"KNC" (space) message & send to 7575

اخلاقی ساکھ سے بے نیازی

کیا سیاست نے اخلاقیات کو طلاقِ بائن دے دی؟اخلاقی برتری کا تصورکیااپنے معانی کھو چکا؟پارلیمان میں تحریکِ انصاف کی آمدِ ثانی پرسیاسی جماعتوں کا طرزِ عمل، پیپلزپارٹی کے سوا،افسوس ناک تھا۔ تحریکِ انصاف کی واپسی پارلیمان اوراس میں بیٹھی جماعتوں کی اخلاقی فتح تھی۔ یہ آ مد ہی سابقہ سیاست سے رجوع کااعلان تھا۔ آٹھ ماہ میں انہیں اندازہ ہو گیا کہ وہ خود کش سیاست کر رہے ہیں۔ایسی سیاست جو ان کی ہلاکت کے ساتھ، سیاسی عمل کی شہادت کا باعث بھی بنے گی۔ پھر یہ بھی واضح ہوگیا کہ یہ سیاست کسی اورکی تھی۔ عمران خان کا شعری ذوق ہوتا تو اس موقع پر انہیں مصطفی زیدی ضرور یاد آتے:
وہ داستاں تھی کسی اور شہزادے کی
میرا لہو تھا فقط زیبِ داستاں کے لیے
یہ ن لیگ کی فتح تھی۔اِس جماعت کو ایک موقع ملاتھا کہ وہ اخلاقی برتری کا مظاہرہ کرتی، آگے بڑھ کر آنے والوں کا استقبال کرتی، ان کے لیے اپنی باہیں پھیلادیتی۔ یہ ن لیگ تھی جو انہیں بار بار واپسی کی دعوت دے رہی تھی۔ اس کے ارکانِ پارلیمنٹ تحریکِ انصاف کو خوش آ مدید کہتے ، انہیں بولنے کا موقع دیتے اور زبانِ حال سے یہ پیغام دیتے کہ جمہوریت میں بات کہنے کا فورم یہی ہے۔ میں خوش گمان تھا کہ یہ خواجہ آصف ہیں جو جذبات کو تھام نہیں سکے، یہ ان کاذاتی فعل ہے اور یقیناً نوازشریف صاحب اس پر اظہارِ ناپسندیدگی کریں گے۔ معلوم ہوا یہ میری خوش گمانی تھی۔ وزیر اعظم کے ترجمان نے قوم کو یہ بتانا ضروری سمجھا کہ جماعت کے سربراہ نے اس اندازِ گفتگوکا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ میں اس بیان میں بین السطوریہ لکھا ہوا پڑھتا ہوں کہ اس گفتگوکو وزیراعظم کی اگر پہلے نہیں تو بعد میں ضرور تائید حاصل ہوگئی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ کوئی بچہ سر بازار بد تمیزی کرے،خبر پھیلے کہ باپ نے اس پر بیٹے کی سرزنش کی ہے۔ اگر باپ اس خبر کی تردید کردے اور اعلان کرے کہ اس نے بیٹے کوکچھ نہیں کہا تو اس کامفہوم،اس کے سوا کیا ہو سکتا ہے کہ بیٹے کو باپ کی تائید حاصل ہے۔ ترجمان صاحب خاموش رہتے تو خوش گمانی قائم رہتی۔
مو لانا فضل الرحمن شاید وہ سیاست دان ہیں جو اپنی اخلاقی شہرت کے بارے میں سب سے زیادہ غیر حساس ہیں۔ ایسی بے نیازی پیغمبروں میں ہوتی ہے یا ان میں جن کے ہاں اخلاقیات ایک بے معنی تصور ہے۔ ختمِ نبوت کے بعد تو دوسرا امکان ہی باقی ہے۔
مولانا نے بھی اس موقع کو ضائع نہیںکیا۔ ایک دفعہ پھر بتادیا کہ اخلاق کے معاملے میں ان سے کسی مختلف رویے کی توقع نہ رکھی جائے۔ وہی طعنے کی زبان جوگلی بازار میں لوگ بولتے ہیں۔ مولانا مودودی سے رہنمائی کاتو میں انہیں مشورہ نہیں دے سکتا لیکن اکابر علمائے دیوبندکی طرف تو متوجہ کرسکتا ہوں۔کاش وہ کبھی مو لانا اشرف علی تھانوی کے مواعظ یا حکایات ہی پڑھ لیتے۔ ایک عالمِ دین کی شہرت رکھنے والا اگر سیاست میں اپنی اخلاقی ساکھ کے بارے میں حساس نہیں ہے تو مذہبی سیاست کا کیا فائدہ ؟لیکن مولانا ہم سے زیادہ جانتے ہیں کہ سیاست میں سود و زیاں کے پیمانے کیا ہیں۔ اے این پی کسی دور میں روایتی سیاست کا نمونہ تھی۔اب وہ باتیں بھی خواب وخیال ہوئیں۔آج یہ اسفند یار اور امیر حیدر ہوتی کی پارٹی ہے۔ اب تویہاںمیاں افتخار بھی اجنبی دکھائی دیتے ہیں۔ رہی ایم کیو ایم توان کے معاملے میں ہم جیسوں کو خاموشی ہی زیبا ہے۔
عمران خان نے بھی سوچاکہ اس معاملے میںوہ کسی سے پیچھے کیوں رہیں؟آٹھ ماہ میں انہوں نے کامیاب کوشش کی ہے کہ اخلاقی حوالے سے، وہ دوسروں سے مختلف دکھائی نہ دیں۔انہوں نے اپنے امتیازات مٹانے کی سر توڑ کوششیں کیں اور اس میں کامیاب رہے۔ خواجہ آصف کے جواب میں انہوں نے جوکچھ ارشاد فرمایا، اس سے انہوں نے واضح کر دیا کہ اخلاقی ساکھ کے بارے میں وہ بھی زیادہ حساس نہیں ہیں۔ مقابلہ اب اعلیٰ اخلاقی روایات کا نہیں ،مقابلہ یہ ہے کہ اخلاقی ابتری میں قیادت کاعَلم کہیں دوسرے کے ہاتھ نہ لگ جائے۔
ہمارا سماج اگرچہ ارتقائی مراحل طے کر رہا ہے مگر یہ تہذہبی سے زیادہ مادی ہیں۔ ہمارے اہلِ سیاست کا اخلاقی رویہ ماضی کے مقابلے میں زیادہ قابلِ اعتراض ہوتا جا رہا ہے۔کہاں قائد اعظم اور ابوالکلام آزاد اورکہاں خواجہ آصف اور شیخ رشید۔ جسے ہم سیاسی بلوغت کہتے ہیں، کبھی کبھی خیال ہو تا ہے کہ وہ بھی محض دکھاوا ہے جس کی بنیاد مفادات پر ہے۔ جمہوریت سے اہلِ سیاست کوبطور تصورِ سیاست کوئی دلچسپی نہیں۔ وہ اسے اپنی بقاکا ایک حیلہ سمجھتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو جمہوریت کا پہلاظہور سیاسی جماعتوںکے کلچر میں ہوتا۔
سوال یہ ہے کہ ن لیگ نے اس ردِ عمل کا مظاہرہ کیوں کیا؟ میرا خیال یہ ہے کہ بطور جماعت اس وقت ن لیگ کا کوئی وجود نہیں ہے۔ پارلیمان میں بیٹھے لوگ نہیں جانتے کہ ایک جماعت کی حیثیت سے، ان کی پالیسی کیا ہے۔ جس کی سمجھ میں جو آیا،وہ کر گزرا۔ میرے علم میں نہیں ہے کہ اجلاس سے پہلے کہیں طے ہوا ہو کہ تحریکِ انصاف جب پارلیمان میں واپس آئے گی تو ن لیگ کی پالیسی کیا ہوگی۔ تحریکِ انصاف میں اس مشاورت کے شواہد مو جود ہیں کہ پارلیمان میں دوبارہ آ مد کا فیصلہ مل بیٹھ کر کیا گیا اور ایک پالیسی اختیار کی گئی؛ تاہم عمران خان نے پارلیمان میں شرکت کے بعد جو راگ الاپا اس سے اندازہ ہوا کہ یہ ردِ عمل ان کا اپنا ہی اجتہاد تھا۔ وہ اب بھی اپنے تضادات کے ساتھ نباہ کر نا چاہتے ہیں اوران اقدامات کو درست کہہ رہے ہیں جن پر وہ عملاًخطِ تنسیخ کھینچ چکے۔
اہلِ سیاست کو اپنے عمل سے ثابت کرناہوتا ہے کہ جمہوریت کے ساتھ ان کی وابستگی کس حد تک دیانت دارانہ ہے۔ جمہویت مفاہمت کے نام پرایک دوسرے کے جرائم پر پردہ ڈالنے کا نام ہے نہ مخالفت کے نام پردوسروں کی کردار کشی کا۔ یہ اداروں کو مستحکم کر نے کا نام ہے۔ ان میں سرِ فہرست پارلیمان ہے۔ اس ادارے پر عوامی اعتماد ابھی پوری طرح بحال نہیں ہوا۔ یہ کام اہلِ سیاست کا ہے۔ یمن اور سعودی عرب کے تنازع پر ہونے والے اجلاس میں جو کچھ ہوا، وہ پارلیمان کی کوئی اچھی صورت پیش نہیں کرتا۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ وہاںاعلیٰ درجے کی بحث ہوتی۔ عوام کو معلوم ہوتاکہ جن لوگوں پر اعتماد کرتے ہوئے،قوم نے انہیں پارلیمنٹ میں بھیجا ہے،وہ نہ صرف معاملات کو سمجھتے ہیں بلکہ انہیں حل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔پھر یہ کہ وہ اخلاقی اعتبار سے ایک برتر مقام پر کھڑے ہیں۔ ہر سیاست دان یہ گمان رکھتا ہے کہ وہ سیاست کے افق سے ہٹا تو ہمالیہ روئے گا۔ جب ایسا نہیں ہو تا تو وہ مایوسی کی گہری دھند میں اتر جاتا ہے۔اس عہد کے اہلِ سیاست کو دیکھنا ہے کہ وہ اپنے لیے کس مستقبل کی امید رکھتے ہیں۔ سب سے زیادہ ن لیگ کو سوچنا ہے۔ اگر وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پارٹی کی ذمہ داریاں ادا نہیں کر سکتے تو ان پر فائز رہنے کا کوئی جواز،کیا ان کے پاس مو جود ہے؟
مارشل لاء سے بچنے کا سب سے موثر ذریعہ ایک بہتر متبادل ہے، اخلاقی اورذہنی دونوں حوالوں سے۔ اس متبادل کی فراہمی اہلِ سیاست کا ذمہ ہے۔ پارلیمان کی بالادستی تب ہی ممکن ہے جب یہ ادارہ اپنی اخلاقی اور نظری برتری کو عوامی نظر میں مستحکم کر دے۔ دوسروںکی خامیوں کے سہارے جینے والے یہ کام نہیں کر سکتے۔ اس باب میں دوآرا نہیں کہ جمہوریت کو پارلیمان کے ساتھ ہی آگے بڑھنا ہے۔ سیاست میں خیرکا ہر راستہ یہیں سے نکلے گا۔ اس لیے اہلِ سیاست کو زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں