"KMK" (space) message & send to 7575

جس کی کمر پر انگلی رکھو وہی سردار ہے…(1)

صورتِ حال یہ ہے کہ ہر چوتھے روز کسی نہ کسی سیاسی پارٹی کے تنخواہ دار یا رضا کار کی دشنام طرازی سے پالا پڑتا ہے۔ جب کبھی عمران خان کی بری گورننس‘ عثمان بزدار کی تعیناتی‘ ہیرے جیسے مشیروں کے انتخاب اور ہر بات سے یوٹرن لینے کی صلاحیت کے بارے میں کچھ لکھ دیں اس روز عمران خان کے محبتی میری ای میل پر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں اور بدکلامی پر اپنی دسترس اور فرہنگِ دشنام طرازی پر اپنے عبور کا ثبوت دیتے ہیں۔ دوسری طرف اگر یہ عاجز صرف اتنا لکھ دے کہ درج بالاعام تر خرابیوں کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ عمران خان بہرحال اب بھی سب سے زیادہ پاپولر لیڈر ہے تو میاں نوازشریف کی محبت کے حلقۂ پٹوار میں مقیم افراد اپنی بد کلامی اور بد گوئی کے ناقابلِ تردید ثبوت لے کر حاضر ہو جاتے ہیں۔ یہ عاجز ایک عرصہ سے دو طرفہ توپوں کی زد میں ہے۔
ہمارا دین تحمل‘ بردباری اور اعتدال کی تلقین کرتا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ ساری قوم کو اعتدال سے شدید دشمنی ہے۔ بردباری سے خدا واسطے کا بیر ہے اور تحمل نامی شے ہماری ہاں عنقا ہے۔ سیاسی حد بندی کی صورتحال یہ ہے کہ یا آپ میرے لیڈر کے غیر مشروط مقلد ہیں یا آپ میرے مخالف کیمپ کے ٹاؤٹ ہیں۔ اگر آپ کسی ایک لیڈر کے سیاسی غلام زادے نہیں تو پھرآپ راندۂ درگاہ ہیں۔ اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہر بندے کا لیڈر معصوم عن الخطا ہے اور ہر قسم کے گناہوں سے معریٰ اور خرابیوں سے پاک ہے۔ اس سے نہ کبھی کسی قسم کی غلطی ہوئی ہے اور نہ ہی آئندہ اس کے وقوع پذیر ہونے کا امکان ہے۔ اس کی کسی بات پر تنقید‘ اس کی کسی غلطی کی نشاندہی اور اس کے فیصلے سے اختلاف ناقابلِ معافی اور ناقابلِ در گزر جُرم ہے۔ یہ حال کسی ایک لیڈر کے سیاسی مریدوں کا نہیں بلکہ اس فہرست میں تقریباً ہر سیاسی لیڈر کے مقلد ین شامل ہیں۔
انسان خطاؤں کا پُتلا بھی ہے اور خوبیوں کا مجموعہ بھی۔ ہم عام لوگ ہیں اور غلطیاں ہماری سرشت میں شامل ہیں۔ لیکن سیاسی لیڈروں کی اندھی تقلید اور غیر مشروط اطاعت کے مارے ہوئے ان کے مریدوں نے ان کو عام انسان کے درجے سے اٹھا کر دیوتا کے درجے پر فائز کردیا ہے اور معاملہ لیڈر اور ورکر سے ہٹ کر اب مرشد اور مرید تک پہنچ گیا ہے جہاں مرجع خلائق ہے اور ہمہ قسم کی کمی، کوتاہی اور خرابی سے پاک ہے۔ وہ ایسا انسان ہے جس پر انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی۔ اس پر انگلی اٹھانا‘ اس کی غلطی کی نشاندہی کرنا اور اس کی بات سے اختلاف کرنا قابلِ گردن نہ بھی سہی‘ تو کم از کم اس سزا کا حقدار تو ضرور ہے کہ اسے جی بھر کر برا بھلا کہا جائے‘ اسے گالیاں دی جائیں اور اسے برے برے القابات سے نوازا جائے۔ اس عاجز کو اپنے کالموں کے طفیل اپنی ایسی ایسی خرابیوں‘ غلطیوں اور برائیوں کا علم ہوا ہے جو نہ صرف اس فقیر میں موجود ہی نہ تھیں بلکہ ان کے بارے میں کبھی خیال بھی نہ آیا تھا‘ مگر داد دینی پڑتی ہے ان سیاسی غلام زادوں کی جن کو اپنے لیڈروں میں تو کوئی خرابی دکھائی نہیں دیتی ‘لیکن اپنے لیڈر کی شان میں گستاخی کے مرتکب لوگوں میں ایسی ایسی برائیاں دکھائی دیتی ہیں جو اُن میں واقعتاً موجود نہ تھیں۔ اللہ تعالیٰ میرے پردے رکھے۔ میں یقینا ایک گناہ گار اور خطا کار انسان ہوں۔ مجھ میں بے شمار خرابیاں اور برائیاں ہیں جن سے بچنے کی میں کوشش بھی کرتا ہوں اور اپنے مالک سے ان برائیوں اور خرابیوں سے نجات کی دعا بھی مانگتا ہوں مگر اپنے ان قارئین کے طفیل جو اپنے اپنے سیاسی لیڈر کے اندھے عشق میں مبتلا ہیں‘ اپنے بارے میں ایسے ایسے انکشافات سے آگاہ ہوتا ہوں کہ حیرانی ہوتی ہے۔
یقین کریں اب ایسے پیغامات پڑھ کر غصہ نہیں بلکہ افسوس ہوتا ہے کہ قوم کی ذہنی حالت کس درجے پر پہنچ چکی ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ ملک معاشی طور پر برباد ہو چکا ہے جبکہ سارے کے سارے لیڈر خوشحال سے بڑھ کر کہیں بلند مرتبے پر فائز ہیں۔ ملک کرپشن کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے اور اداروں کی حالت دیکھیں تو شرم آتی ہے۔ عدلیہ کی عالمی درجہ بندی میں کسمپرسی کو دیکھیں تو ملال ہوتا ہے۔ بیورو کریسی کی حالت اور حرکات دیکھیں تو شرم آتی ہے۔ غیر سیاسی اداروں کی سیاست میں دخل اندازی اور زور زبردستی کی طرف نظر دوڑائیں تو دل ڈوب جاتا ہے۔ لیکن حال یہ ہے کہ ہر شخص پاک صاف ہے۔ ہر ادارہ نیکو کار ہے۔ ہر لیڈر بے گناہ ہے اور ہر سیاسی پارٹی اس ملک کی واحد نجات دہندہ ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو پھر خرابی کہاں ہے؟ اس ملک کی بربادی کا سبب کون ہے؟ اور روز بہ روز نیچے کی طرف جاتے اس معاشرے کے زوال کا باعث کون ہے؟
کیا یہ سوال ناجائز ہے کہ کل تک عدلیہ کی طرف سے سزا یافتہ سابقہ وزیراعظم آخر اس طرح شتابی سے ہر کیس میں بری کیسے ہو رہا ہے؟ اگر اسے پہلے ایک طویل قانونی طریقہ کار کو بروئے کار لاتے ہوئے سزائیں سنائی گئیں تو اس سارے عمل کے دوران قانون کہاں سویا ہوا تھا؟ اگر سزائیں درست تھیں تو اب اچانک ان سب میں یکے بعد دیگرے بریت کی قطار کیسے لگ گئی ہے اور اگر سزائیں غلط تھیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں عدل و انصاف کی کیا حیثیت رہ گئی ہے۔ جہاں عدل و انصاف کا معیار یہ ہو کہ اعلیٰ ترین عدالتیں ایک شخص کو سزائیں سنا رہی ہوں۔ اسے نااہل کر رہی ہوں اور پھر وہی اعلیٰ عدالتیں اسی شخص کو انہی کیسز میں دھڑا دھڑ بری کر رہی ہوں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ عدلیہ کی کارکردگی اور کریڈیبلٹی کو کس نظر سے دیکھا جائے؟
اگر یہ سوال کیا جائے کہ ایون فیلڈ والے اپارٹمنٹس کی منی ٹریل کہاں ہے تو بھلا یہ سوال کرنے سے بندہ یوتھیا کیسے ہو جاتا ہے؟ سادہ سا سوال ہے کہ ان اپارٹمنٹس کا مالک کون ہے؟ اس کی خرید کیلئے رقم کہاں سے آئی؟ کیا خرید میں صرف ہونے والی دولت کسی انکم ٹیکس ریٹرن میں دکھائی دیتی ہے؟ کیا اس دولت پر انکم ٹیکس ادا کیا گیا؟ یہ دولت پاکستان سے باہر کیسے گئی؟ کیا یہ رقم کسی باقاعدہ چینل سے باہر گئی یعنی بینک وغیرہ کے ذریعے ٹرانسفر ہوئی؟ اگر نہیں تو کیا یہ ہنڈی حوالے کے ذریعے یعنی ناجائز طریقے سے باہر بھیجی گئی؟ قطری خط کی کیا حیثیت ہے؟ جن ذرائع آمدنی کے بارے میں اسمبلی میں کاغذ لہرائے گئے اور بیان دیے گئے وہ سچ تھے یا جھوٹ پر مبنی تھے؟ جب میاں نوازشریف کے بیٹے ملک سے باہر گئے تھے تو ان کی عمریں کیا تھیں اور ان کا ذریعۂ آمدن کیا تھا؟ میاں صاحب کے برخورداروں کا وہاں کاروبار کیا تھا؟ اس کاروبار کے لیے ابتدائی سرمایہ کہاں سے آیا تھا؟ کیلیبری فونٹ کا کیا چکر ہے اور آف شور کمپنیوں کے بینی فشری کون ہیں؟
لیکن نہیں! آپ اس قسم کے سوالات نہیں کر سکتے۔ اگر اس قسم کے سوالات کریں گے توآپ پر دشنام طرازی کی گولہ باری اور کردار کشی کی سنگ باری شروع ہو جائے گی۔ لیکن یہ کسی ایک پر ہی منحصر نہیں۔
بچھوؤں کی ایک قطار جا رہی تھی۔ کسی نے پوچھا آپ کا سردار کون ہے۔ آواز آئی جس کی کمر پر انگلی رکھو وہی سردار ہے (یعنی وہی ڈنگ مار کر اپنے سردار ہونے کا ثبوت دے گا) ادھر بھی یہی حال ہے کہ جس کی کمر پر انگلی رکھو وہی سردار ہے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں