"KMK" (space) message & send to 7575

ہماری اور آپ کی اوقات ہی کیا ہے؟

یہ بات ناممکنات میں سے ہوگی کہ کسی جگہ پندرہ سولہ پاکستانی اکٹھے ہوں اور وہاں سیاست پر گفتگو نہ ہو‘ یہی حال اُس رات کھانے پر ہوا۔ سٹوٹگارٹ میں بابر کے علاوہ میرا اور توکوئی دوست نہ تھا لیکن بابر کے بہت سے دوستوں نے فرداً فرداً کھانے کی دعوت دے دی‘ بابر میری طبیعت سے واقف تھا کہ میں غنیمت کے یہ چند روز کھانوں کے چکر میں پڑ کر برباد نہیں کرنا چاہتا‘ لہٰذا اس نے ایک ہی بار سب دوستوں کو اپنے گھر کھانے پر بلا لیا۔محدود سی جگہ پر وسعتِ قلبی کے طفیل ایسی برکت پڑی کہ تیرہ چودہ لوگوں کا اہتمام تھالیکن بیس کے قریب مہمان آ گئے مگر جگہ کی تنگی کا احساس بھی نہ ہوا۔
اب اسے اتفاق کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ ان بیس لوگوں میں سے سترہ‘ اٹھارہ لوگ عمران خان کے حامی تھے۔ سیاسی اپوزیشن بڑھ سکتی تھی مگر برفباری کے باعث دو تین اور دوست جنہوں نے ساتھ والے شہر سے آنا تھا برفباری کے باعث نہ آ سکے۔ اگر وہ بھی آ جاتے تو عمران خان کے مخالفین کی تعداد بڑھ کر پانچ‘ چھ ہو جاتی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ بابر نے دوست بلاتے ہوئے ان کی سیاسی وابستگیوں کو ایک طرف رکھ دیا تھا اور سب مہمانوں کو محض دوستی کی بنیاد پر دعوت دی تھی۔ اب اس کا کیا کیا جائے کہ بیرونِ ملک والی عمومی شرح کی مانند سٹوٹگارٹ میں بھی عمران کے چاہنے والوں کی شرح وہی تھی۔
کھانا پاکستانی اور ترک ڈشوں کا شاندار امتزاج تھا تاہم کھانا شروع ہونے سے کافی دیر پہلے ہی یہ اعلان کر دیا گیا کہ کھانے کے دوران اور اس سے پہلے ہر قسم کی سیاسی گفتگو پر پابندی ہے۔ اس اعلان کی اہمیت حجام کی دکان پر لگے ہوئے انتباہی بورڈ سے زیادہ دیر پا ثابت نہ ہوئی جہاں لکھا ہوتا تھا کہ یہاں سیاسی گفتگو کرنا منع ہے۔ میں اور برادرم غضنفر ہاشمی ایک بار پیرس گئے۔ وہاں دوست ہمیں ایک بارونق بازار میں ایک پاکستانی کیفے میں لے گئے۔ مجھے کیفے کا نام تو اب یاد نہیں تاہم یہ ضرور یاد ہے کہ اس کے مالک کا نام جاوید تھا۔ کیفے میں خوب رش تھا اور ہر طرف شور برپا تھا۔ مجھے پہچان کر کاؤنٹر پر بیٹھا ہوا آدمی اپنی جگہ چھوڑ کر آ گیا اور ایک دو کرسیاں ادھراُدھر سے پکڑ کر ایک میز کے ساتھ رکھیں اور خود ایک کرسی پر بیٹھ کر کہنے لگا: میرا نام جاوید ہے اور میں اس کیفے کا مالک ہوں۔ یہ کیفے ادھر رہنے والے پاکستانیوں کا گڑھ ہے اور شام کو ادھر بڑی رونق ہوتی ہے۔ کیفے کی دیواروں پر دو تین جگہ پر بڑا نمایاں کرکے لکھا ہوا تھا کہ ''یہاں سیاسی گفتگو کرنا سختی سے منع ہے‘‘۔
ہم چار لوگ تھے‘ جاوید نے مجھ سے پوچھا کہ چائے کیسی ہو؟ مکس یا سیپرٹ؟ میں نے کہا میں تو چائے پیتا نہیں باقیوں سے پوچھ لیتے ہیں۔ غضنفر نے جاوید کو چائے کا بتایا اور میرے لئے کافی کا کہا۔ جاوید نے کچن میں جا کر چائے اور کافی کا کہا اور واپس آکر کہنے لگا :پاکستان میں حکومت کا کیا حال ہے اور معاملات کیسے جا رہے ہیں؟ میں نے دیوار کی طرف اشارہ کر کے اسے یاد دلایا کہ اس کیفے میں اس کی اپنی ہدایت کے مطابق سیاسی گفتگو کرنا سختی سے منع ہے۔ جاوید نے ایک فلک شگاف قہقہہ لگایا اور کہنے لگا: آپ بھی بڑے بھولے بادشاہ ہیں۔ آپ بتائیں بھلا کوئی پاکستانی ریستوران یا کیفے سیاسی گفتگو کے بغیر چل سکتا ہے؟ جہاں چار پاکستانی اکٹھے ہوتے ہیں صرف اور صرف سیاسی گفتگو کرتے ہیں۔ ویسے بھی لوگ شام کو اس قسم کی جگہ پر اپنا کتھارسس کرتے ہیں۔ سیاسی گفتگو کا گھمسان مچاتے ہیں اور اپنی دانشوری بگھارتے ہیں۔ اگر ایسی جگہوں پر سیاسی گفتگو پر واقعی پابندی لگا دی جائے تو اِدھر شام کو الّو بولیں گے۔
میں نے حیرانی سے کہا کہ جاوید صاحب! جب آپ کو ان سب حقائق کا ادراک ہے تو آپ نے پھر ادھر تین چار جگہوں پر یہ کیوں لکھوا رکھا ہے کہ یہاں سیاسی گفتگو کرنا سختی سے منع ہے؟ تو وہ ہنس کر کہنے لگا: یہ دراصل آپ لوگوں کو یاد دلانے کیلئے لکھوایا ہے کہ اگر آپ نے ابھی تک سیاسی گفتگو شروع نہیں کی تو آپ اس موضوع پر آ جائیں۔ یہ تنبیہ نہیں‘ یاد دہانی ہے۔ سو اب آپ مجھے بتائیں کہ پاکستان میں کیا سیاسی صورتحال ہے؟
کھانا ختم ہونے تک تو کچھ امن سکون تھا‘ جیسے ہی کھانا ختم ہوا سیاسی گفتگو کی شروعات ہو گئی۔ ایک صاحب کہنے لگے :یہ سیاسی سوال ہرگز نہیں بلکہ میں صرف اور صرف اپنے علم میں اضافے کی غرض سے پوچھ رہا ہوں کہ اس وقت پاکستان میں سیاسی صورتحال کیسی ہے؟ میں نے گول مول سا جواب دے کر جان چھڑاتے ہوئے کہا کہ بالکل ویسی ہے جیسی آپ کے علم میں ہے۔ وہ صاحب کہنے لگے کہ میرے خیال میں صورتحال بہت ہی خراب ہے۔ میں نے جواب دیا کہ آپ کا خیال بالکل درست ہے اور میں آپ سے متفق ہوں۔ اب آگے مزید گفتگو کا دروازہ بظاہر بند ہو گیا مگر وہ صاحب کافی مستقل مزاج تھے‘ کہنے لگے: آپ کے خیال میں یہ سب کچھ کون کر رہا ہے؟ میں نے کہا: یہ سب کچھ یقینا وہی کر رہے ہیں جن کے بارے میں آپ کا خیال ہے کہ وہ یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔ اس ہومیوپیتھک اور پرامن قسم کی سیاسی گفتگو سے تنگ آکر حاضرینِ محفل نے غیر سیاسی گفتگو شروع کردی اور یہ غیر سیاسی گفتگو سٹوٹگارٹ کی مسجد کمیٹی کے بارے میں تھی۔ اس غیر سیاسی گفتگو میں آہستہ آہستہ اتنی گرما گرمی شروع ہو گئی کہ میزبان بابر اقبال نے بمشکل بیچ بچاؤ کرواتے ہوئے متوقع جنگ وجدل کو روکا۔ اس غیر سیاسی گفتگو کے نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے شرکائے محفل نے سیاسی گفتگو شروع کردی۔
ایک صاحب نے پوچھا کہ یہ بلاول بھٹو آج کل اتنا تاؤ کیوں کھا رہے ہیں اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت پر اتنا کیوں برس رہے ہیں؟ میں نے کہا: برطانیہ کے غیر تحریر شدہ آئین کی مانند ہمارے غیر تحریر شدہ سیاسی آئین کے مطابق اب پیپلزپارٹی کے اقتدار کی باری تھی جو انہیں نہیں دی جا رہی‘ لہٰذا ان کا احتجاج تو بنتا ہے۔ ایک اور صاحب نے سوال داغا کہ پاکستان اور ایران نے ایک دوسرے پر میزائل داغے اور ڈرون کے ذریعے سرحد پار حملے کئے۔ پاکستان نے نہ صرف اپنا سفیر واپس بلالیا بلکہ ایرانی سفیر کو بھی واپس پاکستان آنے سے منع کر دیا اور پھر کسی منطقی نتیجے پر پہنچنے سے قبل ہی شتابی سے صلح بھی کر لی اور حالات کو معمول پر بھی لے آئے۔ آخر اتنی افراتفری میں بنیادی مسائل کو طے کئے بغیر صلح کیوں کی گئی ہے؟میں نے کہا :اس جھگڑے کی وجہ سے ایرانی تیل وغیرہ کی سمگلنگ پر بُرا اثر پڑ رہا تھا اور اس دو طرفہ سرحدی کاروبار کے بینی فشریز کو مزید مالی نقصان سے بچانے کیلئے حالات کو معمول پر لانا ضروری تھا‘ لہٰذا فوری صلح کرکے دونوں اطراف کے سٹیک ہولڈرز کے معاشی معاملات کو درست کر دیا گیا ہے۔ایک اور صاحب نے پوچھا کہ آپ کے خیال میں الیکشن ہوں گے سہی ؟ میں نے کہا: سپریم کورٹ کے حکم کے بعد میں الیکشن کے نہ ہونے کے بارے میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا تاہم یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ آٹھ فروری کو جو کچھ ہوگا وہ اور کچھ بھی ہو سکتا ہے‘ لیکن الیکشن ہرگز نہیں ہوں گے۔وہی صاحب پوچھنے لگے کہ آپ کے خیال میں اس الیکشن کے کیا نتائج ہوں گے؟ میں نے کہا: وہی نتائج ہوں گے جو طے کیے جا چکے ہیں اور وقت آنے پر ان کا اعلان کر دیا جائے گا۔ آپ کو نتائج کے سلسلے میں ڈبے پر نہیں فارم پینتالیس پر یقین کرنا پڑے گا۔ ایک اور صاحب نے سوال کیا کہ پھر ایسے نتائج کی کیا حیثیت ہو گی؟ میں نے کہا: جنہوں نے یہ سب کچھ طے کر رکھا ہے ان کے نزدیک آپ کی اور ہماری نہ کوئی حیثیت ہے اور نہ ہی اوقات ہے۔ آپ جو مرضی سوچیں‘ ان کو آپ کی رتی برابر پروا نہیں کہ آپ کیا سوچ رہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں