الیکشن‘ نتائج اور پھر نتائج پر حاوی آنے والے نتائج کو دیکھتے ہوئے ایک ثابت شدہ حقیقت ایک بار پھر تلخ حقیقت بن کر ہمارے سامنے آئی ہے کہ ہمارا کلہم سیاسی نظام (میں معذرت خواہ ہوں کہ اس کو نظام لکھ رہا ہوں مگر میرے پاس فی الحال اس کا مناسب متبادل نہیں ہے‘ امید ہے آپ مجھے میری نالائقی پر معاف کر دیں گے) ایک دو اداروں اور پانچ چھ اشخاص کے پاس یرغمال پڑا ہوا ہے۔ مقتدرہ اور نظامِ عدل اس سارے گھن چکر کے کسٹوڈین ہیں اور میاں نواز شریف‘ شہباز شریف‘ حمزہ شہباز‘ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری اس گلے سڑے نظام سے مستفید ہونے والوں کے سرخیل ہیں۔ پہلے ان سرخیلوں کی تعداد تین تھی پھر بڑھ کر چار ہوئی اور اب چھ ہو گئی ہے؛ تاہم تین افراد بھی کہیں مریخ سے نہیں آئے اور یہ اضافہ بھی دراصل انہی دو خاندانوں کی نئی نسل پر مشتمل ہے۔ اگر اس میں اسحاق ڈار‘ سندھ کی ''ادی‘‘ اور اسی طرح کے دو چار انفرادی اضافے بھی کر دیں تو بھی یہ تعداد ڈبل فگر میں نہیں جاتی؛ تاہم بینی فشری خاندانوں کی تعداد وہی دو ہے۔ جو نیا فیکٹر اس مناپلی زدہ نظام میں زبردستی گھس بیٹھا تھا‘ وہ اب اسی جگہ پہنچ چکا ہے جہاں لگے بندھے نظام سے بغاوت کرنے والے بھیجے جاتے ہیں۔ اب گلیاں بظاہر سُنجیاں ہو چکی ہیں اور اس میں مقتدرہ کے منظور شدہ مرزے اور رانجھے مزے سے سیر سپاٹا کر رہے ہیں اور ہیر گا رہے ہیں۔
الیکشن سے قبل مسلم لیگ (ن) نے جو ساڑھے چھ‘ پونے سات جلسے کیے تھے ان میں وہی ایک خاندان کے تین چار مقررین ہوتے تھے اور ان تمام جلسوں میں ہونے والی تقاریر کا لب لباب یہ تھا کہ ایک خاتون اپنے والد اور چچا کے کارنامے گنواتی تھی۔ دوسرے صاحب اپنے بھائی‘ بیٹے اور بھتیجی کی تعریفوں کے پل باندھتے تھے اور بڑے صاحب اپنی بیٹی اور بھائی کی شان میں رطب اللسان ہوتے تھے۔ اس انجمنِ امدادِ باہمی پر مشتمل جلسے کے مقررین کی تقاریر خاندانی تعریفوں سے شروع ہوتی تھیں اور اسی پر ختم ہو جاتی تھیں۔ یہ تعریفی اور توصیفی سلسلہ عرصہ گزشتہ 26سال سے چل رہا ہے جب فروری 1997ء میں میاں نواز شریف پاکستان کے وزیراعظم اور ان کے برادرِ خورد میاں شہباز شریف پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیراعلیٰ بن گئے۔ اس کے بعد یہ خاندانی حکمرانی کا سلسلہ بلا کسی تردد کے جاری و ساری ہے۔
اس دوران پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جمہوری پارٹی ہونے کے دعویداروں کے پاس اور کوئی تیسرا شخص ایسا نہ تھا جو مرکز اور پنجاب میں حکمرانی کے قابل سمجھا جاتا۔ وزارتِ عظمیٰ سے نااہلی کے نتیجے میں صرف تھوڑے عرصے کے لیے شاہد خاقان عباسی کی لاٹری نکلی مگر مجبوری کی حالت میں بعض اوقات کڑوی گولی نگلنا پڑتی ہے۔ سو تھوڑا عرصہ اسلام آباد کا تختِ شاہی خاندانِ شریفاں سے محروم رہا وگرنہ اس پر کسی اور کو بیٹھنے کی قطعاً اجازت نہ تھی۔
نااہلی کے باعث الیکشن کے عمل میں حصہ لینے سے محرومی کے دور میں وزارتِ عظمیٰ کا ہما میاں شہباز شریف کے سر پر بیٹھا تو درمیان میں موقع ملتے ہی انہوں نے اپنے برخوردار حمزہ شہباز شریف کو پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کی کرسی پر فٹ کر دیا۔ گو کہ وزارتِ اعلیٰ چند راتوں کی دلہن ثابت ہوئی مگر اس حرکت سے عہدوں اور اقتدار کو خاندان کے اندر بانٹنے کی روایت کو بہرحال مزید تقویت ضرور نصیب ہوئی۔ اور اب بھی اسی روایت کو ایک نئے فرد کی نامزدگی سے مزید مضبوط کیا جا رہا ہے۔ یہ نئی انٹری مریم نواز شریف کی ہے جنہیں پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے لیے نامزد کرکے خاندانی اقتدار کی فہرست کو مزید طوالت بخش دی گئی ہے۔
اس ساری ادلا بدلی میں نتیجہ یہ نکلتا دکھائی دے رہا ہے کہ اس لاوارث ملک کی صدارت کی کرسی پر عزت مآب آصف علی زرداری متمکن ہوں گے‘ وزیراعظم میاں شہبازشریف ہوں گے اور پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نوازشریف ہوں گی۔ ممکن ہے پنجاب میں کسی خاتون کی وزارتِ اعلیٰ پر نامزدگی سے جناب آصف علی زرداری کے دل میں خواتین کو عزت و توقیر بخشنے کا عمدہ خیال آ جائے اور وہ سندھ میں اپنی ہمشیرہ محترمہ فریال تالپور کو اس منصب کے لیے نامزد کرکے جمہوری اقدار کو مضبوط تر کرنے کی اپنی سی کوششیں فرما دیں۔ اس ملک میں بھلا کیا ممکن نہیں ہے؟ بھلا تیس‘ پینتیس سال قبل کسی نے تصور کیا تھا کہ آصف علی زرداری نہ صرف اس ملک کی صدر اور مسلح افواج کے سپریم کمانڈر بنیں گے بلکہ دوبار بنیں گے؟
ہمارے ایک دوست صحافی جو مسلم لیگ (ن) کے بارے میں اپنے دل میں نہایت ہی نرم گوشہ رکھتے ہیں اور شریف خاندان سے بہت اچھے تعلقات کے حامل ہیں‘ الیکشن سے چند روز قبل ان سے بات ہوئی تو وہ فرمانے لگے کہ میرا اندازہ ہے کہ حالیہ سیاسی صورتحال کے مدنظر گمان ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو سادہ اکثریت نہیں ملے گی اور ایسی صورت میں میاں نواز شریف تو وزیراعظم نہیں بنیں گے اور لاٹری میاں شہباز شریف کی نکلے گی؛ تاہم پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ بھی مریم نواز شریف کو نہیں دی جائے گی پھر انہوں نے اس عہدے کے لیے قصور کے ایک صوبائی اسمبلی کے امیدوار کا نام لیا۔ شومیٔ قسمت سے اس امیدوار کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا جو آئی پی پی کے ان امیدواروں کے ساتھ ہوا جو اپنے عقاب کو سیاست کے آسمان پر منصوبہ سازوں کی امداد سے اڑانا چاہتے تھے۔ ویسے تو آئی پی پی کے ان امیدواروں کے ساتھ بھی اچھی نہیں ہوئی جنہیں مسلم لیگ (ن) کی مدد اور اشیر باد حاصل تھی جس کی سب سے روشن مثال ہمارے پیارے جہانگیر ترین تھے؛ تاہم اکیلے اڑنے والوں کی تو ضمانتیں ضبط ہو گئیں۔ ہمارے اس باخبر صحافی دوست کے پیش گوئی کردہ امیدوار کو اتنے کم ووٹ ملے کہ بتاتے ہوئے مجھے شرمندگی ہو رہی ہے؛ تاہم وہ تو اس دوڑ سے خارج ہو گئے۔ بقول ہمارے اس دوست کے اس امیدوار کو تائیدِ غیبی حاصل تھی مگر ووٹ اس قسم کی تائید سے بالاتر ہوتے ہیں اس لیے یہ کہانی تو شروع ہونے سے بھی کہیں پہلے اپنے انجام کو پہنچ گئی۔
میں نے اپنے اس باخبر دوست کو کہا کہ اگر میاں نواز شریف وزیراعظم نہ بن سکے اور مجھے یقین ہے کہ وہ وزیراعظم نہیں بن سکیں گے کہ انہیں صرف اس الیکشن میں رنگ بازی پیدا کرنے کی غرض سے لایا گیا ہے‘ وگرنہ تائیدِ غیبی صرف اور صرف میاں شہباز شریف کو ہی حاصل ہے اور ایسی صورت میں جبکہ خود میاں نواز شریف اقتدار میں نہ آئے تو وہ پنجاب کی کرسیٔ اقتدار پر ہر حالت میں اپنی صاحبزادی کو بٹھائیں گے اور اس سے کم پر ان کی صاحبزادی بھی راضی نہیں ہوں گی۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ بیٹی فرمائش کرے اور والد گرامی اس کی خواہش کو رد کر دیں؟
میں نے اپنے اسی باخبر دوست سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اس پوری الیکشن مہم میں میاں نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) نے ووٹ کو عزت دو کا نام تک نہیں لیا۔ وہ دوست آگے سے معنی خیز ہنسی ہنسا اور کہنے لگا کہ جس یقین دہانی پر وہ لندن سے پاکستان تشریف لائے تھے اس میں ووٹ کی عزت کا کوئی دخل نہیں تھا اور وہ بیلٹ بکسوں کے بجائے دیگر قسم کی امدادی کارروائیوں پر بھروسا کرکے آئے تھے اور انہیں یقین تھا کہ پردۂ غیب کی ٹوپی کے نیچے سے سادہ اکثریت کا کبوتر برآمد ہوگا مگر میاں شہباز شریف کے ہونٹوں پر آنے والی مسلسل مسکراہٹ دوسری کہانی سناتی دکھائی دیتی تھی کہ ''ساڈی گل ہو گئی اے‘‘ اور میاں شہباز شریف کی مسکراہٹ بے جا نہیں تھی؛ تاہم مجھے سب سے زیادہ ہمدردی حمزہ شہباز سے ہے جس کا مستقبل تاریک ہے۔