"KMK" (space) message & send to 7575

نظام کی تبدیلی تحویل داروں سے مشروط ہے

اس ملک میں چونکہ اربابِ اختیار کے پاس کرنے کے لیے اپنا کوئی کام نہیں ہوتا‘ اس لیے وہ مصروف رہنے کے لیے یا شاید مصروف دکھائی دینے کیلئے کچھ نہ کچھ کرنے کے چکر میں لگے رہتے ہیں۔ تاہم اس دکھائی دینے والی مصروفیت میں بھی وہ اس بات کی پوری احتیاط کرتے ہیں کہ وہ غلطی سے بھی ایسا کوئی کام نہ کر دیں جو واقعتاً ان کے ذمے لگایا گیا ہو یا اس سے ان کے زیرِ انتظام محکمے یا ادارے کا کوئی واسطہ ہو۔ اب آپ دیکھ لیں کہ جمہوری اور سیاسی مستقبل کا فیصلہ وہ لوگ کرتے چلے آ رہے ہیں جو سیاست میں کسی قسم کی دخل اندازی اور حصہ نہ لینے کا حلف اٹھاتے ہیں۔ ارکانِ اسمبلی قانون سازی کے علاوہ باقی ہر کام کرنے میں شیر بلکہ ببر شیر ہیں۔ عدلیہ کی کارکردگی کے بارے میں کچھ عرض کرنا توہینِ عدالت کے امکانات روشن کرتا ہے اس لیے خاموشی بہتر ہے؛ تاہم اس خاموشی کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ عدلیہ اپنے فرائض کما حقہٗ سرانجام دے رہی ہے۔ بیورو کریسی کا بنیادی مقصد فلاحِ عامہ ہے مگر عالم یہ ہے کہ ہماری بیورو کریسی جس یک نکاتی ایجنڈے پر کام کرتی چلی آ رہی ہے وہ عوام کو فراہم کی جانے والی آسانیوں اور سہولتوں کے آگے رکاوٹیں کھڑی کرنا ہے۔ علمائے دین لوگوں کو اسلام کا درگزر‘ محبت‘ بھائی چارہ‘ عفو اور اعتدال کا پہلو سمجھانے کے بجائے تنگ نظری‘ اشتعال اور تعصب کا سبق یاد کرانے پر لگے ہوئے ہیں۔
نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ نگران حکومت کا کام صرف اور صرف صاف شفاف اور آزادانہ الیکشن کرانا ہوتا ہے لیکن انہوں نے اپنا سارا زور اس بات پر لگا دیا کہ کسی نہ کسی طرح وہ اپنے عرصۂ اقتدار کو لٹکا کر آگے لے جائیں۔ وہ اس میں کافی حد تک کامیاب رہے اور تین ماہ کے عرصہ میں کرنے والا کام تقریباً چھ ماہ میں اس طرح سرانجام دیا کہ الیکشن نہ آزادانہ تھے اور نہ ہی شفاف اور مزید مزے کی بات یہ ہے کہ اس کام کو حتی المقدور حد تک لٹکانے اور الیکشن کے عمل کو ممکنہ حد تک خراب و خستہ کرنے میں جس محکمے نے اپنی بساط سے بڑھ کر مدد کی وہ خود الیکشن کمیشن آف پاکستان تھا۔ یہ وہ ادارہ ہے جو آئینی طور پر ہر پانچ سال بعد اس ملک میں صاف‘ شفاف اور آزادانہ الیکشن کرانے کے لیے بنایا گیا ہے اور پورے پانچ سال صرف اسی ایک کام کو سرانجام دینے کے لیے تیاریاں کرتا ہے۔ ان تیاریوں کا جو نتیجہ اس الیکشن میں نکلا ہے نہ صرف ساری قوم نے دیکھا ہے بلکہ دنیا بھر میں اس پر تنقید ہو رہی ہے۔ الیکشن کمیشن کے زیر انتظام مورخہ آٹھ فروری 2024ء کو ہونے والے الیکشن پر اگلے روز مورخہ'' نو فروری‘‘ 2024ء کو الیکشن کا نتیجہ غالب آ گیا اور ''غیر آئینی الیکشن کمیشن‘‘ کی کارکردگی آئینی الیکشن کمیشن کی کارکردگی سے کہیں آگے نکل گئی۔
اس ملک کے سارے ادارے‘ محکمے اور فیصلہ ساز ہمہ وقت ایسے کام کرنے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں جس سے کوئی مثبت نتیجہ بہرحال کسی صورت بھی نہ نکلتا ہو۔ ریاست ادارے اس لیے بناتی ہے ہے کہ ریاستی امور بصورت احسن سرانجام پا سکیں۔ قانون سازی اور محنت شاقہ سے ان اداروں کے لیے قواعد و ضوابط بناتے ہیں جس کی چھتری تلے ادارے اپنا فریضہ سرانجام دیتے ہیں اور سرکاری افسران اس سارے انتظام اور نظام کی نگرانی کرتے ہوئے اسے بخیر و خوبی چلاتے ہیں لیکن ہمارے ہاں ادارے بنائے ہی اس لیے جاتے ہیں کہ افسران سرکاری خرچ پر موج میلہ کر سکیں۔ اس ادارے کے فنڈز کو اپنے اللوں تللوں میں اڑا سکیں۔ اس کے پورے ڈھانچے کو اپنی سہولت کے لیے استعمال کر سکیں اور سرکاری خرچ پر موج میلہ کر سکیں۔ ادارے ریاستی و ملکی نظام کو چلانے کیلئے وضع کیے جاتے ہیں لیکن یہ نظام اس وقت تک نہیں چل سکتا جب تک افراد ان اداروں کو چلانے کے لیے پوری دلجمعی اور خلوص کے ساتھ کام نہ کریں۔ اور یہی دو چیزیں ہمارے سرکاری افسران میں عنقا ہیں۔ جب ادارے کو چلانے والے ہی اپنا کام نہیں کریں گے تو ادارے کیسے چلیں گے‘ جب ادارے نہیں چلیں گے تو نظام کی کیا مجال ہے کہ وہ درست نتائج دے سکے۔ ایسے میں بجائے اس کے کہ اس نظام کو در پیش خرابیوں یا رکاوٹوں کو دور کیا جائے ہمارے ہاں سب سے آسان جو طریقہ رائج ہے‘ وہ یہ ہے کہ نظام یا بندوبست کو سرے سے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا جاتا ہے اور ایک نیا نظام لا کر نافذ کردیا جاتا ہے۔ کبھی تو پورا نظام بدل دیا جاتا ہے اور کبھی اس ادارے یا نظام کا نام بدل کر سمجھا جاتا ہے کہ سب کچھ درست ہو جائے گا۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی غبی بچے کا نام شیخ عاقل رکھ کر اُمید کی جائے کہ اب یہ عقل و خرد کی تمام منزلیں طے کرنے کے قابل ہو گیا ہے۔ یا کسی لفنگے کے نام کے بارے اخبار میں تبدیلیٔ نام کا اشتہار شائع کیا جائے کہ ہم نے اپنے بیٹے کا نام اس کی بری حرکتوں اور بدنامی کے باعث تبدیل کرکے چودھری شریف رکھ دیا ہے لہٰذا اب اسے اس کے نئے نام کی روشنی میں شریف اور معزز سمجھا جائے۔ اب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ کسی جاہلِ مطلق کو تعلیم دینے کے بجائے اس کا نام چودھری عالم رکھ کر یہ تصور کیا جائے کہ اب وہ علم و فضل کی منزلیں طے کر لے گا۔ لیکن ہمارے ہاں ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔
ہماری بیورو کریسی نے اپنی ناکامی اور نالائقی کا بعض اوقات یہ حل نکالا کہ ادارے کا نام تبدیل کرکے یہ تصور کر لیا کہ اب سب کچھ درست ہو گیا ہے۔ کسی زمانے میں اعلیٰ سرکاری افسروں کی تربیت کے ادارے کا نام ''پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پبلک ایڈمنسٹریشن‘‘ تھا۔ اس نام کا مخفف کیا گیا تو وہ PIPA (پیپا) بنا۔ ظاہر ہے 20‘ 21 گریڈ کے توپ قسم کے سرکاری افسران کے تربیتی ادارے کا نام پیپا ہو تو اس میں ان کی ہتک کا پہلو نکلتا تھا لہٰذا افسروں نے اس ادارے کا نام بدل کر نیشنل انسٹیٹیوٹ آف پبلک ایڈمنسٹریشن رکھ دیا تاکہ اس کا مخفف پیپا کے بجائے نیپا ہو جائے اور ان کا قابلیت کا جو ڈھول پیپا بن کر بج رہا ہے‘ درست ہو جائے‘ مگر نام بدلنے سے کب بات بنتی ہے۔ حالانکہ ادارے کا نام پیپا کے بجائے نیپا ہو گیا مگر ان کی قابلیت کا پیپا چار دانگ عالم بجتا رہا۔ پھر تنگ آکر انہوں نے اس تربیتی ادارے کا نام دوسری بار بدل کر نیشنل انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ (NIM) رکھ دیا اور تصور کر لیا کہ اس نئے نام والے ادارے سے تربیت لے کر فارغ ہونیوالے افسروں کی ذہنیت‘ طرزِ عمل اور رویہ بدل چکا ہو گا تو یہ عاجز فیصلہ نہیں کر پا رہا کہ اس پر وہ روئے یا ہنسے۔
ٹیکس کا نظام روز بروز ابتری کی طرف گامزن ہے اور بظاہر اس میں بہتری کی صورت دکھائی بھی نہیں دے رہی جبکہ اس ادارے کے افسروں کے طرزِ زندگی میں ہرگزرتے روز بہتری آ رہی ہے۔ برسوں پہلے اس کا نام سینٹرل بورڈ آف ریونیو (CBR) تھا جو اس کی خراب کارکردگی کو بہتر کرنے کی غرض سے تبدیل کر دیا گیا اور اس کا نیا نام فیڈرل بورڈ آف ریونیو کر دیا گیا۔ اس ادارے کی حالیہ کارکردگی آپ کے سامنے ہے۔ اب گزشتہ دنوں خبر پڑھی کہ پنجاب کے نو عدد بورڈز آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کو ضم کرکے ایک بورڈ بنایا جا رہا ہے اور اس پر ایک ارب 25کروڑ خرچہ آئے گا۔ دنیا بھر میں ایسے کام بچت کے لیے کیے جاتے ہیں جبکہ ہمارے ایسے کام بھی کمیشن کھانے اور کھانچے لگانے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ جو نظام نو بورڈ چلانے میں ناکام ہیں‘ بھلا وہ کام ایک بورڈ کیسے سرانجام دے گا؟
ہماری عادت ہے کہ نظام کی خرابی درست کرنے کے بجائے پورا نظام بدل دیتے ہیں اور تصور کرتے ہیں کہ اب معاملات درست ہو جائیں گے۔ ادارے‘ محکمے اور نظام انسان چلاتے ہیں اور ان میں پیدا ہونے والی خرابیوں کے ذمہ دار بھی اس کے تحویل دار (Custodians) ہوتے ہیں۔ اداروں اور نظام کی درستی اس کے تحویل داروں سے مشروط ہے نہ کہ نظام کی تبدیلی سے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں