"KMK" (space) message & send to 7575

ایک عہدِ قدیم کا اختتام اور یکم فروری

ابھی پاکستان آکر ٹھیک طرح سے دم بھی نہیں لیا تھا کہ لاہور بک فیئر یعنی لاہور کا کتاب میلہ آ گیا۔ ملتان بیٹھ کر سیاسی گمبھیرتا میں اپنا دماغ پلپلا کرنے سے کہیں بہتر تھا کہ بندہ لاہور جا کر خود کو کتابوں سے بہلانے کی کوشش کر لے کہ اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ کہیں دل بھی لگ جائے تو غنیمت ہے۔ آج کل ملتان میں رہ کر بندہ بھلا کیا کر سکتا ہے سوائے اس کے کہ ہر طرف پیسے کی بہار اور ایک ارب پتی امیدوار کے جھنڈوں پوسٹروں کی تکرار دیکھے اور شرفاکی تذلیل پر دل گرفتہ ہوتا رہے۔
عابد محمود کھگہ مجھے دوستی کے جہیز میں ملا تھا۔ عابد کا بڑا بھائی طاہر شاہ کھگہ میرا یونیورسٹی فیلو تھا۔ گو کہ ہمارے ڈیپارٹمنٹ مختلف تھے مگر خانیوال سے تعلق رکھنے والے ایک دو مشترکہ دوستوں کی وجہ سے ہماری طاہر شاہ سے دوستی ہو گئی جو تقریباً گزشتہ چارعشروں سے قائم و دائم ہے۔ طاہر کھگہ خود تو خانیوال کیساتھ شام کوٹ کے قریبی گاؤں بھیرووال میں زمیندارہ کرتا ہے جبکہ اس کا چھوٹا بھائی محکمہ زراعت سے ریٹائرمنٹ کے بعد ملتان میں ہی رہائش پذیر ہے تاہم اپنی زمین کی دیکھ بھال کے سلسلے میں اسکا اپنے گاؤں میں نہ صرف مسلسل آنا جانا لگا رہتا ہے بلکہ اس کا پورے دیہاتی رکھ رکھاؤ کے ساتھ علاقے کے لوگوں سے رابطہ بھی ہے اور غمی خوشی میں سو فیصد شریک بھی ہے۔
اللہ جانے اس کے دل میں کیا آئی کہ ریٹائرمنٹ کے بعد ایک اچھی بھلی کنٹریکٹ کی نوکری چھوڑ کر تبدیلی کے چکر میں پڑ گیا۔ درمیانے درجے کے زمیندار کی سیاست میں آمد بھلا پرانے جاگیر داروں کو کس طرح گوارہ تھی؟ پہلے اسے خانیوال کے ہراج لڑ گئے اور اب اسے سرکار نے مروڑا دے رکھا ہے۔ جیسے ہی اس نے کاغذاتِ نامزدگی حاصل کیے سرکاری اہلکاروں نے اسے اٹھا کرمحبت سے گلے لگایا اور ساتھ لے کر چل پڑے۔ جب جی بھر گیا تو اسے دو چار ناصحانہ لیکچرز دے کر گھر بھجوا دیا۔ میں جرمنی میں تھا کہ برادرم احسان الرحمان نے خبر دی کہ پولیس نے عابد کھگہ کے بڑے بھائی اور ہمارے پرانے دوست طاہر کھگہ کو جو عرصہ ہوا تبلیغی جماعت کو پیارا ہو چکا تھا‘ اٹھا لیا۔ واپس آکر ابھی طاہر کھگہ سے حال احوال پوچھنے کا ارادہ ہی کیا تھا کہ معلوم ہوا عابد کھگہ کو سیدھے راستے پر رکھنے پر مامور لوگوں نے اس کو پچھلا سبق یاد نہ رکھنے کی پاداش میں دوبارہ ریفریشر کورس پر بھیج دیاہے اور گمان ہے کہ وہ لاہور کتاب میلہ کے اختتام کے بعد ہی واپس آئے گا۔
اب آپ کہیں گے کہ عابد کھگہ کی اس نئی یاترا کا لاہور بک فیئر سے کیا تعلق ہے؟ تو عرض ہے کہ آج کل اسی طرح بات سے بات نکلتی ہے اور اب کیونکہ بات سے بات نکل ہی آئی تھی تو یہ فقیر دل لگانے کیلئے لاہور چل پڑا کہ اب گرد‘ گرما‘ گدا وگورستان کے حوالے سے شہرت یافتہ شہر اپنی ان چاروں خوبیوں کی عملی تصویر پیش کر رہا ہے کہ محکمہ زراعت کی طرف سے چلائی جانے والی کالی آندھی نے ہر طرف وہ گرد اٹھا رکھی ہے کہ کچھ صاف دکھائی نہیں دے رہا۔ سرد موسم میں ایسی گرمیٔ بازار ہے کہ سستی شے مہنگے داموں بک رہی ہے اور ٹکے ٹوکری لوگ سونے کے بھاؤ پڑ رہے ہیں۔ گداگروں کے بارے میں تو کچھ نہ ہی پوچھیں تو بہتر ہے۔ شوقِ اقتدار کے گداگر شہر کے مغرب میں محمد بن قاسم سے منسوب بیلے میں ہاتھوں میں کشکول لیے صرف ایک آشیر باد کے متمنی ہیں۔ بقیہ سارا شہر گویا شہرِ خموشاں کی طرح ہے۔ شہرِ خموشاں کا فارسی ترجمہ کریں تو اس شہر سے منسوب چوتھی خوبی نکلتی ہے یعنی گورستان۔ لیکن صرف ملتان پر ہی کیا موقوف‘ سب جگہ یہی حال ہے۔
یکم فروری لاہور بک فیئر کا افتتاحی روز تھا۔ ورکنگ ڈے ہونے کی وجہ سے ویسے ہی کچھ رش کم تھا اور شاید میں بھی تھوڑا جلد پہنچ گیا تھا۔ لیکن اس بے رونق موسم میں اتنی رونق بھی غنیمت تھی کہ جس شہر میں لوگ بریانی کی پلیٹ کو کتاب پر ترجیح دیتے ہوں اور کتابوں کی سب سے بڑی دکان کی جگہ جوتوں کی مارکیٹ بننے جا رہی ہو اور کسی کے کانوں پر جوں نہ رینگے تو بھلا اس شہر میں لگنے والے کتاب میلے میں لوگوں کی کم آمد پر کیا شکوہ کریں؟اس شہر میں پاکستان کے سب سے پرانے اشاعتی ادارے فیروز سنز کا صدر دفتر اور شو روم تھا۔ مال روڈ پر الفلاح بلڈنگ کے ساتھ 1904ء میں تعمیر ہونے والی غلام رسول بلڈنگ میں 1947ء میں قائم ہونے والا فیروز سنز کا شور روم حرف و قرطاس کے حوالے سے میرے بچپن اور لڑکپن کا پہلا عشق تھا۔ فیروز سنز کی چھپی ہوئی کئی کئی جلدوں پر مبنی داستانیں جیسے داستانِ امیر حمزہ اور عمرو عیار کی داستان اور بچوں کی کتابیں جن میں عالی پر کیا گزری‘ میرا نام منگو ہے‘ لنگڑا فرشتہ‘ خزانے کا راز‘ سند باد کے سات سفر‘ ٹارزن‘ ٹارزن اور درندے‘ ٹارزن کی واپسی‘ ٹارزن کا بیٹا اور دیگر درجنوں کتابیں۔ جب کتابیں پڑھنے کا چسکا پڑا تو پہلے پہل میں اپنی پسند کی کتابیں پاکستان بک سنٹر سے خریدا کرتا تھا جہاں چچا عمر خان حصہ دار تھے پھر بعد میں انہوں نے ملتان کینٹ میں اپنی کتابوں کی دکان ''کاروان بک سنٹر‘‘ کھولی اور یوں کتابوں کی خرید کا میرا مرکز گھنٹہ گھر سے ملتان کینٹ منتقل ہو گیا۔
گرمیوں کی چھٹیوں میں جب لاہور جاتا تو ماموں محمود کے اندرون لوہاری دروازہ والے گھر سے پیدل انارکلی اور مال روڈ سے ہوتا ہوا چیئرنگ کراس کے ساتھ فیروزسنز کے وسیع و عریض شوروم میں پہنچ جاتا۔ میں یہاں کتابوں کے درمیان بلا مبالغہ گھنٹوں گھومتا رہتا۔ یہ ہال میرے لیے کسی جادونگری سے کم نہ تھا۔ میں وہاں ایسی حیرانی میں گھومتا گویا کہ پرستان میں ہوں۔ بچوں کے سیکشن کے علاوہ اردو اور انگریزی کتابوں کے سیکشن میں گھومنا بھی عجب طرح کا لطف دیتا۔ ریڈر ڈائجسٹ والوں کی ''گریٹ ورلڈ اٹلس‘‘ اور انگریزی رسالے Life میں شائع شدہ بہترین تصاویر کے انتخاب پر مبنی مجموعے ''بیسٹ آف لائف‘‘ کی ورق گردانی ایک عیاشی تھی۔ ہر دوسرے روز اس میں پورا منہ کھولے ہوئے محمد علی اور پورا جمپ لے کر باسکٹ میں بال ڈالتے ہوئے کریم عبدالجبار کی تصویر ایسے دیکھی جاتی جیسے پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔
1894ء میں ایک پرنٹنگ پریس سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ حاجی فیروزالدین کی محنت کے نتیجے میں فیروزسنز کی صورت بن کر ابھرا اور اس نوزائیدہ مملکت کا سب سے پہلا اور بڑا کتابیں چھاپنے والا ادارہ ٹھہرا۔ 2012ء میں لگنے والی آگ نے سب کچھ خاکستر کر کے رکھ دیا۔ کتابیں‘ دفتر اور اس کے ساتھ ایک روشن ماضی بمعہ میری یادوں کے جل کر خاک اور ایک عہدِ قدیم اختتام پذیر ہوا۔ سنا ہے اب وہاں جوتوں کی دکان کھل رہی ہے۔ کتابوں کی جنت جوتوں تلے روندی جا رہی ہے اور شہر بھر میں کسی کو رَتی برابر پروا نہیں۔ اور بھلا پروا بھی کیوں ہو ؟ کیا عجب اتفاق ہے کہ انارکلی کے مال روڈ والے کارنر سے پہلے ایک کتابوں کی دکان آئیڈیل بکس ہوتی تھی آج اس جگہ پر بھی جوتوں کی دکان ہے۔
ملتان میں عشروں پہلے بھی کتابوں کی آٹھ دس دکانیں تھیں اب ان کی گنتی سکڑتے سکڑتے ساڑھے تین تک پہنچ چکی ہے۔ساڑھے تین اس طرح کہ دوتین کتابوں کی دکانیں تو ایسی ہیں جن میں کتابوں کا سیکشن سکڑ کر کل دکان کا ایک چوتھائی رہ گیا ہے۔ ان میں سے ایک دکان ہمارے یارِ غار اور برادرِ خورد شاکر حسین شاکر کی بھی ہے۔ یکم فروری کو شروع ہونے والے لاہور بک فیئر کی خاص بات یہ تھی کہ اس روز بک کارنر جہلم والوں نے حسن رضا گوندل کی مرتب کردہ ''سب رنگ کہانیاں‘‘ کی ساتویں جلد کی رونمائی کروائی۔ سب رنگ اور شکیل عادل زادہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور یکم فروری شکیل عادل زادہ کا یومِ پیدائش بھی ہے۔ بک فیئر کا آغاز‘ سب رنگ کہانیوں کی ساتویں جلد اور شکیل عادل زادہ کی سالگرہ اسی ایک روز تھی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں