"KMK" (space) message & send to 7575

ضابطہ فوجداری میں ایک عدد ترمیم درکار ہے

ہم عجب خوش فہم لوگ ہیں کہ اس مملکتِ خدا داد میں جب بھی کسی خاک نشین کا خون سڑک پر کسی امیر زادے یا امیر زادی کی گاڑی تلے رزقِ خاک بنتا ہے تو ہم امید لگا لیتے ہیں کہ اس بار اس خونِ ناحق سے انقلاب نہ بھی آیا تو کم از کم یہ خون ضائع نہیں جائے گا اور اسے انصاف ضرور ملے گا‘ مگر یہ صرف ہماری خوش فہمی ہوتی ہے۔ اس مملکت میں جب تک طاقت کا سرچشمہ آئین و قانون کے بجائے زور اور زر ہے تب تک ہماری خواہشات پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتیں۔ کوئٹہ شہر میں عبدالمجید اچکزئی ایم پی اے نے ٹریفک وارڈن کو سرعام اپنی گاڑی تلے روند دیا۔ واقعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج موجود تھی مگر اچکزئی صاحب باعزت بری ہو گئے۔ لاہور میں سابق وزیر مملکت صدیق کانجو مرحوم کے بیٹے مصطفی کانجو نے ایک سولہ سالہ یتیم لڑکے زین کو سڑک پر معمولی سی تلخ کلامی پر گولی مار کر قتل کردیا۔ بعد ازاں اس کیس کے سارے گواہ اور عینی شاہدین اپنی گواہی سے مکر گئے جن میں ایک عدد ریٹائرڈ کرنل صاحب بھی تھے۔ عدالت نے مصطفی کانجو کو باعزت بری کردیا اور زین کا خون کھوہ کھاتے چلا گیا۔
اسلام آباد کی معروف ترین شاہراہ پر خاتون محتسب کے بیٹے نے اپنی جہازی سائز کی گاڑی سے ایک معمولی سی سوزوکی کو روند کر رکھ دیا۔ چار نوجوان اپنی جان سے گئے۔ جو دوسرے لوگوں کے احتساب پر فائز کیے گئے تھے جب ان کے اپنے احتساب کی باری آئی تو شاملِ احتساب ہونے کے بجائے اپنی طاقت کو اپنے تحفظ کیلئے استعمال کرنے پر آ گئے اور اپنے نوجوان بیٹے کو چار نوجوانوں کے بے گناہ خون کی قیمت پر بری کروا لیا۔ لاہور میں مصطفی کانجو والے واقعے سے قبل اسی طرح کے ایک اور واقعے میں ارب پتی سکندر علی جتوئی کے بیٹے شاہ رخ جتوئی نے اپنے ایک دوست اور سندھ کی جاگیردار تالپور فیملی کے چشم و چراغ سراج تالپور کے ہمراہ ایک نوجوان شاہزیب خان کو گولی مار کر قتل کردیا۔ اس قتل پر پورے ملک میں احتجاج ہوا‘ ملزمان کو عدالت سے سزا بھی ملی مگر بعد ازاں پیسے کی چمک نے سب کچھ چندھیا کر رکھ دیا۔ لیکن واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ پیسہ تو محض اشک شوئی کیلئے دیا گیا‘ وگرنہ اصل محرک تو وہ دباؤ تھا جسے عام آدمی اس معاشرے میں برداشت نہیں کر سکتا۔
اور اب کراچی میں ایک اور ارب پتی سیٹھ کی اہلیہ نے ایک غریب گھر کی طالبہ کو اس کے والد سمیت سڑک پر کچل کر رکھ دیا اور ان دو جانوں کے علاوہ دیگر کئی افراد کو بھی روند دیا۔ بات محض اتنی نہیں کہ یہ ایک روڈ ایکسیڈنٹ ہے۔ سڑک پر حادثات ہوتے رہتے ہیں یہ اور بات ہے کہ ہمارے ہاں یہ واقعات باقی دنیا کی نسبت بہت زیادہ ہوتے ہیں لیکن سڑک پر حادثات کا ہونا نہ تو حیرانی کی بات ہے اور نہ ہی کوئی عجوبہ ہے‘ لیکن اس حادثے کے بعد جو کچھ ہوا ہے اس میں بعض ریاستی اداروں کا کردار حیران کن بھی ہے اور شرمناک بھی۔سب سے پہلے تو وہ رپورٹ شرمناک ہے جو ڈاکٹر نے دی ہے کہ ملزمہ ڈرائیونگ کے وقت کنفیوژ تھی۔ اس عاجز نے اپنی ساری عمر میں اس سے قبل کسی بھی روڈ ایکسیڈنٹ میں ملزم کے بارے میں اس قسم کی رپورٹ نہیں پڑھی۔ ممکن ہے یہ میری نااہلی اور نالائقی ہو مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسی ایکسیڈنٹ میں کنفیوژ ہونا نہ تو حیران کن ہے اور نہ ہی کسی اچنبھے کی بات‘ کہ بہت سے واقعات میں ڈرائیور کنفیوژ ہو جاتا ہے اور بجائے بریک مارنے کے ایکسیلریٹر پر پاؤں رکھ دیتا ہے۔ کبھی کنفیوژ ہو کر بریک لگانا سرے سے بھول ہی جاتا ہے اور حادثے کے دوران اس کے بچنے کیلئے ملنے والے وقت میں کنفیوژن کے باعث بروقت فیصلہ کرنے میں ناکام رہتا ہے اور حادثہ وقوع پذیر ہو جاتا ہے۔اب بھلا کنفیوژ ہونا ایسا کون سا بڑا مسئلہ تھا کہ اس کی بنیاد پر عدالت نے سرے سے ریمانڈ دینے سے ہی انکار کردیا۔ ڈاکٹر کو اپنی میڈیکل رپورٹ میں لکھنا چاہیے تھا کہ نہ صرف ملزمہ کنفیوژ ہے بلکہ اس کی دولت اور طاقت کے سامنے پولیس کا محکمہ بھی کنفیوژ ہے‘ عدالت کنفیوژ ہے‘ آئین و قانون کنفیوژہے‘ پورا میڈیکل کا شعبہ کنفیوژہے کہ ہم کس قسم کی کنفیوژن زدہ رپورٹ لکھ رہے ہیں۔
شاہ جی ہر بات سے کوئی نہ کوئی عجیب و غریب تاویل برآمد کر لیتے ہیں۔ کہنے لگے: خاتون ڈرائیور نتاشا دانش‘ جو ایک بہت بڑے بزنس مین کی اہلیہ ہیں‘ نے اقراء یونیورسٹی کی طالبہ آمنہ عارف‘ جو اپنے والد عمران عارف کے ساتھ موٹرسائیکل پر جا رہی تھی‘ کو پیچھے سے نہ صرف ٹکر ماری بلکہ ٹکرانے کے بعد اسے کافی دور تک روندتی گئی اور اس دوران تین دیگر افراد بھی اس کی زد میں آکر زخمی ہو گئے‘واقعتاً یہ کنفیوژن کا نتیجہ تھا۔ میں نے حیرانی سے پوچھا: بھلا اس میں کنفیوژن کہاں سے آ گیا۔ شاہ جی کہنے لگے: تمہی نے ایک بار ایک لطیفہ نما واقعہ سنایا تھا کہ ایک باؤلر بہت خراب باؤلنگ کروا رہا تھا اور بیٹنگ والی ٹیم اس باؤلر کی خراب باؤلنگ سے فائدہ اٹھا کر دھڑا دھڑ رَن بنا رہی تھی۔ کپتان نے اس باؤلر سے باؤلنگ کروانی بند کی اور دوسرے باؤلروں کو آزمانا شروع کردیا۔ اسی دوران نئی بال آ گئی۔ نئی بال دیکھ کر اسی باؤلر کی رال ٹپک پڑی اور وہ کپتان سے جا کر کہنے لگا کہ اسے اس نئی بال سے ایک اوور کرانے دیا جائے۔ کپتان کو اس کی ملتجی سی صورت پر ترس آ گیا اور اس نے بال اس باؤلر کو پکڑا دی۔ بال ہاتھ میں لے کر وہ کپتان سے کہنے لگا کہ آپ دیکھئے گا اب میں اسے اپنی سپیشل بال کراؤں گا اور یہ بیٹسمین کنفیوژہو جائے گا۔ باؤلر نے بال کرائی اور بلے باز نے اسے چوکا جڑ دیا۔ باؤلر نے شرمندگی سے کپتان کی طرف دیکھا تو کپتان نے اسے تھپکی دیتے ہوئے کہا: واہ کیا شاندار بال تھی۔ تم نے واقعتاً اس بیٹسمین کو کنفیوژ کردیا تھا اسے بالکل سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ اس بال پر چوکا مارے یا چھکا مارے۔اسی طرح اس کنفیوژ ڈرائیور خاتون کو بھی دورانِ ڈرائیونگ پیدا ہونے والے کنفیوژن کے باعث بالکل سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ اپنی جہازی گاڑی کی بریک مارے یا پھر پیچھے سے اس موٹر سائیکل کو ٹکر مارے۔ اور ٹکر مارنے کے بعد بھی وہ کافی کنفیوژ تھی کہ گاڑی کو روکے یا مسلسل اس موٹرسائیکل کو رگیدتی چلی جائے۔ وہ تو شکر ہوا کہ گاڑی الٹ گئی وگرنہ خدا جانے اس کا یہ کنفیوژن ابھی اور کیا گل کھلاتا۔
میرا ذاتی خیال ہے کہ حکومت کو اس سلسلے میں عوام میں پیدا ہونے والی بے چینی اور ایسے حادثات سے جنم لینے والی خوش فہمی ٹائپ خیالات سے نجات حاصل کرنے کیلئے باقاعدہ قانون سازی کرنی چاہیے۔ جس طرح انگریزوں نے اپنے وفاداروں کو نوازنے کیلئے غداروں اور باغیوں کی قیمت مقرر کر دی تھی کہ ٹوڈیوں اور کاسہ لیسوں کو فی باغی جان لینے کے عوض بیس روپے نقد یا ایک مربع اراضی عطا کی جائے گی اسی طرح سڑک پر مرنے والے ان خاک نشینوں کی قیمت مقرر کردی جائے۔ شاہ جی کہنے لگے: بھلے خاک نشین کی زندگی‘ جو سرے سے تہمت ہے‘ کی کیا قیمت لگے گی؟ میں نے کہا: شاہ جی خاک نشین کی زندگی کی قیمت اسے مارنے والے کی حیثیت سے مقرر کی جائے۔ یعنی ارب پتی کسی کو جان سے مار دے تو وہ مرنے والے کی جان کی قیمت اپنی دولت کی شرح فیصد کے حساب سے ادا کرنے کا پابند ہوگا۔ یہ عوضانہ اس کی کُل دولت کا ایک‘ دو فیصد ہو سکتا ہے جو بآسانی کروڑوں روپے بن جائے گا۔ اس قانون سے خاک نشینوں کی آئندہ کیلئے ایف آئی آر درج کرانے کی مصیبت‘ عدالتوں کے چکروں‘ وکیلوں کی فیس اور خواہ مخواہ میں انصاف سے وابستہ امیدوں سے جان چھوٹ جائے گی۔ شاہ جی کہنے لگے: اور اگر کوئی امیر زادہ کسی غریب کی گاڑی تلے آ گیا تو کیا بنے گا؟ کیا وہ غریب بھی اپنی مالی حیثیت کے مطابق اس کی دیت ادا کرے گا؟ میں نے کہا: شاہ جی! آپ بھی بھولے آدمی ہیں۔ آپ نے کبھی کسی موٹرسائیکل سے کسی لینڈ کروزر کو یا کسی سائیکل سے کسی ڈبل کیبن ڈالا کو روندتے دیکھا ہے؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں