"KMK" (space) message & send to 7575

کرکٹ اور یادِ ماضی … (2)

ہار جیت کھیل کا حصہ ہے اور اس میں کبھی کبھار ہونے والے اَپ سیٹ بھی کھیل کا حسن ہیں لیکن جس کھلاڑی یا ٹیم کے ساتھ ہر چوتھے دن اَپ سیٹ ہو جائے اس پر تاؤ آنا لازمی ہے کہ اَپ سیٹ تو وہ ہوتا ہے جو بالکل غیرمتوقع طور پر شاذ و نادر وقوع پذیر ہو۔ ہر چوتھے روز ہونے والا اَپ سیٹ کم از کم اَپ سیٹ نہیں رہتا اور ٹیم بھی باعثِ رسوائی بن جاتی ہے۔ ہماری کرکٹ ٹیم کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔
پرانی بات ہے کہ کسی مشاعرے میں بڑے بڑے شاعر موجود تھے اور ایک نوجوان اور نو آموز شاعر نے ایک شعر پڑھا جو عین اسرار الحق مجاز کے ایک شعر جیسا تھا۔ مشاعرے کے آخر میں مجاز نے اس نوجوان سے کہا کہ میاں برخوردار! آپ نے تو ہو بہو ہمارا ہی شعر پڑھ دیا۔ جواباً نوجوان نے کہا کہ حضور! خیال سے خیال ٹکرا گیا ہو گا۔ اسرار الحق مجاز نے کہا: برخوردار! خیال سے خیال ٹکرانے کی بھی خوب کہی۔ ہم نے کبھی سائیکل کو ہوائی جہاز سے ٹکراتے نہیں دیکھا۔ لیکن ہماری کرکٹ ٹیم کو دیکھیں تو مجاز کے خیال کی نفی ہوتی ہے۔ ہماری ٹیم کا ہوائی جہاز ہر چوتھے دن کسی سائیکل سے ٹکراتا ہے اور زمین بوس ہو جاتا ہے۔ ہمارے نہایت ہی پیارے دوست اور شاندار مزاحیہ شاعر ڈاکٹر طاہر شہیر کی پاکستان کرکٹ ٹیم پر ایک شاندار نظم ہے‘ اس کے صرف دو اشعار:
سب سے ہلکی ثابت ہو یا سب کے اوپر بھاری؍پوری ایک نمونہ ہے یہ کرکٹ ٹیم ہماری؍ساری دنیا میں نہ ہوں گے جیسے پلیئر ہمارے؍نوے پر اک آؤٹ نہیں ہے ایک سو دس پر سارے
ایمانداری کی بات ہے کہ مجھے امریکہ سے میچ ہارنے کا افسوس اس لیے نہیں کہ ہم ایک ہلکی ٹیم سے ہار گئے ہیں بلکہ افسوس اور افسوس سے بڑھ کر غصہ اس بات پر ہے کہ ایک پیشہ ور ٹیم پارٹ ٹائم کھلاڑیوں پر مشتمل ایک ٹیم سے ہاری ہے۔ ایک غریب ملک‘ جس کے حکمران گلی گلی کشکول لے کر قرض اور امداد مانگتے پھر رہے ہیں‘ وہ ملک تو اپنی کرکٹ ٹیم پر کروڑوں روپے خرچ کرتا پھرتا ہے اور دوسرا ملک جو ہم سمیت آدھی سے زیادہ دنیا کا مائی باپ ہے‘ اس کی پارٹ ٹائم ٹیم‘ جو شوقیہ کھلاڑیوں پر مشتمل ہے اور اپنے ملک کے خزانے پر دو ڈالر کا بوجھ ڈالے بغیر اس ٹیم کو شکست دے رہی ہے جس کے کھلاڑی مختلف مدات میں ملک سے لاکھوں روپے ماہوار اینٹھتے رہتے ہیں۔ ویسے تو پاکستان میں کسی سرکاری ادارے یا محکمے سے درست معلومات لینا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے اور اس کے لیے عموماً عدالتی حکم کا سہارا لینا پڑتا ہے لیکن جو معلومات اس عاجز کو میسر ہیں اس کے مطابق پی سی بی انتظامیہ اور کھلاڑیوں کی جو ماہانہ تنخواہیں اور دیگر انعامات ہیں‘ وہ کچھ اس طرح ہیں؛ چیف سلیکٹر مبلغ 32 لاکھ روپے ماہوار‘ ہیڈ کوچ 20 لاکھ‘ ڈائریکٹرز (9 عدد) 10 تا 15 لاکھ فی کس‘ جنرل منیجرز سات تا 10 لاکھ روپے فی کس‘ کوچ (5 عدد) 10 تا 12 لاکھ روپے ماہوار۔ اے کیٹیگری والے کھلاڑی 45 لاکھ روپے ماہوار‘ بی کیٹیگری والے کھلاڑی 30 لاکھ روپے ماہوار‘ سی اور ڈی کیٹیگری والے کھلاڑی ساڑھے سات لاکھ سے 15 لاکھ روپے اور فزیوتھراپسٹ 20 لاکھ ماہوار لیتے ہیں جبکہ کھلاڑیوں کے لیے میچ فیس‘ انعامات اور بیرونی دوروں کے اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔ اس ادارے کے چیئرمین‘ چیف آپریٹنگ آفیسر‘ چیف فنانشل آفیسر‘ بورڈ آف گورنرز اور ڈیڑھ درجن اراکین پر مشتمل دو کمیٹیاں‘ میڈیا سیل اور کوآرڈینیرز کا جمِ غفیر علیحدہ سے ہے۔ جیسے فی جہاز پی آئی اے کے ساتھ سینکڑوں ملازمین لٹکے ہوئے ہیں اسی طرح پی سی بی میں ہر کھلاڑی کے بہانے درجنوں مفت بروں کا رزق بھی لگا ہوا ہے۔ کرکٹ ٹیم اور پی سی بی اربوں روپے پر مشتمل ایسا مستقل بوجھ ہے جو اس غریب و نادار قوم نے اپنے مدقوق اور عسرت زدہ ناتواں کندھوں پر اٹھا رکھا ہے اور عالم یہ ہے کہ اس سفید ہاتھی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی کسی پارٹ ٹائم ٹیم سے بھی بری اور کمتر درجے کی ہے۔ ہر ماہ حکومت سے 45 لاکھ روپے سے لے کر سات لاکھ 50 ہزار روپے تک وصول کرنے والے فل ٹائم کھلاڑی امریکہ کی جس ٹیم سے ہارے ہیں اس کا ایک کھلاڑی ٹیکسی ڈرائیور ہے‘ ایک ٹرک چلاتا ہے‘ ایک پرسنل ٹرینر ہے‘ ایک ہائی سکول میں استاد ہے‘ ایک فنانشل اینالسٹ ہے اور دو کھلاڑی آئی ٹی کنسلٹنٹ ہیں‘ ایک کھلاڑی آئی ٹی کا پروجیکٹ منیجر ہے اور ایک ڈیٹا اینالسٹ۔ یعنی تمام کھلاڑی اپنا اپنا کام کرتے ہیں اور اپنی روٹی اپنے زورِ بازو سے پیدا کرتے ہیں۔ سارا سال ٹریننگ کیمپوں اور غیرملکی دوروں سے نا آشنا ہیں حتیٰ کہ وہ امریکہ کی کسی فوجی اکیڈمی میں فزیکل فٹنس کی ٹریننگ جیسی سہولت سے بھی محروم ہیں۔ ویسے ان کھلاڑیوں کو ٹریننگ دینے والوں نے بدنامیوں کے اس موسم میں اڑتا تیر اپنی بغل میں لے کر اپنے لیے مزید جگ ہنسائی کے علاوہ کچھ نہیں کمایا۔ اس ٹریننگ کی تہمت کے باوجود عالم یہ ہے کہ شوقیہ اور پارٹ ٹائم کھلاڑیوں پر مشتمل امریکی کرکٹ ٹیم نے مستقل وظیفہ خواروں پر مشتمل ایک پیشہ ور ٹیم کو باؤلنگ‘ بیٹنگ اور فیلڈنگ میں رگڑا لگا کر میچ جیت لیا۔درج بالا خرچوں میں چیئرمین پی سی بی کا نام نامی اس لیے نہیں لکھا کہ موجودہ چیئرمین پی سی بی کے بارے میں سنا ہے کہ وہ تنخواہ نہیں لیتے۔ تاہم چیئرمین پی سی بی سے وابستہ جو سہولتیں‘ خرچے اور کھانچے ہیں اسکا اندازہ 2021-22ء کی پی سی بی آڈٹ رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسوقت کے چیئرمین کا سالانہ خرچہ‘ علاوہ تنخواہ و الاؤنسز‘ پونے چار کروڑ سے زائد تھا۔ اس پوسٹ سے وابستہ موج میلے کا اندازہ اس سے لگا لیں کہ پی ڈی ایم کی حکومت میں مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کے درمیان نئے چیئرمین پی سی بی کی تقرری پر خاصی کھینچا تانی لگی رہی اور بالآخر زرداری صاحب کی ذاتی مداخلت پر یہ مسئلہ پی پی پی کی جانب سے نامزد کردہ چیئرمین پی سی بی ذکاء اشرف کے حق میں طے ہوا اور دو اتحادیوں کے مابین حالات معمول پر آئے۔
ہمارے قومی کھیل ہاکی کا بھی بہت برا حال ہے مگر وہ کم از کم ملک و قوم پر اتنا بھاری بوجھ نہیں ہیں۔ کسی شخص کا بیٹا قتل کے کیس میں اندر ہو گیا۔ اس نے اس کیس کے سلسلے میں کسی وکیل کی خدمات کیلئے اس سے رابطہ کیا۔ وکیل نے کیس کی تفصیلات سن کر اندازہ لگایا کہ گواہوں کی موجودگی اور دیگر شواہد و ثبوتوں کی بنیاد پر لڑکے کا بری ہونا ممکن نہیں اور اسے سزائے موت ہو جائے گی۔ اس نے لڑکے کے باپ سے کیس لڑنے کی ہامی بھر لی اور 50 ہزار روپے فیس مانگی۔ لڑکے کے باپ نے کم فیس سن کر وکیل کے بارے میں اندازہ لگایا کہ یہ سستا وکیل ہے‘ کوئی اچھا اور مہنگا وکیل کیا جائے۔ اس نے جو دوسرا وکیل کیا اس نے 10 لاکھ روپے مانگے جو اس نے ادا کر دیے۔ لڑکے کو اس کیس میں پھانسی کی سزا ہو گئی۔ کچھ عرصہ بعد لڑکے کے باپ کی اس کیل سے ملاقات ہوئی جس کو اس نے کم فیس کی بنیاد پر اپنے بیٹے کا وکیل نہیں کیا تھا۔ اس وکیل نے کیس کا پوچھا تو اسے بتایا کہ لڑکے کو پھانسی ہو گئی ہے۔ اس وکیل نے فیس کا پوچھا تو بتایا کہ 10 لاکھ فیس دی تھی۔ وہ وکیل کہنے لگا کہ مجھے کیس کا اندازہ تھا اس لیے میں نے آپ سے تھوڑی سی فیس مانگی تھی‘ جو کام آپ نے 10 لاکھ میں کرایا ہے وہی میں نے 50 ہزار میں کروا دینا تھا۔ اربوں روپے کے خرچے کے باوجود نتیجہ وہی نکل رہا ہے جو گلی محلے سے پکڑ کر بنائی جانے والی کوئی بھی ٹیم دے سکتی ہے۔
منیر چودھری اسلام آباد کو پیارا ہو گیا۔ خلیل الرحمان شاہد جوانی میں اپنے مالک کے ہاں حاضر ہو گیا۔ کرکٹ پر گفتگو اور جرمانے قصۂ ماضی بن گئے۔ اگر خلیل الرحمان شاہد حیات ہوتا تو اسے برا بھلا کہنے اور جرمانہ کرنے کے بعد حکومت کو ایک اور خط لکھتے‘ مگر اب یہ حال ہے کہ:
اب نہ چڑیاں ہیں‘ نہ اخبار‘ نہ کپ چائے کا
ایک کرسی ہے جو دالان میں رکھی ہوئی ہے (ختم)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں