"KMK" (space) message & send to 7575

ٹیڈ وِلیم ٹنل سے نشتر ٹُو تک

اگر مسافر کے دل میں حسرت‘ آنکھ میں حیرت‘ طبیعت میں تجسس اور شخصیت میں بچپنا باقی نہ ہو تو سفر محض مشقت اور فاصلہ طے کرنے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔ اس مسافر پر اللہ کا خاص کرم ہے کہ نہ صرف یہ کہ اس کے دل میں حسرت‘ آنکھ میں حیرت اور طبیعت میں تجسس ہے بلکہ بچپنا تو اس مالک نے وافر عطا کر رکھا ہے۔ اگر یہ مسافر سرکاری ملازم ہوتا تو کئی سال قبل ریٹائر ہو چکا ہوتا مگر حال یہ ہے کہ دل میں جمع شدہ خواہشات کی پوٹلی کھولوں تو اس میں کار‘ کوٹھی‘ بنگلے وغیرہ جیسی خواہشات کے بجائے سپین کے شہر پامپلونا میں گلیوں میں دوڑتے ہوئے وحشی بیلوں کے آگے بھاگنے کی خواہش تر و تازہ ملے گی۔ گھٹنوں کے صاف جواب دے دینے کے باوجود پیرو کے پہاڑ کے اوپر اِنکا تہذیب کے جناتی شہر ماچو پیچو کو دیکھنے کی حسرت ملے گی۔ لوئی ویل میں محمد علی کی قبر پر فاتحہ پڑھنے کی لگن ملے گی۔ ہیوسٹن میں حکیم اولا جوآن کے ساتھ نمازِ جمعہ کی ادائیگی کی تڑپ ہو گی۔ کریم عبدالجبار کو تلاش کرکے اس سے ملنا بھی اسی پوٹلی کے اندر نہاں ملے گا اور رہوڈ آئی لینڈ کے شہر پراویڈنس کے ریٹائرڈ میونسپل چیف جج فرینک کیپریو سے ملنے کی خواہش۔
جب آپ کے دل میں اس قسم کی خواہشات نے ڈیرہ لگایا ہو تو آپ جان جائیں کہ آپ کے اندر کا بچہ پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ بھلا عمر کے اس حصے میں اس قسم کی خواہشات بچپنے کے علاوہ اور کیا ہیں؟ لیکن مسافر اس بات پر رَتی برابر بھی شرمندہ نہیں کہ اس کا دل ایسی اور بہت سی بے معنی خواہشات سے لبریز ہے۔ اور پُر امید ہے کہ اس دنیا سے رخصت ہونے سے قبل ان شاء اللہ ان میں سے بہت سی خواہشات کو ضرور پورا کر لے گا۔
امریکہ روانہ ہونے سے پہلے میں اور اسد لندن کے کیمڈن ٹاؤن میں ایک مشہور فش اینڈ چپس پر سرِشام کھانا کھانے کے بعد بازار کے ساتھ بہنے والی نہر کے پل پر کھڑے نیچے سے گزرنے والے بجروں کو دیکھتے ہوئے آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ اسد نے پوچھا کہ میں امریکہ میں کہاں کہاں جاؤں گا؟ میں نے اسے بتایا کہ پہلے تو میں خالد منیر کے پاس جاؤں گا پھر وہاں سے تمہاری بہن کے پاس چلا چاؤں گا۔ پھر وہاں سے کہاں جاؤں گا یہ ابھی طے نہیں‘ تاہم اٹلانٹا تمہارے انکل اعجاز کے پاس جانا ہے اور ہیوسٹن کا چکر لگانا ہے۔ اور ہاں! رہوڈ آئی لینڈ جانا ہے۔ اسد پوچھنے لگا کہ میں رہوڈ آئی لینڈ کے کس شہر میں جاؤں گا۔ میں نے کہا کہ میں پراویڈنس جاؤں گا۔ اسد کہنے لگا کہ اگر پراویڈنس جائیں تو ایک کام ضرور کیجئے گا۔ میں نے کہا کہ جو بات تم نے بتانی ہے وہ میرے دل میں ہے۔ اسد پوچھنے لگا کہ بھلا میں آپ کو کیا کہنے والا ہوں؟ میں نے کہا :تم کہو گے کہ وہاں جاؤں تو فرینک کیپریو کو ضرور ملوں۔ وہ ہنس پڑا اور بولا: بھلا آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ میں کیا کہنے والا ہوں؟ میں نے کہا کہ میرے اندر کا بچہ تو تم سے بھی تھوڑا چھوٹا ہے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنا چھوٹا بچہ پراویڈنس جائے اور فرینک کیپریو سے نہ ملے۔ پھر اسد نے مجھے تاکید کی کہ میں اسے ضرور ملوں اور جب ملوں تو اسے بتاؤں کہ اسد نے بھی مجھے اس سے ملنے کیلئے کہا تھا۔
فرنیک کیپریو کو دنیا کے سب سے مہربان اور رحم دل جج ہونے کا خطاب مل چکا ہے۔ وہ 38سال تک پراویڈنس کا میونسپل جج اور چیف جج رہنے کے بعد اسی سال جنوری میں ریٹائر ہوا ہے۔ یوٹیوب پر اس کی عدالتی کارروائی کی لاتعداد وڈیوز موجود ہیں۔ اب بھلا آپ بتائیں کہ اس عمر میں ایسے بندے کو ملنے کی خواہش بھلا حیرت‘ حسرت‘ تجسس اور بچپنے کے علاوہ اور کیا ہے؟ مسافر صرف خوش ہی نہیں بلکہ اپنے مالک کا شکر گزار ہے کہ اس نے اس دل کو ایسی خواہشات سے معمور کر رکھا ہے۔ بھلا اس افراتفری اور نفسا نفسی کے دور میں یہ غنیمت کے علاوہ اور کیا ہے؟
رہوڈ آئی لینڈ روانہ ہونے سے قبل میں نے الیاس چوہدری کو کہا کہ اس نے میری آمد سے قبل میری فرینک کیپریو سے ملاقات کا بندوبست کرکے رکھنا ہے۔ الیاس چوہدری نے وعدہ کر لیا اور میں نے ہفتے والے دن کے لیے اپنی فلائٹ بک کروالی۔ الیاس چوہدری نے مجھے بوسٹن ایئر پورٹ سے لیا اور ہم پراویڈنس کے لیے روانہ ہو گئے۔ راستے میں سمندر کے نیچے سے گزرنے والی سرنگ سے گزرنا پڑتا ہے۔ تقریباً ڈھائی کلو میٹر لمبی اس سرنگ کا نام ٹیڈوِلیم ٹنل ہے۔ ٹیڈوِلیم نہ تو امریکی سینیٹر ہے اور نہ ہی کوئی کانگرس مین ہے۔ یہ امریکی ریاست میسا چیوسٹس کی بیس بال ٹیم بوسٹن ریڈ ساکس کا کھلاڑی تھا۔ سٹی کونسل نے بیس بال کے تاریخ کے بہترین Hitter کو خراج تحسین پہنچاتے ہوئے اس شاندار سرنگ کو‘ جو بوسٹن ایئرپورٹ کو سمندر پار دوسرے علاقوں سے ملاتی ہے اس عظیم کھلاڑی کے نام سے منسوب کیا ہوا ہے۔ اور یہ امریکہ میں عام رواج ہے۔
وہاں بھی سیاستدانوں اور حکمرانوں کے نام پر عمارتیں‘ ایئر پورٹ‘ پل‘ سرنگیں‘ کھیل کے میدان اور سڑکوں کے نام ہیں لیکن اس میں دو تین باتیں بہت اہم ہیں۔ پہلی یہ کہ کسی سیاستدان یا حکمران نے عوام کے ٹیکسوں سے بننے والے کسی بھی پراجیکٹ کی تعمیر کے بعد نہ تو اس کا نام اپنے یا اپنے خاندان کے کسی فرد پر رکھا ہے اور نہ ہی اس پر کوئی افتتاحی تختی لگا کر اس پر اپنا نام کنندہ کیا ہے۔ دوسری یہ کہ اس سیاستدان یا حکمران کے دورِ حکومت کے بعد اس کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے کسی پراجیکٹ کو اس کے نام سے منسوب کر دیا جائے تو وہ اور بات ہے۔ یہ نہیں کہ ملتان کے قدیم ترین فاطمہ جناح زنانہ ہسپتال کو میاں شہباز شریف کے دور میں بننے والے شہباز شریف ہسپتال میں ضم کر دیا جائے اور وزیراعلیٰ بھائی اپنے وزیراعظم بھائی کے نام پر ملتان میں دو عدد یونیورسٹیاں قائم کر دے اور ان کی دیکھا دیکھی ایک ایم این اے شہر کے تین عدد پارک اپنے والد‘ چچا اور بھائی کے نام سے منسوب کر دے۔
ہمارے ہاں عجب بلندی اور عجب پستی ہے۔ یا تو ہمارے پراجیکٹس کے نام قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کے نام سے منسوب ہوتے ہیں یا پھر ڈوگروں کے نام پر رکھے جاتے ہیں۔ درمیان میں کوئی مقامِ اعتدال ہی نہیں ہے۔ ملتان میں جنوبی پنجاب کا سب سے بڑا سرکاری ہسپتال نشتر ہسپتال ہے۔ اس ایک ہسپتال پر اتنا دباؤ تھا کہ خدا کی پناہ۔ خیبر پختونخوا کے ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن سے لے کر بلوچستان کے لورا لائی ڈویژن اور ژوب تک کے مریض ادھر آتے ہیں۔ خدا خدا کرکے اس علاقے میں ایک اور ہسپتال کی تعمیر شروع ہوئی تو اس کا نام نشتر ٹو رکھ دیا گیا۔ میں نے ایک ذمہ دار شخص سے کہا کہ نشتر ہسپتال بذاتِ خود اتنے بے ہنگم انداز میں پھیل چکا ہے کہ اسے بطریقِ احسن چلانا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے اور آپ نے اس پر مزید بوجھ لاد دیا ہے۔ خدا کے واسطے نئے ہسپتال کو اس سے علیحدہ چلائیں اور اس کا نام بھی کوئی اور رکھیں۔ وہ دوست ہنس کر کہنے لگا کہ یہ نام دراصل صرف اس لیے رکھا ہے کہ نئے نام کی پٹاری کھولی گئی تو ڈیرہ غازی خان میں بننے والے سردار فتح محمد بزدار انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کی طرح اس کا نام کوئی حکمران اپنے نام پر یا اپنے کسی عزیز کے نام پر رکھ لے گا۔
ملتان میں چوہدری پرویزالٰہی انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی آپ کے سامنے ہے۔ سابقہ تجربات کی بنیاد پر میں نہ صرف خاموش ہو گیا بلکہ اس نام کو خوشی سے قبول بھی کر لیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں