بار برسوں پرانی خواہش پایہ تکمیل کو پہنچی اور اس مسافر کی یادوں میں ایک اور حسین یاد کا اضافہ ہوا۔
کئی برس پرانی بات ہے میں مانچسٹر سے لندن بس میں سفر کر رہا تھا اور میری ساتھ والی سیٹ پر ایک پاکستانی نوجوان بیٹھا ہوا تھا۔ یہ قاسم حیات تھا جو اپنی ڈاکٹریٹ مکمل کرکے کسی پروجیکٹ کے سلسلے میں لندن جا رہا تھا۔ اس کی پی ایچ ڈی ہارٹیکلچر سے متعلق تھی۔ سفر میں ہونے والی گفتگو کے دوران باغات اور درخت موضوع ٔسخن رہے۔ جنگل اور درختوں سے بڑی دلچسپی کے باعث قاسم نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں کبھی کیو گارڈنز گیا ہوں؟میں نے اسے بتایا کہ میں نے کیو گارڈنز کا سُن بھی رکھا ہے اور کرنل محمد خان کے حوالے سے اس کے بارے میں تھوڑا بہت پڑھ بھی رکھا ہے مگر بدقسمتی سے ابھی تک اسے دیکھ نہیں پایا۔ قاسم نے اس بوٹینیکل گارڈن کے بارے میں کچھ ایسا نقشہ کھینچا کہ اسی روز ارادہ کیا کہ اگلی بار تو ہر حال میں کیو گارڈنز جاؤں گا مگر ہمارے ارادے بھلا ہمارے بس میں کہاں ہوتے ہیں؟
اس بار میں نے ایک پورا دن کیو گارڈنز کیلئے وقف کر رکھا تھا۔ حالانکہ مجھے علم تھا کہ آج کل چلنے پھرنے میں مشکل کے باعث شاید اس تین سو ایکڑ سے زائد رقبے پر پھیلے ہوئے اس عجوبۂ روز گار باغ کا مکمل لطف نہ لے سکوں مگر پھر سوچا کہ کیا معلوم کہ فی الوقت جو چلنے پھرنے میں مسئلہ در پیش ہے آنے والے دنوں میں کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ جائے‘ لہٰذا اس وقت کو غنیمت سمجھا جائے اور اس کام کو مزید مؤخر کرنے کے بجائے اس بار نمٹا ہی لیا جائے۔ ابھی یہ ارادہ کیا ہی تھا کہ میرے ایمرسن کالج کے زمانے کے دوست اسد مشتاق کا فون آ گیا۔ پوچھنے لگا: کل کا کیا ارادہ ہے؟ میں نے بتایا کہ کل صبح میں کیو گارڈنز جا رہا ہوں۔ اسد مشتاق کہنے لگا: میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گا۔ میں کئی سال سے کیو گارڈنز کو دیکھنے کا مشتاق ہوں۔ حالانکہ مجھے لندن رہتے ہوئے برسوں ہو گئے ہیں اور بارہا ارادہ بھی کیا مگر اس کمبخت شہر میں دیگر مصروفیات نے اس ارادے کو کبھی پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچنے دیا اور ہر بار یہ کام رہ گیا۔ تمہارے طفیل برسوں پرانی یہ خواہش پوری ہو جائے گی۔ اس نے پوچھا: کس وقت جاؤ گے؟ میں نے کہا: لمبا کام ہے صبح ہی شروع کرنا پڑے گا وگرنہ آج کل دن چار بجے ڈھل جاتا ہے اور باقاعدہ شام کا اندھیرا ہو جاتا ہے۔ اس لئے جتنی جلد ممکن ہو ادھر چلا جاؤں گا۔ ہم نے اگلے روز صبح بنک کے انڈر گراؤنڈ ٹرین سٹیشن پر ملنے کا پروگرام بنا لیا۔ صبح وہاں سے رچمنڈ جانے والی ٹرین پکڑی اور کیو گارڈنز کے سٹاپ پر اُتر گئے۔
326ایکڑ پر مشتمل کیو گارڈنز اپنی نوعیت کا دنیا میں سب سے بڑا بوٹینیکل گارڈن ہے۔1759ء میں شروع ہونے والے کیو گارڈنز میں دنیا بھر کے درختوں کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔ یہاں ستائیس ہزار سے زائد اقسام کے درخت ہیں جبکہ تقریباً پچاس لاکھ کے لگ بھگ پودے، جھاڑیاں پھپھوندی اور آبی پودے موجود ہیں۔ اس کی لائبریری میں ساڑھے سات لاکھ جلدوں پر مشتمل دنیا بھر کے نباتات سے متعلق ریکارڈ موجود ہے۔ یہاں ایک لاکھ پچھتر ہزار سے زائد تصاویر کا ذخیرہ ہے۔ یہاں درختوں کی چالیس ہزار انواع (Species)پائی جاتی ہیں۔ 1840ء میں اسے باقاعدہ بوٹینیکل گارڈنز کی شکل دی گئی۔ یہاں چالیس کے لگ بھگ عمارتیں ہیں جن میں دو عدد دیوہیکل شیشے کی عمارتیں ہیں جن میں کنٹرول شدہ موسمی حالات اور درجہ حرارت کے باعث شدہ سرد موسم میں بھی مرطوب آب و ہوا میں پروان چڑھنے والے درخت اپنی بہار دکھاتے ہیں۔ اسی طرح ایک اور زینہ بہ زینہ صورت میں بنے ہوئے گرین ہاؤس میں ایک طرف سخت گرم اور صحرائی علاقے کے کیکٹس کی انگنت اقسام اپنی چھب دکھا رہی ہیں تو اسی جگہ چند قدم آگے مرطوب آب و ہوا میں پانی کی سطح پر تیرتے ہوئے کنول کے پھول اور ان کے گول گول تھال نما پات ایک حیران کن منظر پیش کر رہے تھے۔ ایک جگہ تو ایسا مرطوب موسم تھا کہ عینک کے شیشے دھندلا کر رہ گئے۔
جب میں باغ میں داخل ہوا تو ایسا بچوں جیسا اشتیاق تھا کہ ہر درخت کے پاس جا کر نام پڑھنے کی کوشش کی مگر تھوڑی دیر ہی احساس ہو گیا کہ یہ ایک احمقانہ حرکت کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ بھلا اتنے نام کون یاد رکھے گا‘ اور سچ تو یہ تھا کہ یہ نام یاد رکھنے کا مقام نہیں بلکہ قادرِ مطلق کی تخلیق کردہ خوبصورتیوں سے لطف اندوز ہونے کی جگہ تھی۔ ایسا ایسا درخت اور ایسا ایسا رنگ کہ آنکھیں تھک جائیں مگر نظارہ ختم ہونے میں نہ آئے۔تاحدِ نگاہ پھیلا ہوا میدان جس میں ہر درخت دوسرے سے مختلف۔ چھوٹے چھوٹے قد والے چاروں طرف پھیلے ہوئے درختوں سے لے کر تاحد نظر اونچائی والے درخت۔ کسی کے آخری سرے پر چھتری اور کوئی ایسا درخت کا جڑ سے ہی شاخیں شروع ہو جائیں۔ سرد علاقے سے لیکر مرطوب آب و ہوا اور صحرائی علاقے کے درختوں سے لیکر پہاڑوں پر پروان چڑھنے والے درختوں تک کا ایسا مجموعہ کہ آپ اس مجموعے کو شاید اس جگہ کے علاوہ کسی ایک مقام پر نہ دیکھ پائیں۔
اس باغ کو دیکھتے ہوئے یاد آیا کہ اسی باغ کی طرز پر لاہور میں بھی گوروں نے ایک باغ بنایا تھا جس کا نام لارنس گارڈنز تھا۔ انگریزوں نے پنجاب پر 1849ء میں قبضہ کیا اور اس کے محض تیرہ سال بعد 1862ء میں تب 1721 ایکڑ پر اس بوٹینیکل گارڈن کا قیام عمل میں آیا۔بعد ازاں اس میں سے اٹھائیس ایکڑ رقبہ چڑیا گھر کودے دیا گیا اور باقی 142ایکڑ بچ گئے۔ انگریزوں نے انڈیا میں کیو گارڈنز لندن کی طرز پر دو عدد باغ قائم کئے۔ ایک کلکتہ کا ایڈن گارڈنز اور دوسرا لاہور میں قائم ہونے والا یہ باغ۔ یہ باغ چیف کمشنر و لیفٹیننٹ گورنر پنجاب اور بعد ازاں 1864ء تا 1869ء تک ہندوستان کے وائسرائے جان لائرڈ میئر لارنس کے نام پر رکھا گیا۔ اس میں دو عدد ہال تھے۔1862ء میں بننے والا لارنس ہال بنیادی طور پر روسا کے اکٹھ اور تھیڑ کی پرفارمنس کیلئے تعمیر کیا گیا جبکہ منٹگمری ہال 1868ء میں تعمیر کیا گیا۔1876ء میں اس باغ میں اَسی ہزار درخت، پودے اور مختلف اقسام کی جھاڑیاں تھیں۔ چھ سو مختلف انواع کے درخت تھے جو نہ صرف ہندوستان بھر سے لائے گئے بلکہ یورپ ، مشرق وسطی اور تاج برطانیہ کے زیر انتظام دیگر ممالک سے درختوں کو لا کر اس باغ کی زینت بنایا گیا۔ اس باغ میں درختوں کا ایسی ایسی نایاب اقسام تھیں جو اس خطے میں اور کہیں بھی نہیں تھیں۔ لارنس ہال اور منٹگمری ہال پہلے جمخانہ کلب میں تبدیل ہوئے اور پھر جناح لائبریری کی صورت اختیار کر گئے۔ ہم نے لارنس گارڈن کا نام تبدیل کرکے باغِ جناح کر دیا اور اپنی ذمہ داری پوری کردی۔ کیو گارڈنز ترقی کی جانب اور باغ جناح تنزلی کی طرف گامزن ہے۔
میں نے کیو گارڈنز سے باہر نکل کر اسد مشتاق کو کہا: چلیں برسوں پرانا ارادہ تکمیل پذیر ہوا۔ پھر میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ مار کر کہا: چلو‘ ایہہ یب تے مُکیا۔اسد مشتاق نے زور سے قہقہہ لگایا اور کہا: ہاں جی! ایہہ یب وی مکیا۔ ہم دونوں نے اتنے زور سے قہقہہ لگایا کہ ساتھ چلتے ہوئے گوروں نے حیرانی سے ہمیں دیکھا اور بلاوجہ ہنسنے لگ گئے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں