"KMK" (space) message & send to 7575

34نمبر کی بنیان اور انور مسعود کی نظم

ممکن ہے میرا خیال غلط ہی ہو‘ تاہم میرا خیال ہے کہ پاکستانی تارکینِ وطن کو مستقل رہنے کے لیے شاید امریکی ریاست ٹیکساس سب سے زیادہ پسند ہے۔ ممکن ہے اس کی وجہ موسم ہو‘ جو پاکستان کے عمومی موسم کے قریب تر ہے۔ گرمیوں میں گرم (تاہم یہ گرمی ملتان جیسی بہرحال نہیں ہے) اور سردیوں میں قابلِ برداشت سرد۔ ہیوسٹن نیویارک‘ شکاگو اور لاس اینجلس کے بعد امریکہ کا آبادی کے لحاظ سے چوتھا بڑا شہر ہے اور یہاں نیو یارک کے بعد سب سے زیادہ پاکستانی رہتے ہیں۔ اس بار مسافر جب دو دن کے لیے اس شہر میں آیا ہے تو یادوں کے کئی دریچے وا ہو گئے ہیں۔
میرے اس شہر میں کئی دوست ہیں‘ جن سے میں ملتا بھی ہوں اور وقت بھی گزارتا ہوں لیکن میں گزشتہ کئی سال سے اس شہر میں ایک شخص کو ملنے کا شدید متمنی ہوں مگر ہر بار ایسا ہوتا ہے کہ یہ خواہش پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچ پاتی۔ کئی لوگوں سے خواہش کے باوجود نہ مل پانے کے بعد یہ مسافر اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ ملاقات شاید تب تک ممکن ہی نہیں ہوتی جب تک اُس ذاتِ باری تعالیٰ کا اذن نہ ہو اور شاید ابھی اس ملاقات کا اذن نہیں ہوا۔ میں کئی سال سے باسکٹ بال کے لیجنڈ کھلاڑی حکیم اولا جو آن کو ملنے کی سعی کر چکا ہوں مگر ابھی تک تو اس میں کامیابی نہیں ہو سکی‘ تاہم اس مسافر کی اس سلسلے میں امید پوری شد و مد کے ساتھ برقرار ہے۔
حکیم اولا جوآن عرف حکیم دی ڈریم ہیوسٹن راکٹس کا وہ کھلاڑی تھا جس کی قیادت میں ہیوسٹن راکٹس بلکہ یوں کہیں کہ ہیوسٹن کی باسکٹ بال ٹیم نے پہلی بار امریکی نیشنل باسکٹ بال ایسوسی ایشن المعروف این بی اے چمپئن شپ جیتی۔ باسکٹ بال امریکیوں کے پسندیدہ اور مقبول ترین کھیلوں میں شمار ہوتا ہے اور محض دیکھنے کی حد تک یہ مسافر بھی باسکٹ بال کو پسند کرتا ہے لیکن حکیم سے ملنے کی خواہش محض اس کھیل کے شائق ہونے کی وجہ سے ہرگز نہیں ہے‘ ملنے کی یہ خواہش بالکل انہی وجوہات کی وجہ سے ہے جن کے باعث امریکیوں نے باسکٹ بال کے اس عظیم کھلاڑی کو ''حکیم دی ڈریم‘‘ جیسا افسانوی نام دے رکھا ہے۔ وہ محض باسکٹ بال کے کورٹ میں ہی ایک عظیم کھلاڑی نہیں بلکہ وہ بطور انسان اور اپنے اعلیٰ اخلاق اور اصولوں کی بنیاد پر باسکٹ بال کے کورٹ سے باہر بھی لوگوں کا ہیرو ہے۔
میں حکیم پر ایک نہایت تفصیلی کالم لکھ چکا ہوں تاہم میں یہ بھی جانتا ہوں کہ حکیم اولا جوآن کی بطور کھلاڑی کامیابیوں‘ صلاحیتوں اور ریکارڈز کا تذکرہ کرنے کے لیے ایک کالم تو انتہائی ناکافی سے بھی کم ہے‘ تاہم اپنے قارئین کو اختصار کے ساتھ صرف یہ بتاتا چلوں کہ باسکٹ بال کے کھلاڑیوں کے لیے بنائی گئی‘ گریٹسٹ آف آل ٹائمز (GOATS) میں حکیم باسکٹ بال کی تاریخ کا گیارہویں نمبر کا عظیم ترین کھلاڑی تصور کیا جاتا ہے۔ وہ مائیکل جورڈن‘ جو اس فہرست میں پہلے نمبر پر ہے‘ کے علاوہ ایک اور کھلاڑی کے ساتھ باسکٹ بال کی تاریخ کا تیسرا کھلاڑی ہے جس نے این بی اے کے ایک سیزن میں باسکٹ بال لیگ کے موسٹ ویلیو ایبل پلیئر (MVP) اور بہترین دفاعی کھلاڑی کا اعزاز بیک وقت حاصل کیا۔ وہ نوے کی دہائی میں دوسرا مشہور اور مقبول ترین کھلاڑی تھا لیکن آؤٹ آف کورٹ اپنی پسندیدگی کے حوالے سے شاید پہلے نمبر پر تھا۔ اس کی بطور ایک اصول پسند اور انسان دوست شخص کے حوالے سے صرف ایک بات بتانا چاہوں گا کہ اس نے اپنے کیریئر کے عروج کے دنوں میں دنیا بھر کی سپورٹس کی مصنوعات بنانے والی مشہور‘ مہنگی اور برانڈڈ کمپنیوں کے بے انتہا اصرار اور خواہش کے باوجود ان کی مصنوعات کی اشتہاری مہم میں بطور ماڈل کھلاڑی کبھی شمولیت اختیار نہیں کی۔
مغرب میں کسی کھلاڑی کی آمدنی میں اس کی ٹیم کی طرف سے ملنے والا معاوضہ اور انعامات کی رقم شامل ہوتی ہے‘ تاہم ان کے علاوہ مختلف مضوعات کی اشتہاری مہم کا حصہ بن کر جو رقم وہ کماتا ہے‘ وہ بھی اتنی ہوتی ہے کہ بندہ سنے تو اس کی آنکھیں حیرانی سے پھٹ جائیں تاہم حکیم نے مشہور برانڈز کے جوتوں مثلاً نائیکی‘ ایڈی ڈاس اور ری بوک وغیرہ کے اشتہار میں کام کرنے سے انکار کردیا۔ اس کا مؤقف تھا کہ ان مہنگے جوتوں کے اشتہار میں جب مشہور کھلاڑی ان کی تعارفی مہم چلاتے ہیں تو وہ ان قیمتی جوتوں کے لیے عام بچوں کے دل میں تحریص اور ترغیب پیدا کرتے ہیں۔ جو بچے ان قیمتی جوتوں کو خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے‘ وہ اس اشتہاری ترغیب سے متاثر ہو کر یا تو احساسِ محرومی کا شکار ہو جاتے ہیں یا پھر اس ترغیب کے زیر اثر چوری تک کے مرحلے تک پہنچ جاتے ہیں۔ اس لیے اس نے فیصلہ کیا کہ مہنگے جوتوں اور دوسری متعلقہ مصنوعات کی اشتہاری مہم کا حصہ بن کر اس نے پیسے نہیں کمانے۔ اس نے اپنے کیریئر کے عروج کے دنوں میں سو‘ ڈیڑھ سو ڈالر کی قیمت سے شروع ہونے والے جوتوں کی اشتہاری مہم چلانے کے بجائے پچیس تیس ڈالر کی قیمت والے جوتوں کے اشتہاروں میں کام کیا۔ ظاہر ہے اسے اسی نسبت سے کم ادائیگی کی گئی مگر وہ اپنے اصولوں پر قائم رہا۔
ریٹائرمنٹ کے بعد اس نے پراپرٹی کا کام شروع کردیا تاہم اس نے اپنا سارا کاروبار غیر سودی بنیادوں پر چلایا۔ اس نے اپنی باسکٹ بال سے کمائی ہوئی دولت سے ہیوسٹن شہر کے مرکز میں ہیوسٹن کے ایک بینک کی مرکزی عمارت خرید کر اس میں ایک شاندار مسجد تعمیر کروا دی۔ اس مسجد میں قرآن و حدیث کی تعلیم کے لیے ایک شاندار مدرسہ ہے جس میں الازھر جیسے ادارے سے اساتذہ آتے ہیں۔ اس مسجد کی تعمیر کے علاوہ حکیم آج بھی اس کے خرچ کا بیشتر حصہ اپنی جیب سے ادا کرتا ہے۔ اگر حکیم ہیوسٹن میں ہو تو وہ اسی مسجد میں نمازِ جمعہ کی ادائیگی کا اہتمام کرتا ہے۔
ہوسٹن راکٹس کے این بی اے چمپئن شپ میں پہلی بار چمپئن بننے میں حکیم کے مرکزی کردار کے باعث ہیوسٹن راکٹس کے سٹیڈیم کے باہر اس کا مجسمہ لگانے کا فیصلہ ہوا مگر حکیم کے انکار کے باعث اس جگہ اس کی بنیان جس کا نمبر 34 تھا‘ نصب کر دی گئی۔ حکیم کی ریٹائرمنٹ کے بعد ہیوسٹن راکٹس کی انتظامیہ نے آئندہ کے لیے حکیم کا 34نمبر بھی ہمیشہ کے لیے ریٹائر کر دیا۔ اب یہ نمبر ہیوسٹن راکٹس کے کسی کھلاڑی کو نہیں دیا جائے گا۔ چند برس قبل ہیوسٹن راکٹس کے سٹیڈیم کے باہر سے گزرتے ہوئے میں نے انور مسعود صاحب کی توجہ اس دیوہیکل بنیان‘ جس پر 34 نمبر لکھا ہوا تھا‘ مبذول کروائی اور ہمراہیوں کو بتایا کہ یہی وہ بنیان ہے جس پر انور صاحب نے اپنی شہرہ آفاق نظم ''بنین‘‘ لکھی ہے۔ جو پہنو تو پہنی ہی نہیں جاتی۔ سب نے ایک زور دار قہقہہ لگایا۔
میں حکیم سے ملاقات کی غرض سے دو بار اس مسجد میں نمازِ جمعہ ادا کر چکا ہوں مگر ہر بار یوں ہوا کہ حکیم ہیوسٹن میں موجود نہ تھا۔ اس بار کوشش کے باوجود میں جمعہ والے دن ہیوسٹن نہ پہنچ سکا اور یوں حکیم سے ملنے کی میری خواہش دل میں ہی رہ گئی۔ مسافر اس پر افسردہ ضرور ہے مگر مایوس ہرگز نہیں۔ پاؤں میں چکر اور دل میں لگن ہو تو بھلا پھر مایوسی کیسی؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں