"KMK" (space) message & send to 7575

یادش بخیر…(1)

بعض اوقات چیزوں کو اُن کے ظاہری مفہوم و معانی سے دیکھنا چاہیے‘ نہ کہ ان کا مکمل پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے اس کا منطقی اور عقلی تجزیہ شروع کر دیا جائے۔ مثلاً اگر عاشق اپنے محبوب کو کہے کہ میں تمہارے لیے آسمان سے تارے توڑ کر لا سکتا ہوں تو اس جملے کو صرف عاشق کی اپنے محبوب سے محبت اور اس کیلئے کسی بھی حد تک جانے کا اظہار سمجھا جائے نہ کہ آپ زمین سے ستاروں کا فاصلہ ناپ کر اور خلا سے گزرنے کی مشکلات کا تذکرہ کرتے ہوئے عملی طور پر عاشق کے اس دعوے کا تیا پانچہ کرنا شروع کر دیں۔ بعض اوقات چیزوں میں زیادہ مین میخ نکالنے کے بجائے ان کو انجوائے کیا جائے تو مزہ دوبالا ہو جاتا ہے۔
گزشتہ سے پیوستہ کالم میں پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں ستر کی دہائی تک طلبہ کی بھرپور شرکت کے حوالے سے دو سطریں لکھیں تو چند قارئین نے اس زمانے کی کچھ باتیں حوالۂ قلم کرنے کی فرمائش کی۔ پہلے بھی دو چار مرتبہ اس موضوع پر لکھ چکا ہوں‘ تاہم بہت کچھ ہے جو لکھا جا سکتا ہے۔ ان واقعات پر لکھتے ہوئے مجھے یہ خوف ہوتا ہے کہ بعض اعتراض پسند قاری‘ جن کا اصل میدان ہر کالم میں سے کوئی ایک آدھ سطر‘ ایک دو جملے یا کہیں واقعات یا تاریخ کی معمولی سی غلطی کو پکڑ کر اصل موضوع سے تین سو نوری سال کے فاصلے پر واقع اعتراض نکال کر سارے قصے کو بے مزہ کرنا ہوتا ہے۔ طلبہ تحریکوں کے دوران پیش آنے والے واقعات یا اس زمانے کے حالات و واقعات لکھتے ہوئے اس بات کا تو یقین ہوتا ہے کہ بہت سے قاری اس سے لطف لیں گے‘ تاہم اس یقین کے ساتھ اس بات کا بھی یقینِ کامل ہوتا ہے کہ کوئی ایک آدھ ''دانہ‘‘ ایسا بھی ضرور نکلے گا جو ان واقعات کا منطقی‘ تاریخی اور واقعاتی پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے لگ جائے گا کہ اس سیاسی ہلچل کے نتیجے میں شروع ہونے والی فلاں تحریک دراصل فلاں مقصد کے بجائے فلاں مقصد کیلئے چلائی گئی تھی اور اس کے پیچھے فلاں عالمی سازش کار فرما تھی۔ فلاں تحریک کے پیچھے فلاں تھا یا کس تحریک کو کس نے ہائی جیک کر لیا۔ یہ دراصل سب اضافی اور میرے خیال سے غیر متعلق باتیں ہیں کیونکہ جب کوئی تحریک چلتی ہے تو اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی فوری اور جائز وجہ ضرور ہوتی ہے۔ اس میں شامل ہونے والے بہت سے لوگ بلکہ اکثریت ان لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے جو شرحِ صدر سے کسی لالچ‘ ذاتی مفاد‘ کسی بے ایمانی یا غلط مقاصد سے قطعاً بالا تر ہو کر بڑے بے لوث انداز میں نہایت ہی خلوص سے اس تحریک میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں‘ قربانیاں دیتے ہیں اور مصیبتیں اٹھاتے ہیں۔ ایسی صورت میں اگر وہ تحریک بعد ازاں کسی اور رُخ چلی جائے‘ اس سے کوئی طالع آزما اپنا مفاد نکال لے یا اس تحریک کو کوئی فرد یا گروہ اغوا کرکے اپنے مقاصد کے استعمال میں لے آئے تو اس تحریک میں اخلاص اور نیک نیتی سے حصہ لینے والوں کا نہ تو کوئی قصور ہوتا ہے اور نہ ہی ان کی نیت پر شبہ کیا جانا چاہیے کہ عوامی سطح پر چلنے والی بیشتر تحریکوں کے انجام کا کسی کو علم نہیں ہوتا۔ بعض اوقات فوری مقاصد‘ جو بڑے جنیوئن ہوتے ہیں‘ بعد میں پس منظر میں چلے جاتے ہیں اور نئی نئی چیزیں ان کی جگہ آ جاتی ہیں۔ یہ سب کچھ بالکل غیرمتوقع طور پر ہوتا ہے اور حالات اس طرح پٹڑی بدلتے ہیں کہ عام آدمی کو اس کا اندازہ بہت بعد میں ہوتا ہے۔
ایوب خان کیخلاف جب تحریک چل رہی تھی‘ میں گورنمنٹ ہائی سکول گلگشت کالونی میں چھٹی کلاس کا طالب علم تھا۔ یہ سکول طلبہ تحریکوں میں شامل تو نہیں تھا مگر اسکے متاثرین میں ضرور شامل تھا۔ میرا مطلب ہے کہ تب اس سکول پر کسی بھی طلبہ تحریک کا فوری اثر ہوتا تھا اور وہ اسلئے کہ یہ سکول ملتان کے سب سے بڑے اور سیاسی طور پر قائدانہ کردار سرانجام دینے والے ایمرسن کالج کے پہلو میں واقع تھا۔ بوسن روڈ سے نکلنے والی ایک ذیلی سڑک ایمرسن کالج اور گورنمنٹ ہائی سکول گلگشت کالونی کے درمیان تھی۔ سکول کے دروازے کے عین سامنے سڑک کے پار ایمرسن کالج کی عمارت کے درمیان والا چھوٹا سا مستطیل لان تھا جسکے چاروں طرف پھولدار پودے تھے اور ان پر بے تحاشا تتلیاں منڈلایا کرتی تھیں۔ کئی رنگوں والی مختلف تتلیاں‘ کبھی کبھار ان میں سنہری اور چمکدار نیلے پروں والی تتلیاں بھی دکھائی دیتیں جن کو ہم پکڑنے کی کوشش کرتے اور کبھی کبھار وہ ہمارے ہاتھ بھی لگ جاتیں۔ گو کہ آج ملال ہوتا ہے کہ ہم ان کو اپنی کسی کتاب کے درمیان میں پھیلا کر دبا دیتے۔ لیکن ایمانداری کی بات ہے کہ اگر آج میں اُس عمر میں دوبارہ چلا جاؤں تو پھر یہی کچھ ہی کروں گا۔ اگر بندے کا بچپن اس کی جوانی اور بڑھاپے سے مختلف نہ ہو تو پھر ایسے بچپن پر ہی تف ہے۔
میونسپل پرائمری سکول چوک شہیداں کے ٹاٹوں والے سکول سے ڈیسکوں والے سکول میں پہنچے تو دنیا ہی الگ دکھائی دی۔ ساتھ ہی ایک عدد کالج تھا جس میں ہروقت چہل پہل سی لگی رہتی تھی۔ تب ایمرسن کالج دو حصوں میں منقسم تھا۔ ہمارے سکول کے ہمسائے میں آرٹس بلاک تھا جبکہ اس سے ایک فرلانگ دور اس کالج کا سائنس بلاک تھا جس میں ایف ایس سی اور بی ایس سی کی کلاسیں لگتی تھیں‘ پرنسپل آفس تھا' اور اکاؤنٹس آفس کے علاوہ سپورٹس آفس بھی اُدھر ہی تھا۔ ساری ہنگامہ آرائی‘ موج میلہ اور رونقیں آرٹس بلاک میں ہوتی تھیں۔ جب ہم سکول پہنچے تو چند روز بعد ہی اس بلاک میں الیکشن کا ہنگامہ شروع ہو گیا۔ پہلی منزل پر لائبریری کے عین نیچے دو طرف سے کھلا ہوا دالان‘ جسے کرش ہال کہا جاتا تھا‘ ساری رونق اور گہما گہمی کا مرکز ہوتا تھا۔ ہمارے لیے یہ بالکل نئی بات تھی۔ جن دنوں یہ الیکشن ہو رہے تھے ہم چار پیریڈ کے بعد ہونیوالے آدھ گھنٹے وقفے‘ جسے تب آدھی چھٹی کہتے تھے‘ اس وقفے میں معمول کے مطابق سکول کینٹین پر سموسے کھانے یا کالج کے سامنے والے ویران گراؤنڈ کے درمیان میں لگے ہوئے پرانے بَڑ کے درخت کے نیچے گنڈیریوں کے پھٹے سے گنڈیریاں خریدنے کے بجائے کالج کے کرش ہال میں ہونے والے الیکشن کے ہنگامے کو دیکھنے میں لگے رہتے۔ اس دوران مختلف امیدواروں کے تعارفی کارڈ اور پوسٹر اکٹھے کرکے ساتھ لے آتے جو ہمارے کسی کام کے نہیں ہوتے تھے مگر اللہ جانے ہم یہ سب بیکار چیزیں کیوں اکٹھی کر لاتے تھے۔ تاہم دس بارہ دن کی یہ الیکشن مہم ہمارے لیے ایک بالکل نئی چیز تھی اور ہم اس سے اتنے مسحور اور متاثر تھے کہ اسے الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں چھٹی کلاس میں گورنمنٹ ہائی سکول گلگشت کالونی میں داخل ہوا تو ایمرسن کالج کے پہلے الیکشن میں تب فخر بلوچ صدر کا الیکشن جیتا تھا۔ فخر بلوچ بڑے غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا اور اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کیلئے تب نواں شہر چوک کے ایک جنرل سٹور میں سیلز مین کے فرائض بھی سرانجام دیتا تھا۔ سانولے رنگ کا فخر بلوچ کالج کے کرش ہال کی سیڑھیوں کے درمیان بنے ہوئے پلیٹ فارم پر ریلنگ سے جھک کر جب تقریر کرتا تھا تو میرے خیال میں وہ دنیا کا بہترین مقرر تھا۔ ظاہر ہے تب نو دس سال کے بچے کا تجربہ خام‘ علم محدود اور اسکی دنیا تب بہت چھوٹی تھی۔ فخر بلوچ میں شاید اپنی غربت کی وجہ سے بغاوت کا جذبہ بھرا ہوا تھا۔ اس میں بڑا دم تھا اور ایوب خان کے خلاف چلنے والی تحریک میں اس کا یہ باغی پن کھل کر سامنے آیا۔ اس کی جوش بھری تقریریں جلسے اور جلوس میں گویا نئی روح پھونک دیتی تھیں۔ گو مجھے اس کے الفاظ یا متن یاد نہیں مگر میں نے اسکی اس تحریک کے سلسلے میں جو پہلی تقریر سنی وہ ہمارے سکول کے دروازے کے ستون پر کھڑے ہو کر کر رہا تھا۔ ایوب خان کے خلاف جلسے جلوس شروع ہوئے تو ایمرسن کالج سے نکلنے والے جلوس کا پہلا پڑاؤ گورنمنٹ ہائی سکول گلگشت کالونی ہی ہوتا تھا۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں