"KMK" (space) message & send to 7575

بدحال کاشتکار اور خوشحال مافیا …(1)

اس ملک کا نظام چلانے میں جتنے عناصر اور افراد شامل ہیں ان میں سے تقریباً 99 فیصد خواہ اپنے اختیارات کو ان کے دائرے کے اندر یا اس سے بڑھ کر استعمال کریں‘ وہ بہرحال ریاست کے بجائے اپنے ذاتی مفاد کو مقدم رکھتے ہیں۔ ہماری ساری سرکاری مشینری اور اس کے چلانے پر مامور ادارے خواہ وہ انتظامیہ ہو‘ مقننہ ہو‘ عدلیہ ہو یا مقتدرہ ہو‘ سب کے سب اپنے ذاتی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرتے ہیں۔ ان کے فیصلے ہمیشہ ان کے اپنے حق میں جبکہ ملک و قوم کے خلاف جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ متذکرہ بالا اداروں اور افراد کے فیصلے خود ان کیلئے انتہائی نفع بخش‘ سود مند اور فائدے کا باعث جبکہ اس ملک و قوم کیلئے نقصان اور خسارے کا باعث بنتے چلے آ رہے ہیں۔اس ملک میں فوڈ سکیورٹی کیلئے قائم وزارت اور اس سے جڑے کئی محکمے گزشتہ 76سال سے اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں بُری طرح ناکام ٹھہرے ہیں۔ اس ملک کی بنیادی خوراک گندم ہے اور یہ وہ جنس ہے جسے امیر غریب یا چھوٹا بڑا بلا تخصیص استعمال کرتا ہے‘ لیکن ہم اب تک اپنے اس بنیادی اناج کے پیداوار سے لے کر سٹوریج تک اور خرید سے لے کر تقسیم تک کسی بھی پہلو کو سیدھا رُخ نہیں دے سکے۔ پیداوار کا یہ عالم ہے کہ حکومتی نالائقیوں اور تاخیر سے ہونیوالے فیصلوں کے باعث کاشتکار اس فصل کی کاشت شروع ہونے تک اکثر و بیشتر تذبذب کا شکار رہتا ہے۔ آخری دن تک فیصلہ نہیں کر پاتے کہ انہیں کتنے رقبے پر گندم کاشت کرنی ہے اور اپنے کتنے رقبے پر دیگر فصلات کاشت کرنی ہیں۔ اس کی وجہ کچھ اور نہیں بلکہ سیدھا سا نفع و نقصان کا حساب ہے۔ فصلیں کسان اور کاشتکار کی سال بھر کی رزق روزی کا ذریعہ ہیں۔ اب کسی سے یہ توقع رکھنا کہ وہ نفع و نقصان سے بالاتر ہو کر ملک و قوم کی ضرورت کے مطابق فصلیں کاشت کرے تو یہ توقع سوائے حماقت کے اور کچھ نہیں۔ اور خاص طور پر ایسی صورت میں جب ایسا سوچنے والوں نے خود خواب میں بھی اپنے ذاتی مفاد اور پیدا گیری کے علاوہ کچھ نہ سوچا ہو۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ابھی تک ہمارے شماریات کے محکمے اور زرعی پیداوار کا حساب کتاب لگانے والے محکمے اپنی ذمہ داری کو کما حقہ سرانجام دینے میں مکمل طور پر ناکام چلے آ رہے ہیں۔ انہیں اس بات کا کبھی درست اندازہ نہیں ہوا کہ اس ملک میں کس جنس کی کتنی کھپت ہے اور اس کیلئے کتنا رقبہ درکار ہے اور حقیقت میں کتنا رقبہ کاشت ہوا ہے۔ اس معاملے میں عوام کی رہنمائی پر مامور محکموں کے افسر فیلڈ میں کام کرنے کے بجائے ساری منصوبہ بندی‘ اس پر عملدرآمد کی حکمت عملی اور نگرانی صرف اور صرف فائلوں میں‘ خالی کاغذوں میں اور دفتروں میں بیٹھ کر کرتے ہیں‘ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ منصوبے میں اور نتیجے میں کبھی تال میل نہیں ہو سکا۔
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ گندم اتنی زیادہ ہو جاتی ہے کہ منڈی میں ٹکے ٹوکری ہو جاتی ہے۔ نتیجتاً کاشتکار 'رُل‘ جاتا ہے اور کبھی یہ ہوتا ہے کہ گندم ملکی ضرورت سے کم پڑ جاتی ہے‘ تب گندم کی خرید پر مامور سرکاری محکمے کسان سے زبردستی گندم اٹھا لیتے ہیں۔ ایسے وقت میں اس عاجز نے محکمہ فوڈ کے افسروں کو اپنا ٹارگٹ پورا کرنے کی غرض سے تحصیلداروں اور پٹواریوں کی مدد سے کاشتکار کی ذاتی استعمال تک کی گندم کو زبردستی اٹھاتے اور بیج کی گندم کو اپنا ٹارگٹ پورا کرنے کے غرض سے سیڈ کمپنیوں کے اجازت ناموں کے باوجود زبردستی راستے میں چھین کر پسائی والی گندم میں شامل کرتے دیکھا ہے۔ دو سال پہلے بھی ایسا ہوا کہ محکمہ خوراک والوں نے فیڈرل سیڈ سرٹیفکیشن والوں کے اجازت ناموں کے حامل گندم کے بیج کے ٹرکوں کو دورانِ ترسیل راستے میں پکڑا اور اس بیج والی گندم کو فلور ملز کو سپلائی کی جانے والی پسائی والی گندم میں ملا دیا۔ سیڈ کمپنیوں کو عام گندم سے کہیں مہنگی خرید کردہ بیج والی گندم کا عوضانہ عام پسائی والی گندم کے نرخوں کے حساب سے دیا گیا۔ اس سے ملک میں اچھے بیج کی جو شارٹیج پیدا ہوئی وہ ایک علیحدہ کہانی ہے۔اگر گندم زیادہ ہو جائے تو یہ ملک‘ جو گزشتہ ساڑھے سات دہائیوں سے مسلسل گندم کی فصل کی اونچ نیچ کا شکار ہے‘ اس گندم کو سٹور کرنے کی صلاحیت سے عاری ہے۔ ہر دوسرے تیسرے سال یہ بحران پیدا ہوتا ہے اور گندم کی فصل کی بربادی پر رونا روتے ہوئے اس کا اختتام ہو جاتا ہے۔ اگلا سال مختلف نکلتا ہے تو ہم پچھلے بحران کو بھول جاتے ہیں۔ جس سال گندم زیادہ ہوتی ہے اس سال بیوپاری‘ آڑھتی اور فلور ملز مالکان پر مشتمل ٹرائیکا کسان کی منڈی میں خوار ہوتی ہوئی گندم کو اونے پونے خرید لیتا ہے اور کاشتکار روتا رہ جاتا ہے۔ دوسری طرف جب گندم ملکی ضرورت سے کم ہوتی ہے اس سال محکمہ کسان سے ڈنڈے کے زور پر گندم خرید لیتا ہے اور اس شارٹیج کو پورا کرنے کیلئے امپورٹ مافیا بھاری زرِ مبادلہ کے عوض عالمی منڈی سے گندم امپورٹ کرکے ملک میں مہنگے داموں بیچ کر اربوں روپے بنا لیتا ہے جیسا کہ گزشتہ سال ہوا تھا۔
پاکستان کی گندم کی ملکی ضرورت کا تخمینہ 24 ملین ٹن لگایا جاتا ہے اور میرے خیال میں یہ تخمینہ ہی سرے سے غلط ہے‘ خیر! ابھی اس معاملے کو چھوڑیں۔ اس پر بعد میں بات کرتے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ گندم ملکی ضرورت سے کم ہو یا اس کمی کا محض شوشہ ہی چھوڑا جائے تو ایک ہیجانی سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ امپورٹ مافیا فوراً حرکت میں آ جاتا ہے اور ان کے اسمبلیوں میں موجود نمائندے ایسا نقشہ پیش کرتے ہیں کہ لگتا ہے اگر گندم فوری طور پر امپورٹ نہ کی گئی تو شاید ملک میں قحط پڑ جائے گا۔ سارے متعلقہ سرکاری محکمے اور ان میں بیٹھے ہوئے بابو بھی اس سلسلے میں اپنے پنجے تیز کرکے اس امپورٹ میں اپنا حصہ وصول کرنے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں۔ ملکی کاشتکار کو تو اس کی فصل کی پوری قیمت بھی نہیں ملتی اور وسطی ایشیائی ریاستوں اور یوکرین وغیرہ کے کاشتکار کی فالتو اور کمتر درجے کی گندم کے عوض ملک کا اربوں ڈالر زرِ مبادلہ صرف ہو جاتا ہے۔
گزشتہ سیزن میں بھی یہی ہوا۔ ابھی سرکاری گوداموں میں چار ملین ٹن کے لگ بھگ گندم کا ذخیرہ موجود تھا کہ گندم کی شارٹیج کا غلغلہ مچا دیا گیا۔ یاد رہے کہ زمیندار کے گھر میں اور فلور ملز کے گوداموں میں پرائیویٹ خرید کردہ گندم کا سٹاک اسکے علاوہ تھا۔ خیر ادھر ذرا سا شور مچا ادھر شتابی سے گندم کی درآمد کا فیصلہ ہو گیا۔ یہ فیصلہ نگران حکومت کے دور میں اتنی عجلت میں ہوا کہ کسی نے گندم کے ملکی ذخائر اور نئی فصل کی آمد سے قبل ملک میں گندم کی ممکنہ کھپت کا درست تخمینہ لگانے کی شاید ضرورت ہی محسوس نہ کی اور امپورٹ مافیا کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے پہلی قسط میں 20لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی اجازت دے دی۔ اس درآمد میں تاخیر ہوئی تو اسی اثنا گندم کی نئی فصل کے دن بھی قریب آ گئے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اس 20لاکھ ٹن کو بھی کم کر دیا جاتا مگر اس تاخیر سے الٹا نتیجہ نکالا گیا اور مزید 10لاکھ ٹن گندم درآمد کر لی گئی۔ اس درآمد شدہ گندم کا بیشتر حصہ ابھی سٹوروں میں ہی تھا کہ گندم کی نئی مقامی فصل تیار ہو گئی اور اب مقامی کاشتکار کی گندم منڈی میں ٹکے ٹوکری ہو رہی ہے۔اس قسم کی صورتحال کے بعد ذلیل و خوار ہونے کے ساتھ ساتھ مالی طور پر بدحالی کا شکار کاشتکار اگلے سال صرف اپنی ضرورت کی اتنی گندم کاشت کرنے کو ترجیح دے گا جو اسے سال بھر کیلئے درکار ہے۔ کاشتکار کے ساتھ بھی پیٹ لگا ہوا ہے اور اس کی بھی ضرورتیں ہیں جو اس کی فصل کی فروخت سے پوری ہوتی ہیں۔ اسے گندم کی ملکی ضرورت کا احساس ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ کاشتکار قومی خدمت کے چکر میں دیوالیہ ہو جائے اور اشرافیہ کے مختلف طبقہ ہائے فکر اس کے دیوالیہ ہونے کی قیمت پر ارب پتی بن جائیں۔ یہ مافیا ہر بار کاشتکار کی بدحالی کی ٹوکری کے نیچے سے اپنے لیے خوشحالی کا کبوتر برآمد کر لیتا ہے۔(جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں