"KMK" (space) message & send to 7575

بے رحم اور خود غرض اشرافیہ

اس ملک کے سرکاری افسروں کی پانچوں گھی میں ہیں۔ یہ کام نہ کرنے کے عوض تنخواہ اور کام کرنے کے عوض علیحدہ سے پیسے وصول کرتے ہیں۔ مزے تو اس بات کے ہیں کہ جس محکمے کے ملازم جس کام کی غرض سے بھرتی ہوئے ہیں اگر وہی کام سرانجام دے دیں تو انہیں اس احسانِ عظیم پر بونس ملتا ہے۔ فنانس ڈیپارٹمنٹ کے ملازمین کو ہر سال بجٹ بنوانے میں اپنی بے پایاں صلاحیتیں مصروفِ عمل لانے کے عوض ہر سال بونس ملتا ہے۔ یہ کوئی علیحدہ سے تفویض کردہ کام نہیں بلکہ یہ ان کی ملازمت کا حصہ ہے اور وہ سارا سال تقریباً اسی ایک کام کرنے کے انتظار میں تنخواہ وصول کرتے رہتے ہیں مگر جب واقعتاً کام کرنا پڑ جائے تو اس کے عوض انہیں علیحدہ سے ''انعام‘‘ دیا جاتا ہے۔
بجلی کی ساری تقسیم کار کمپنیاں سالانہ اربوں روپے کے خسارے میں جاتی ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کچھ کمپنیاں بہت زیادہ نقصان میں جاتی ہیں اور کچھ کمپنیاں نسبتاًکم نقصان کرتی ہیں؛ تاہم کسی کمپنی کا نقصان بھی اربوں سے کم نہیں ہوتا لیکن ہر سال کمپنی کے ملازمین ایک بنیادی تنخواہ کے برابر بونس وصول کرتے ہیں۔ ان کی دیکھا دیکھی بلکہ زیادہ مناسب الفاظ میں ان کے اس ناجائز بونس کی منظوری دینے کے عوض اسلام آباد کے دفتر میں بیٹھے ہوئے منسٹری آف انرجی کے پاور ڈویژن کے ملازمین بھی یہ بونس وصول کرتے ہیں۔ منسٹری میں بیٹھے ہوئے ملازمین کو بونس کی ادائیگی تقسیم کار کمپنیوں کے کھاتے میں سے کی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں منافع میں سے بونس دینے کا تو سنتے آئے ہیں لیکن خسارے میں سے بونس تقسیم کرنا صرف اور صرف اس مملکتِ خداداد کا کارنامہ ہے۔
یہی حال انکم ٹیکس کے محکمے کا ہے جس کی کارکردگی کا تفصیلی جائزہ لیں تو شرمندگی ہوتی ہے۔ نہ یہ لوگ ٹیکس گزاروں سے بروقت ٹیکس ریٹرن وصول کرتے ہیں‘ نہ ہی ٹیکس نیٹ میں اضافہ کرتے ہیں اور نہ ہی یہ لوگ ایمانداری سے ٹیکس وصول کرتے ہیں مگر ہر مالی سال کے اختتام پر اپنے ذمہ لگا ہوا کام بُرے بھلے طریقے سے پورا کر لینے کے عوض ہر سال حسنِ کارکردگی کا انعام وصول کرتے ہیں۔ تاہم مندرجہ بالا اداروں کے علاوہ دیگر وہ تمام ادارے جو عوام کو کوئی نہ کوئی سہولت فراہم کرنے پر مامور ہیں‘ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے کے عوض خالی تنخواہ وصول کرتے ہیں۔ اپنی تفویض کردہ ڈیوٹی سرانجام دینے کے عوض بونس یا انعام لیتے ہیں اور عوام کا کام کرنے کے عوض ان سے حسبِ استطاعت و حسبِ طاقت علیحدہ سے پیسے اینٹھتے ہیں۔ یہ سارا کام نہایت ہی سکون اور مزے سے چل رہا ہے۔
ان سرکاری ملازموں سے بھی دو ہاتھ آگے اس ملک کی اشرافیہ ہے۔ اس کے تین بنیادی ستون مقننہ‘ عدلیہ اور انتظامیہ ہیں۔ انتظامیہ اپنا انتظام کیونکہ خود کر لیتی ہے شاید اسی لیے اسے انتظامیہ کہا جاتا ہے۔ نوکر‘ چاکر‘ گاڑیاں‘ پٹرول‘ ٹی اے ڈی اے‘ بونس‘ انعام‘ میٹنگ فیس‘ غیر ملکی دورے‘ بجلی‘ گیس‘ ٹیلی فون‘ گھر‘ مہمانداری الاؤنس اور بجلی کے بل میں لگے ہوئے بے شمار الاؤنسز کے برابر دیگر الاؤنسز سے مستفید ہونے کے علاوہ اسلام آباد اور دیگر بڑے شہروں میں اپنے گریڈ کے مطابق ایک یا ایک سے زیادہ پلاٹ مارنے کے علاوہ درج بالا تمام تر سہولتوں سے کہیں بڑھ کر اپنے زورِ بازو پر پیدا کی جانے والی آمدنی کی حامل ہماری اشرافیہ کی یہ کلاس سرکار کو حاصل ہونے والی سو روپے کی آمدنی کے عوض دس بارہ روپے جیب میں ڈال کر اپنی حب الوطنی کا جھنڈا بلند کرتی ہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد عموماً اپنی شاندار پیشہ ورانہ زندگی‘ ایمانداری‘ جانفشانی‘ ملک و قوم کے لیے بے پایاں خدمات اور کارناموں پر مشتمل ایک آپ بیتی لکھتی ہے جس کو پڑھ کر اچھا بھلا ایماندار آدمی اپنے آپ کو بے ایمان اور کام چور محسوس کرنے لگ جاتا ہے۔
عدلیہ کے بارے میں کیا کہا جائے کہ اس سلسلے میں پہلی رکاوٹ از خود توہینِ عدالت کا خوف ہے اور یہ قانون بھی خود عدلیہ نے بنایا ہے جس میں مدعی‘ گواہ اور مصنف خود عدلیہ آپ ہے۔ پاکستان میں عدلیہ کی تنخواہوں میں غیر معمولی اضافہ کرنے کے پیچھے یہ دلیل کار فرما تھی کہ تنخواہیں بڑھا دینے سے دیگر اقسام کے بہکاوے اور بوجھ کا سدباب کیا جا سکے گا‘ لیکن عالم یہ ہے کہ نچلی سطح سے لے کر اعلیٰ عدلیہ تک کی تنخواہیں کئی گنا بڑھانے کے باوجود ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کے مطابق ایک سو بیالیس ممالک میں ہماری عدلیہ ایک سو تیسویں نمبر پر ہے۔ یاد رہے کہ ہمارے ہمسائے میں ججوں کی تنخواہ ہمارے ججوں کی نسبت کم ہے جبکہ ان کا نمبر اس فہرست میں اناسیواں ہے۔ کسی زمانے میں خطوں میں لکھا جاتا تھا کہ تھوڑے لکھے کو بہت جانیں اور خط کو تار سمجھیں۔ آپ یہ بھی التماس ہے کہ اس تھوڑے لکھے کو بہت جانیں اور دیگر خالی جگہیں خود پُر کر لیں۔
مقننہ کے تو کیا ہی کہنے۔ درج بالا سارا نظام صرف اس وجہ سے درست نہیں ہو سکا کہ ہماری مقننہ نہ صرف خود پیدا گیر ہے بلکہ نالائق اور نااہل بھی ہے۔ اس کی ساری توجہ سہولتوں‘ آسائشوں اور فوائد کے حصول کی طرف ہے جبکہ جس کام میں سب سے پیچھے ہے وہ قانون سازی ہے جو اس کا بنیادی کام ہے۔ مقننہ کا حصہ ہونا سرکاری نوکری نہیں بلکہ محض ایک ذمہ داری ہے لیکن پانچ یا چھ سال کے لیے منتخب ہونے والے لوگ ان پانچ یا چھ سالوں میں اپنا فرض پورا کرنے کے بجائے اپنے الیکشن کا خرچہ بمعہ منافع وصول کرنے کے چکر میں رہتے ہیں اور صرف پانچ چھ سال کے دورانیے کے عوض بقیہ ساری عمر کے لیے سرکاری خزانے میں سوراخ کرکے اس سے مستفید ہونے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔تھوڑا عرصہ پہلے چیئرمین سینیٹ نے دیگر دو تین سابقہ چیئرمینز کے ساتھ مل کر اپنے لیے تاحیات موج میلے کا بندوبست کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ قبلہ صادق سنجرانی سے تو کوئی گلہ نہیں کہ ٹھیکیداری سے ترقی پا کر پردۂ غیب کی اشیر باد سے سینیٹ کا چیئرمین بننے والے سے زیادہ توقعات رکھنا حماقت کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ مبینہ طور پر اس کام میں میاں رضا ربانی نے بھی اُن کی حمایت کی۔ اس پر جہاں افسوس ہوا‘ وہیں مقننہ سے وابستہ تھوڑی بہت سی امیدیں بھی دم توڑ گئیں۔
ابھی پانچ ‘ چھ سال والے ارکانِ اسمبلی اور سینیٹ کی حد تک افسوس کرنے سے فرصت نہیں ملی تھی کہ سہ ماہی ذمہ داری پوری کرنے والوں نے پاؤں پھیلانے شروع کر دیے ہیں۔ فراغت پانے والے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے مطالبہ داغ دیا ہے کہ ان کو عارضی وزارتِ عظمیٰ سے فراغت پانے کے بعد ایک عدد بلٹ پروف گاڑی اور ملازموں کی سہولت دی جائے۔ وہ تو پہلے ہی اپنی سہ ماہی تعیناتی کو گھسیٹ گھساٹ کر دوگنا کر چکے ہیں اور بطور نگران وزیراعظم آئینی مدت تین ماہ میں مزید تین ماہ ڈال کر موج میلہ کر چکے ہیں۔ اس دوران ان کی کارکردگی کا عالم یہ رہا کہ انہوں نے ہر وہ کام بڑی لگن سے کیا جس کے وہ نہ حقدار تھے اور نہ ہی اس کے مجاز تھے اور جو واحد ایک کام ان کے ذمے لگا تھا اس کی انجام دہی میں ناکام ثابت ہوئے؛ تاہم ایک بات طے ہے کہ انہیں بطور نگران وزیراعظم اپنی کارکردگی کا بخوبی علم ہے‘ تبھی وہ بلٹ پروف گاڑی مانگ رہے ہیں۔ حیرانی ہوتی ہے جب معاشی طور پر بدحال ملک کے خوشحال لیڈر ملکی معیشت سے آگاہ ہونے کے باوجود اس ملک کو نچوڑنے سے باز نہیں آتے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں