عشرہ ٔ محرم کا آج آخری دن ہے۔امن کی طلب میں ہاتھ دعا کے لیے اٹھے ہیں۔واہگہ سرحد کے حادثے سے فضا پہلے ہی سوگوار ہے۔دہشت گردی اور فرقہ واریت،دو عفریت ہمارے جسدِ قومی سے کچھ اس طرح لپٹے ہیں کہ الگ ہو نے کا نام نہیں لے رہے۔
1979ء میں دنیا دو اہم واقعات سے گزری۔پاکستان کچھ اس طرح ان کی گرفت میں آیا کہ پینتیس سال گزرجانے کے بعد بھی،نکل نہیں سکا۔ایک افغانستان پرسوویت یونین کا قبضہ اور دوسرا ایرانی انقلاب۔افغانستان پر سوویت یونین کا قبضہ ہوا تو امریکہ نے مزاحمت کا ارادہ کیا۔سرخ انقلاب کے زخم رسیدہ اس کے دست و بازو بن گئے۔ پاکستان نے ہروال دستہ بننے کا فیصلہ کیا۔جنرل ضیا الحق نے مذہبی جماعتوں کی معاونت سے ایک تباہ کن پالیسی اختیار کی۔انہوں نے پاک فوج ہی کو نہیں،پورے سماج کو اس جنگ میں جھونک دیا۔ ضیا الحق صاحب نے مذہبی جماعتوںکی مدد سے اس معرکے کو جہاد ثابت کیا۔اس تصور کاا بلاغِ عام کیا گیا اورنتیجے میں نجی جہادی تنظیمیں قائم ہوئیں۔سوویت یونین کاخاتمہ ہوا مگر جہاد کا تصور زندہ رہا اوروہ تربیت یافتہ لوگ بھی مو جود رہے جو اس جذبے سے سرشار تھے۔انہیں ایک نئے میدانِ جنگ کی ضرورت تھی۔پاک فوج تو ایک نظم کے تابع تھی۔وہ اپنی بیرکوں میں لوٹ گئی۔مجاہدین جہاد کا علم لے کر نکلے تھے۔انہیں بتایا گیا تھا کہ جہاد قیامت کی صبح تک جاری رہے گا یہاں تک کہ اسلام غالب آ جائے۔سوویت یونین کے خاتمے سے اسلام تو غالب نہیں آیا،اس طرح جہاد جاری رہا۔ اب اس کا ہدف نیا طاغوت امریکہ یا وہ لوگ تھے جو اس کے معاون تھے۔ظاہر ہے کہ اس فہرست میں سرِ فہرست مسلمان حکمران تھے۔واہگہ بار ڈر کا حادثہ اسی فکرکا تسلسل ہے۔
1979ء ہی وہ سال ہے جب ایران میں انقلاب آیا۔ابتدا میں تاثر یہی تھا کہ یہ اسلامی انقلاب ہے۔ پاکستان میںہر مکتبِ فکرنے اس کاخیر مقدم کیا۔دو اسباب سے مگر یہ انقلاب ایک مسلک تک محدود ہو گیا۔ایک یہ کہ انقلاب کے بانیوں نے انتقالِ انقلاب کا تصور پیش کیا۔اس سے ایک خاص مسلک میں پیدا ہونے والی گرم جو شی نے دوسرے مسلک میں بے چینی کو فروغ دیا۔یوں ایک ردِ عمل کا اظہارہوا۔اس نے پاکستان میں فرقہ واریت کی لکیر کو گہرا کردیا۔دوسرا سبب مشرقِ وسطیٰ میں آنے والی سیاسی تبدیلی تھی۔انقلابِ ایران سے پہلے اس خطے کی سیاست پر امریکہ کا مکمل قبضہ تھا۔مشرقِ وسطیٰ کے اہم ترین ممالک امریکی اتحادیوں میں شامل تھے۔اس وجہ سے اس خطے میں داخلی سطح پر کوئی بڑا تصادم مو جود نہیں تھا۔انقلاب کے بعد ایران امریکی کیمپ سے نکل گیا۔یہی نہیں، اس نے امریکی اثرات کی مزاحمت کا بھی فیصلہ کیا۔انتقال ِا قتدار کے تصور کے ساتھ،اس تبدیلی نے مشرقِ وسطیٰ کی قوتوں اور امریکہ کو اضطراب میں مبتلا کیا اور اب اس خطے میں ایک تصادم کا آ غاز ہوا۔شیعہ سنی تقسیم گہری ہونے لگی۔ ولی رضا نصرنے اپنی کتاب 'شیعہ احیا‘(Shia Revival) میں اس کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ انہوں نے بتا یا ہے کہ اس انقلاب سے پہلے مشرقِ وسطیٰ کے ممالک میں شیعہ، قومی تحریکوں کا حصہ تھے۔ اب وہ اپنے مذہبی تشخص کے ساتھ منظم ہو نے لگے۔عراق ایران جنگ سے لے کر بحرین کے داخلی خلفشار تک،اس تبدیلی کے مابعداثرات ہیں جو ایرانی انقلاب سے آئی۔پاکستان مشرقِ وسطیٰ کی سیاست کے براہ راست متاثرین میں سے ہے۔وہاں مو جود اختلاف ہمارے ملک میں مو جود تقسیم کو مزید گہرا کر دیتا ہے۔
افغانستان کی جنگ اور انقلابِ ایران اگرچہ الگ الگ دہشت گردی اور فرقہ واریت کے مآخذ ہیں، لیکن ایک مقام ایسا بھی ہے جہاں دونوں کے اثرات جمع ہو جاتے ہیں۔افغانستان میں جب طالبان کی حکومت قائم ہوئی تووہ ایک خاص مسلک کی حکومت تھی۔انہوں نے پاکستان کے ہم مسلکوں کودوسرے مسلک کے خلاف، ہر وہ آ سانی فراہم کی جو وہ کر سکتے تھے۔دوسری طرف کے لوگوں نے مدد کے لیے ایران کی طرف دیکھا۔اس سے ان واقعات نے جنم لیا جو دہشت گردی اور فرقہ واریت کا اجتماع تھے۔1979ء کو میں اس لیے تبدیلی کا سال کہتا ہوں کہ اس سے پہلے پاکستان میں دہشت گردی تھی نہ فر قہ واریت۔شیعہ سنی پہلے بھی یہیں رہتے تھے۔علمی سطح پر اختلاف کا اظہار بھی ہوتا تھا۔کہیں کہیں مناظرے کی فضا بھی تھی۔اس سب کچھ کے با وجود شیعہ سنی اختلاف کبھی سماجی مسئلہ نہیں بنا۔1979ء سے پہلے1963ء میں،خیرپور سندھ کا ایک واقعہ بیان کیا جا تا ہے جہاں یہ اختلاف ایک حادثے میں بدلا۔
آج ہم وہی کاٹ رہے ہیں جو1979ء میں بویا گیا تھا۔آج یہ امن و امان کا مسئلہ ہے اور اس کے ساتھ سماجی بھی۔ امن و امان کا مسئلہ تو ریاست ہی حل کر سکتی ہے کہ فسادیوں کے پاس ہتھیار ہیں۔سماجی پہلو کے لیے سماجی اداروں کو بروئے کار آنا ہو گا جن میں سر فہرست علماء اور مذہبی قیادت ہے۔میرے نزدیک چند اقدات ناگزیر ہیں۔
1۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی مسلکی اختلاف کے پہلو سے نظر ثانی کی محتاج ہے۔'برادراسلامی ممالک‘ کے تصورکو اب ایک نئے زاویے سے دیکھنے کی ضرورت ہے اور وہ ہے اسلامی ممالک کا مسلکی تشخص۔
2۔ پاکستان میںنجی سطح پرجاری مذہبی سرگرمیوں کی ریاست کی خارجہ پالیسی سے ہم آہنگی بھی ضروری ہے۔مثال کے طور پر اگر بھارت کے ساتھ جنگ ناگزیر ہے اوراس کے لیے عام آ دمی کی شرکت بھی لازم ہے تو حکمت ِ عملی ریاست بنائے کہ اس مقصد کو کیسے حاصل کر نا ہے۔یہ کام اعلانیہ ہو نا چاہیے۔آج ایک طرف ریاست کی پالیسی یہ ہے کہ وہ امریکہ اور بھارت کے ساتھ دوستی کا دم بھرتی ہے، دوسری طرف نجی سطح پر ایسی جماعتیں ہیں جو ان ممالک کے خلاف اعلانِ جہاد کر رہی ہیں۔ لوگوں کو امریکہ اور بھارت کے خلاف جنگ پر ابھار رہی ہیں اور اس مقصد کے لیے دینی استدلال فراہم کر رہی ہیں۔اس تبلیغ سے جو ذہن تیار ہو تاہے وہ بھارت اور امریکہ کے خلاف جہاد کو ایک دینی تقاضا سمجھتا ہے۔دوسری طرف وہ دیکھتا ہے کہ حکومت ان ممالک سے دوستی کی پینگیں بڑھا رہی ہے۔یوں وہ خیال کر تا ہے کہ ریاست کے حکمران ان قوتوں کے ایجنٹ ہیں۔اس لیے جہاد کا آ غاز ان ہی سے کر نا چاہیے۔اس تضاد کو دور کر نا ریاست کی ذمہ داری ہے۔
3۔ملک میں بے لگام مسلکی مبلغین کی بہتات ہے۔عوامی اجتماعات میںان کی تقاریریو ٹیوب وغیرہ پر موجود ہیں۔ریاست ان کو لگام دیتی ہے نہ مذہبی(مسلکی) جماعتیں ان سے لاتعلقی کا اظہار کر تی ہیں۔ان لوگوں کو روکے بغیر امن نہیں آ سکتا۔
4۔ پورے عالمِ اسلام میں مذہبی سرگرمیوں کی تنظیم ریاست کر تی ہے۔پاکستان میں ریاست ان سے لاتعلق ہے اور مذہبی گروہ ان معاملات میں ریاست کی رٹ ماننے کو تیار نہیں۔ وہ اسے مداخلت فی الدین سمجھتے ہیں۔مسجد کے قیام سے لے کر مذہبی جلوس کی برآمد تک، ہر فیصلہ نجی سطح پر ہو تا ہے، ریاست کی سطح پر نہیں۔پچھلے سال دس محرم کو راولپنڈی میں ہو نے والا حادثہ اسی سبب سے ہوا۔میرا خیال ہے کہ اس پر قانون سازی اب ناگزیر ہو چکی۔میری تجویز ہو گی کہ ان تمام مذہبی سرگرمیوں کو عبادت گاہوں تک محدود کر دینا چاہیے جن سے مطلوب کسی خاص مذہبی تشخص کا اظہار ہے۔
ایک بات بہر حال طے ہے۔تشدد سے کسی نظریے کو ختم کیا جا سکتا ہے نہ کسی گروہ کو۔فساد سے ہم صرف اللہ کے غضب کو آواز دیتے ہیں۔