"KMK" (space) message & send to 7575

پنسلوینیا کی خزاں اور عالم ِکفر کی ذمہ داریاں

جب سے برادرم شوکت فہمی نیویارک سے کوچ کر گیا ہے اب نیویارک جانے کو دل ہی نہیں کرتا۔ ہاں! مشاعرہ وغیرہ ہو تواور بات ہے لیکن اس صورت میں نیویارک جانا بہرحال ایسا نہیں کہ آپ یہ کہیں کہ نیویارک جانے کو دل کیا تھا تو چلا گیا۔ شفیق لاس اینجلس میں ہے تو اُدھر جانے کو دل کرتا ہے۔ یہی حال فلاڈیلفیا کے نواحی شہر ڈاؤننگ ٹاؤن کا ہے جہاں خالد منیر رہتا ہے اور اٹلانٹا کا کیا کہنا جہاں برادرِ بزرگ اعجاز بھائی رہتے ہیں۔ یہ سب وہ دوست ہیں جن کے ساتھ پرانا تعلق ہے لیکن سب سے بڑھ کر سپین کے ہزاروں سال پرانے شہر کا ہم نام ایک شہر ادھر بھی ہے جس کا نام ٹولیڈو ہے اور یہاں دو بچے تھے جن میں میری جان پھنسی ہوتی تھی‘ اب یہ دو سے بڑھ کر تین ہو گئے ہیں۔ سیفان‘ ضوریز اور ایمان۔ اب سب سے زیادہ توجہ جس بچے نے کھینچ رکھی ہے وہ ایمان ہے۔ میرے اپنے بچوں کا کہنا ہے کہ یہ شاید اس لئے ہے کہ میری اور ایمان کی تاریخ پیدائش ایک ہے۔
اس بار بڑے عرصے کے بعد نیویارک کے جان ایف کینیڈی ایئرپورٹ پر اترا۔ خالد منیر کے پاس جانا مقصود تھا۔ فلاڈیلفیا کی ٹکٹ بہت مہنگی مل رہی تھی لہٰذا نیویارک اترنا ترجیح نہیں‘ مجبوری تھی۔ خالد منیر ڈاؤننگ ٹاؤن سے لینے آیا ہوا تھا۔ خالد منیر خود تو مجھ سے محبت کرتا ہی ہے اس کی اہلیہ بھی میرا ایسا خیال رکھتی ہے کہ لگتا ہے ایک بیٹی ادھر بھی موجود ہے جو نہایت ہی خوش دلی سے مہمانداری کرتی ہے۔ مہینوں تک لگاتار صبح نمکین لسی کے دو گلاس سے ناشتہ کرنے کا عادی یہ مسافر دورانِ سفر اپنی اس روٹین سے تھوڑا ہٹ کر ناشتہ کرتا ہے۔ ڈاؤننگ ٹاؤن میں صبح ناشتے کی میز پر گوبھی والے پراٹھے اور دہی موجود تھا۔ بڑے دنوں بعد ایسی بے اعتدالی کی کہ مزے کے ساتھ ساتھ اس بات پر غصہ بھی آیا کہ بندے کو اس قدر ''چسکورا‘‘ بھی نہیں ہونا چاہئے۔ میٹھے دہی کے ساتھ گوبھی والا پراٹھا کھاتے ہوئے ایلن ٹاؤن میں گوجرانوالہ کے روایتی کھانے عین ایسی ذائقے کے ساتھ عزیزم علی افضل کے ہاں ملتے ہیں لیکن یہ محض اتفاق تھا کہ جب میں اس طرف آیا تو علی افضل خود گوجرانوالہ میں تھا۔ اُن کی بیگم کے ہاتھ میں ایسا ذائقہ ہے کہ بندہ کھانے بیٹھے تو اس کاپیٹ تو بھر جائے مگر کم بخت نیت نہ بھرے تو حیرانی نہیں ہوگی۔
پنسلوانیا میں بھی خزاں ہے‘ امریکہ میں اس مسافر کو آوارہ گردی کرتے ہوئے اب لگ بھگ دو عشرے ہونے کو ہیں اور اس دوران مالکِ کائنات کی پیدا کردہ بے شمار رنگینیوں اور خوبصورتیوں سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا ہے۔ قدرتی حسن اور زمینی منظر نامے کے حوالے سے پنسلوینیا شاید امریکہ کی سب سے خوبصورت ریاست ہے۔ سبزہ‘ درخت‘ ندی نالے‘ پہاڑیاں اور مسلسل تبدیل ہوتا ہوا منظر نامہ‘ رات کو گھروں کے صحن میں مزے گھومتے ہوئے وائٹ ٹیل ہرن‘ پنسلوینیا کا تو مطلب ہی ہے کہPenn,s Woods یعنی ''پن کے جنگل‘‘۔ یہ پن دراصل لارڈ ولیم پن کے نام پر ہے جو کبھی اس پوری ریاست کے علاوہ پنسلوینیا سے متصل ایک اور چھوٹی سی ریاست ڈیلاویئر کا بھی مالک تھا۔ تقریباً ساڑھے اڑتالیس ہزار مربع میل سے زائد زمین کا مالک یہ نواب (لارڈ) آخری عمر میں دیوالیہ ہو کر اس دنیا سے رخصت ہوا۔ تاہم اس کی جاگیر آج ایک پوری امریکی ریاست ہے اور اسی کے نام سے مشہور ہے۔
درخت ہوں اور بے شمار ہوں‘ گنتی میں بھی اور اقسام میں بھی تو پھر اس ایسی خزاں کو لفظوں میں کس طرح بیان کیا جا سکتا ہے؟ ادھر پنسلوینیا میں یہی حال ہے۔ ہر سائز کے درخت ہیں چھوٹی سی جھاڑی سے لیکر آسمان سے باتیں کرتے ہوئے۔ اقسام اتنی کہ کم از کم میرے جیسا علم نباتات سے عاری مسافر جسے صرف درختوں سے دلچسپی ہے اور وہ ان کی اقسام کا نہ تو علم رکھتا ہے اور نہ ہی اسے کبھی اس کی ضرورت محسوس ہوئی ہے کہ اس مسافر کا کام درختوں سے من کو راضی کرنا ہے نہ کہ ان کی تحقیق کے چکر میں اپنا لطف خراب کرنا ہے۔ رنگ تو ادھر ایسے ہیں کہ برطانیہ میں خزاں کے نظارے ادھر آکر اپنی اہمیت کھو گئے ہیں۔ پنسلوینیا میں درختوں پر اترنے والی خزاں کے سامنے برطانیہ کی خزاں بالکل ہی ماند پڑ گئی ہے۔ گو کہ بیشتر درخت بالکل ہی ٹنڈ منڈ ہو چکے ہیں مگر جن پر ابھی پات باقی ہیں وہ بھی اسے قدر ہیں کہ منظر نامے کو رنگین کئے ہوئے ہیں۔ ایسے گہرے سبز رنگ کے درخت کہ دور سے سیاہی مائل کا شبہ ہوتا ہے۔ پھر قدرے کم گہرے‘ پھر سبز اور ایسے سبز کہ جیسے ہریل طوطا ہو۔ پیلے‘ نارنجی‘ بھورے‘ نسواری‘ عنابی‘ کاسنی‘ جامنی اور آگ برساتے ہوئے سرخ رنگ کے درخت۔ خالد منیر کے گھر سے سو گز کے فاصلے پر دو چھوٹے چھوٹے سرخ پتوں والے درختوں نے ایسا جادو کیا کہ گاڑی رکوالی۔ اس جگہ سڑک پر گاڑی کھڑی کرنا منع تھا۔ خالد کو کہا کہ کہیں دور جا کر گاڑی پارک کرے میں ان درختوں کی تصویر لے کر آ جاؤں گا۔ ان سرخ پتوں والے دو درختوں نے ایسا سحر کیا کہ میں اپنی بے چینی پر خود متعجب ہو کر رہ گیا۔
میں عموماً اپنے کالم پر قارئین سے تبصرے اور رائے کے بارے میں جواب در جواب کا قائل نہیں ہوں تاہم بعض اوقات اس سلسلے میں اپنے اس اصول سے انحراف کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا۔ گزشتہ کالم میں سائیکل رکشے سے متعلق شرفِ انسانی کی تذلیل اور انسانی حقوق کے بارے میں میرا ایک نقطہ نظر ہے اور وہ یہ کہ جب تک سرکار غریب آدمی کی ضروری حاجات پوری نہیں کرتی اس کو غریب آدمی کو روٹی کمانے سے روکنے کے لیے نام نہاد نمبر ٹانکنے والے قوانین بنانے کا کوئی حق نہیں۔ انسانی حقوق سے کہیں زیادہ اہم چیز انسانی زندگی ہے اور جسم و جان کا رشتہ قائم رکھنے کیلئے کی جانے والی انسانی مشقت اور مزدوری خواہ انسانی حقوق کے کتنے ہی خلاف کیوں نہ ہو اسے بند کرکے لوگوں کو فاقوں اور خود کشیوں کے سپرد کرنے سے کہیں بہتر ہے۔
دوسری بات یہ کہ چند قارئین کا کہنا تھا کہ لندن کی پیڈی کیب کیونکہ سیاحوں اور لندن کی سیر کرنے والوں کیلئے استعمال ہوتی ہے اس لئے اگر اس کو چلانے والا انسانوں کو کھینچے تو اس سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی بھی نہیں ہوتی اور شرف انسانی بھی پامال بھی نہیں ہوتا جبکہ بہاولپور اور ڈیرہ اسماعیل خان میں سائیکل رکشا چلانے والا اگر روزگار کی خاطر پیچھے بیٹھے ہوئی دو سواریوں کیلئے سائیکل رکشا کھینچتا ہے تو اس سے اس کے انسانی حقوق اور شرف انسانی دونوں متاثر ہوتے ہیں۔یعنی اگر وہ مالدار لوگوں کی دل پشوری اور سرمایہ دار سیاحوں کی سرخوشی کیلئے سائیکل رکشا کھینچے تو وہ جائز ہے اور اگر بہاولپور کا ضرورت مند اور ڈیرہ اسماعیل خان کا محنت کش اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کیلئے سائیکل رکشا کھینچے تو اس کے انسانی حقوق متاثر ہوتے ہیں۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ بندے کے پیٹ میں روٹی‘ اس کے بچوں کے پاس سکول جانے کی استطاعت اور اس کے سر پر مناسب چھت نہ ہو تو انسانی حقوق کا واویلا مچانے اور اس کو نام نہاد شرف انسانی سے سرفراز کرنے سے پہلے اس کی بنیادی ضروریات زندگی کا بندوبست کرنا چاہئے۔ ہاں! یہ ضرور ہے کہ اس بے ڈھنگے اور غیر مناسب ڈیزائن کے سائیکل رکشا کو جدید تقاضوں اور ڈیزائن کے مطابق بنا کر اسے چلانے میں آسان ضرور بنایا جا سکتا تھا لیکن ہمارے ہاں ایسے کام فضولیات کے زمرے میں آتے ہیں اور ان کی ذمہ داری ہم نے عالم کفر کے انجینئروں اور سائنسدانوں پر ڈال رکھی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں