"KMK" (space) message & send to 7575

بجوکا۔ ایک ٹرکاؤ کالم

قارئین آج کسی خاص وجہ کے بغیر اس فدوی کا دل سستی‘ کاہلی اور کام چوری پر مائل ہے اور ٹرکاؤ قسم کا کالم لکھنے پر آمادہ ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ فدوی اپنی اس حرکت پر نہ تو شرمندہ ہے اور نہ ہی معذرت خواہ کہ جس ملک کے سرکاری ملازمین کی غالب اکثریت مستقل بنیادوں پر کام چوری اور حرام خوری کی علت میں مبتلا ہونے کے باوجود تنخواہیں‘ مراعات اور الاؤنسز وصول کرنے میں فخر محسوس کرتی ہو ایسے میں اگر اس فدوی کا دل ایک دن کام چوری پر آمادہ ہے تو اس میں شرمندگی کی کیا بات ہے؟ کیا یہ کالم نگار مریخ سے آیا ہے کہ اس سے کسی ایسی بات کی توقع نہ کی جائے‘ خود اس ملک کو چلانے والوں کی اکثریت گزشتہ 76 سال سے تو کر رہی ہو مگر ایک معمولی سے کالم نگار کی یہ جسارت ناقابلِ معافی ٹھہرے۔ لہٰذا آج ایک ٹرکاؤ قسم کے کالم پر گزارا کیجئے۔ آج آپ لوگوں کو ٹرخانے کیلئے سریندر پرکاش کے افسانے ''بجوکا‘‘ کی تلخیص پیش کر رہا ہوں۔ اس کی کوئی خاص وجہ نہیں‘ بس آج کام چوری کا موڈ ہے۔
بجوکا کھیت میں فصل کو پرندوں کے نقصان سے بچانے کیلئے ڈراوے کیلئے لگائے جانیوالے گھاس پھوس‘ پرانے کپڑوں اور لکڑیوں کی مدد سے بنائے جانیوالے انسان سے ملتے جلتے ڈھانچے کو کہتے ہیں۔ اسے انگریزی میں Scarecrowکہتے ہیں۔ اس افسانے میں ہوری آزادی کے بعد ہندوستانی عوام کا نمائندہ اور بجوکا بھارت کے نام نہاد جمہوری طرزِ حکومت کی علامت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ سریندر پرکاش نے جس خوبصورتی اور مضبوط بُنت کیساتھ یہ افسانہ لکھا‘ اسکی تلخیص پیش کرنا زیادتی ہے مگر آج اسی پر گزارا کیجئے۔ گندم اگر بہم نہ رسید بھس غنیمت است۔ یہ سراسر افسانۂ علامتی ہے جس سے کئی مفاہیم اخذ کیے جا سکتے ہیں لہٰذا آپ اس سے کیا مفہوم نکالتے ہیں اس عاجز کو اس سے رَتی برابر غرض نہیں ہے۔
ہوری ایک بوڑھا کسان ہے جس کی پلکیں اور بھنویں تک سفید ہو چکی ہیں۔ اس کے دو بیٹے تھے‘ جو اَب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ ایک بیٹا گنگا میں ڈوب گیا تھا اور دوسرا پولیس مقابلے میں مارا گیا تھا۔ دونوں بیٹوں کے مرنے کے بعد بوڑھے ہوری نے دوبارہ ہل کے ہتھے کو پکڑا‘ بیلوں کو ہانک کر اپنی زمین میں ہل چلایا اور فصل کاشت کی۔ دونوں بیٹوں کی بیوگان اور آگے ان کے پانچ بچے تھے‘ جن کی پرورش کا بار ہوری پر تھا۔
اس روز ہوری کے آنگن میں کنویں کے گرد پانچوں بچے ننگ دھڑنگ نہا رہے تھے۔ بڑی بہو کنویں سے پانی نکال کر ان پر انڈیل رہی تھی۔ بچے اپنا پنڈا ملتے ہوئے پانی اچھال رہے تھے۔ چھوٹی بہو روٹیاں پکا کر چنگیر میں ڈال رہی تھی‘ تب ہوری کمرے میں کپڑے بدل کر پگڑی باندھ کر آئینے میں اپنا جائزہ لے کر باہر آنگن میں آیا اور بلند آواز سے پوچھا کہ کیا سب تیار ہیں؟ ہاں باپو! سب بچے ایک ساتھ بولے۔ بہوؤں نے سر پر پلو درست کیے۔ ہوری نے دیکھا سب جھوٹ بول رہے ہیں۔ اس نے سوچا یہ جھوٹ ہماری زندگی کیلئے کتنا ضروری ہے۔ اگر بھگوان نے جھوٹ کی نعمت نہ دی ہوتی تو لوگ تو مر ہی جاتے۔ پہلے ہم جھوٹ بولتے ہیں اور پھر اسے سچ ثابت کرنے کی کوشش میں دیر تک زندہ رہتے ہیں۔ ہوری کی آواز سننے کے بعد اسکی بہوئیں اور پوتے‘ پوتیاں اس جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کیلئے فٹا فٹ تیار ہونے میں جت گئے۔ ہوری نے ایک کونے میں پڑے ہوئے کٹائی کے اوزار اٹھا لیے۔ آج اسکی فصل کی کٹائی کا پہلا دن تھا اور سب تیار ہو کر اپنے کھیت کی طرف چل پڑے۔ ہوری اور اسکے خاندان کیلئے آج تہوار کا دن تھا۔ انکی فصل پک گئی تھی اور کھیت لہلہا رہا تھا۔ سب بڑے چاؤ سے جلداز جلد کھیت پر پہنچنے کی کوشش میں تھے۔ چلو باپو! اسکے بڑے پوتے نے اسکی انگلی پکڑ لی۔ باقی بچے اسکی ٹانگوں سے لپٹ گئے۔ بڑی بہو نے کوٹھڑی کا دروازہ بند کیا اور چھوٹی بہو نے روٹیوں کی پوٹلی سر پر رکھ لی۔
وہ گھر سے نکل کر اپنے کھیت کی طرف چل پڑے۔ اس نے پلٹ کر پیچھے آتے بچوں کو دیکھا۔ وہ بالکل ویسے ہی سانولے اور مریل سے تھے جیسے کسان کے بچے ہوتے ہیں۔ بہوئیں بھی ویسی ہی تھیں‘ جیسی غریب کسانوں کی بیوہ عورتیں ہوتی ہیں۔ چہرے گھونگھٹوں میں چھپے ہوئے اور لباس کی ایک ایک سلوٹ سے غربت اور عسرت ٹپک رہی تھی۔ گاؤں کے آخری مکان سے آگے دور تک لہلہاتے ہوئے کھیت تھے۔ ان کھیتوں سے آگے نالے کے پار سب سے الگ تھلگ اس کا کھیت تھا جس میں لگا ہوا جھونا پک کر تیار ہو چکا تھا۔ انکے کھیت کے آگے دور تک پھیلا ہوا بے آب و گیاہ تھل تھا جو سال بہ سال دھیرے دھیرے آگے سرکتا ہوا ان کی کھیت کی طرف بڑھ رہا تھا۔ ہوری کو یاد تھا کہ یہ تھل پچھلے پچاس سال میں دو ہاتھ آگے بڑھ آیا تھا۔ اسکی دعا تھی کہ بچوں کے جوان ہونے تک تھل اسکے کھیتوں تک نہ پہنچے۔ جب ہوری اپنے کھیت کے قریب پہنچا تو اسنے ایک آواز سنی‘ فصل کاٹنے کی آواز۔ اسکے بدن میں بجلی سے بھر گئی۔ وہ پکارا: ابے کون ہے؟ کوئی جواب نہ ملا تو وہ پھر زور سے للکارا۔ کون ہے حرام کا جنا‘ بولتا کیوں نہیں؟ وہ ہاتھ میں پکڑی درانتی سونت کر آگے بڑھا۔ اچانک کھیت سے ایک ڈھانچہ سا ابھرا اور کہنے لگا: میں ہوں! ہوری کاکا... بجوکا! اسنے اپنے ہاتھ میں پکڑی درانتی ہوا میں لہرائی۔ تم... بجوکا... تم... ارے تمہیں تو میں نے کھیت کی نگرانی کیلئے بنایا تھا۔ بانس کی پھانکوں سے اور تم کو اُس انگریز شکاری کے پرانے کپڑے پہنائے تھے جو وہ جاتے سمے میرے باپ کو دے گیا تھا جو اس کا ہانکا لگایا کرتا تھا۔ تمہارا چہرہ گھر کی ہانڈی سے بنایا اور اس پر اسی انگریز شکاری کا ٹوپا رکھا۔ تو بے جان پتلا میری فصل کاٹ رہا ہے؟ ہوری نے دیکھا کہ بجوکا اسکی ایک چوتھائی فصل کاٹ چکا ہے۔ ہوری نے آگے بڑھ کر اسے دھکا دیا مگر وہ اپنی جگہ سے ہلا بھی نہیں‘ البتہ خود ہوری گر پڑا۔ بجوکا کہنے لگا: کاکا! تم ناحق ناراض ہو رہے ہو۔ میں نے تو اپنے حصے کی فصل کاٹی ہے۔ ہوری چلایا: تم میرے بچوں کا حق کیسے کھا سکتے ہو؟ بجوکا کہنے لگا: یہ میرا حق ہے‘ میں نے کھیت کی حفاظت کی ہے۔ ہوری چلایا: اور تمہارے ہاتھ میں یہ درانتی کہاں سے آئی؟ میں نے تو نہیں دی۔ بجوکا بولا: یہ درانتی خود بخود میرے وجود کے اندر سے آہستہ آہستہ نکلی ہے۔ ہوری چلایا کہ تم ایک تنکا بھی نہیں اٹھا سکتے‘ میں پنچایت میں جائوں گا۔ بجوکا مسکرا کر کہنے لگا: چلو پنچایت بھی کرکے دیکھ لو۔
ہوری کو پنچایت پر یقین تھا کہ پنچایت بجوکا کی زیادتی پر اسکا ساتھ دے گی۔ پنچایت نے دونوں فریقوں کا بیان سنا۔ جس روز فیصلہ تھا‘ ہوری اپنی بہوؤں اور پوتوں پوتیوں سمیت ایک کونے میں فریادی بنا کھڑا تھا جبکہ بجوکا وہاں اس شان اور تمکنت سے آیا کہ چوپال پر موجود سب اسکے ادب اور احترام میں اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔ سرپنچ نے فیصلہ بجوکا کے حق میں کر دیا۔ ہوری کو لگا کہ بجوکا نے ساری پنچایت بلکہ پورے گائوں کا ضمیر خرید لیا ہے۔ وہ پنچایت کا انصاف سے عاری فیصلہ قبول کرنے کے بعد اٹھا اور اپنے پوتوں سے کہنے لگا: شاید یہ میری زندگی کی آخری فصل ہے۔ میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ آئندہ کبھی بجوکا نہ بنانا‘ تمہارے ہاتھوں سے بنایا ہوا فصلوں کا یہ محافظ تمہاری ہی فصل کاٹ لے گا۔ آئندہ کبھی بجوکا نہ بنانا بلکہ میری لاش کو بانس پر باندھ کر اس کھیت میں کھڑا کر دینا۔ بجوکا بے جان نہیں ہوتا۔ اسے زندگی مل جاتی ہے جو اسے درانتی تھما دیتی ہے۔ یہ کہہ کر وہ اپنے کھیت کی طرف چل پڑا۔ کھیت کے قریب پہنچ کر ہوری تیورا کر گرا اور ختم ہو گیا۔ اس کے پوتے پوتیوں نے اسے بانس سے باندھنا شروع کردیا۔ باقی لوگ یہ تماشا دیکھتے رہے۔ بجوکا نے سر پر رکھا شکاری ٹوپا اتار کر سینے سے لگا لیا اور اپنا سر جھکا دیا۔
قارئین! آج اس ٹرکاؤ کالم پر ہی گزارا کیجئے اور خیال کے گھوڑے دوڑائیے‘ علامتی افسانہ ایسا ہی ہوتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں