ہم جسے پسند کرتے ہیں‘اس کے لیے عذر تراشتے ہیں۔یہ نجی معاملات میں ہو تا ہے اور قومی زندگی میں بھی۔
''وہ خود تو اچھا ہے مگر اسے مشیراچھے نہیں ملے۔‘‘یہ وہ چلتاساجملہ ہے جو لوگ اپنے پسندیدہ سیاسی راہنما کی ناکامیوں پر بطور عذرپیش کرتے ہیں۔یوں اس کی گردن سے اس کی تمام ناکامیوں کا بوجھ اُترجاتا ہے۔اس کے ساتھ محب اور محبوب کا تعلق بھی متاثر نہیں ہو تا۔خود فریبی کے جو طریقے‘ا نسان نے ایجاد کیے ہیں ‘یہ ان میں سب سے خطرناک ہے۔یہ ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسے جانے کا جواز ہے۔اسے دائرے کا سفر کہتے ہیں جو کبھی تمام ہو تا ہے نہ نتیجہ خیز۔
راہنما کی بڑی خوبیوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ مردم شناس ہو تا ہے۔اسے معلوم ہو تا ہے کہ کون کس صفت سے متصف ہے اور کس سے کیا کام لیا جا سکتا ہے۔وہ اردگرد کے لوگوں کے عیوب سے بھی باخبر ہو تا ہے۔یہ ممکن ہے کہ وہ مصلحتاً ان کے ذکر یا بیان سے گریز کرے مگران سے متنبہ رہتا ہے کہ مبادا ان کا شکار بن جا ئے۔مومن کی پہچان بھی یہی بتائی گئی ہے کہ وہ دھوکہ دیتا ہے ‘نہ دھوکہ کھاتا ہے۔اسی کو مردم شناسی کہتے ہیں۔
حکومت سیاسی مصلحتوں کے پیشِ نظر بنتی ہے۔اس کی کامیابی کے لیے استحکام بنیادی شرط ہے۔عصبیت یہ استحکام پیدا کرتی ہے۔اگر کسی ریاست میں ایک سے زیادہ عصبیتیں پائی جا تی ہوں توبڑا راہنما وہی ہو تا ہے جو ان کو جمع کر دیتا ہے۔ انہیں حکومت میں شریک کر لیتا ہے۔اس سے وہ استحکام وجود میں آتا ہے جوریاست کو خلفشار سے بچائے رکھتا ہے۔پاکستان بھی اس کی ایک مثال ہے۔یہاں قبائلی ونسلی عصبیتیں ہیں اور مذہبی بھی۔ہماری تاریخ میں کامیاب حکومت وہی رہی ہے جس نے انہیں جمع کیا ہے۔
عصبیتوں کا اجتماع ایک سیاسی عمل ہے۔اس عہد میں یہ عصبیتیں سیاسی جماعتوں کی صورت میں بھی ظاہر ہو تی ہیں۔اس لیے ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں کا اتحاد وجود میں آتا ہے۔ایسا اتحاد جب حکومت بناتا ہے تو سیاسی جماعتیں حکومت کے لیے اپنے افراد منتخب کرتی ہیں ۔ایک بڑی عصبیت کا حامل گروہ یا فرد ‘ان کے ساتھ مل کر حکومت کرتا ہے۔ یہاں افراد کا انتخاب وہ خود نہیں کر تا۔اس لیے اس کا تعلق مردم شناسی سے نہیں ہے‘سیاسی مصلحت یا مجبوری سے ہوتاہے۔اس کو ایک مختلف سیاسی عمل کے طور پر سمجھنا چا ہیے۔
اتحادی کا انتخاب وقت کرتا ہے اورمشیر کا انتخاب لیڈر اپنی مرضی سے کرتا ہے۔مشاورت کے لیے ایسے فرد یاجماعت کو‘ جس کے ہاتھ میں ایسے اجتماع کی قیادت ہوتی ہے‘الگ سے افراد کی ضرورت ہوتی ہیں۔وہ اسے بتاتے ہیں کہ کس عصبیت کے ساتھ کیسے معاملہ کرنا ہے۔کس کی کمزوری کیا ہے اور کس کی قوت کہاں ہے؟یہ مشیربالعموم اہلِ دانش میں سے ہوتے ہیں۔ماہرینِ سیاسیات۔یہ لوگ سیاسی حرکیات کو سمجھتے ہیں اور حکمرانوں کو درست مشورہ دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔یہ لازم نہیں کہ وہ دکھائی دیتے ہوں۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ نادیدہ ہوں۔
یہی وہ افراد ہیں جن کا انتخاب حکمران کی بصیرت کا امتحان ہو تا ہے۔اگر وہ اس معاملے میں درست فیصلہ کر نے کی صلاحیت رکھتا ہے تو ایک کامیاب حکمران بن سکتا ہے۔اگر اس کا یہ انتخاب ناقص ہوا تویہ اس کی ناکامی کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ جو راہنما اچھے مشیروں کو تلاش نہیں کر سکتا‘وہ کبھی اچھا حکمران نہیں ہو سکتا۔مشیر اس کے دست و بازو ہوتے ہیں۔جسے اپنے ہاتھ پاؤں کی قوت کاادراک نہیں‘وہ کسی معرکے کے لیے درست حکمت عملی نہیں بنا سکتا۔اس کی قسمت میں ناکامی لکھ دی جاتی ہے اور اس کی تمام تر ذمہ داری اس کے کندھوں پر ہو تی ہے۔
بادشاہوں کے مشیر تاریخ میں مشہور رہے ہیں۔ایاز ‘محمود کا مشیر تھا۔یہ محمود کی بصیرت تھی جس نے ایک غلام کی صلاحیت کا ادراک کیا اور اسے مشاورت کے قابل سمجھا۔ ممکن ہے ان دونوں کی کہانیوں میں افسانے کا رنگ بھی شامل ہو گیا ہو لیکن ان کہانیوں میں سبق یہ ہے کہ حکمران اگر مشیر کے انتخاب میں کامیاب ہو جائے تو ہر میدان میں کامیاب رہتا ہے۔
الپ ارسلان کے ساتھ نظام الملک طوسی کانام لیا جا تا ہے۔امورِ جہاں بانی کے موضوع پر اس کی کتاب''سیاست نامہ‘‘ آج بھی حوالہ ہے۔پرانے وقتوں میں بادشاہ مشاورت کے لیے وزیر رکھتے تھے اور ان کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ اس منصب کے لیے زیرک ترین اور وفادار افرادکا انتخاب کر یں۔بادشاہوں کی کامیابی کا انحصار ان کے اس انتخاب پر ہو تا تھا۔وزیر انہیں کامیاب کر سکتا تھااور ناکام بھی بنا سکتا تھا۔
محبت کا معاملہ مگر عجیب ہے۔یہ محبوب کی کمزوریوں کے لیے جواز تلاش کر تی ہے۔جو محبت میں روا ہے‘سیاست میں گوارا نہیں کیا جا سکتا۔لیڈر کے ساتھ معاملہ محبت کا نہیں‘مفاد کا ہو تا ہے۔یہ لیڈر کی کارکردگی اورخیر خواہی ہے جو اسے محبت میں بدل دیتی ہے۔ یہ محبت اسی وقت تک قائم رہنی چاہیے جب تک لیڈر کی خیر خواہی اور کارکردگی برقرار ہے۔جس دن اس کے عیب‘اس کی خوبیوں پر غالب آجائیں‘اسے عوام کی نظروں سے اُتر جا نا چاہیے۔عوام جب تک اس کی ناکامیوں کے لیے 'اسے مشیر اچھے نہیں ملے‘ جیسے عذر تلاش کرتے رہیں گے‘ان کے سروں پرنااہل لیڈر سوار رہیں گے۔ایسی محبت قوموں کے لیے جاں لیوا بھی ہو سکتی ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ لیڈراپنی کامیابیوں اورناکامیوں کا خود ذمہ دار ہے۔اگر اس کے مشیر اچھے نہیں تھے تواس کا ذمہ دار بھی وہ خود ہے جس نے نااہلوں کو مشیربنایا۔اب تو معاملہ اس سے آگے بڑھ چکا۔لوگوں پر لیڈروں کے بارے میں آئے روز نئے نئے انکشاف ہوتے ہیں مگر وہ مان کر نہیں دیتے۔وہ یہ تو ماننے پر آمادہ ہیں کہ ساری دنیا غلط اور دروغ گوہے مگر یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ ان کا لیڈر بھی غلط ہو سکتا ہے۔
یہ ذہنی افلاس کا افسوسناک مظاہرہ ہے۔یہ مذہب ہو یا سیاست‘عوام جب لیڈر کو معصوم ماننے لگتے ہیں توپھر ان کا ذہنی ارتقا رک جا تا ہے۔جمہوریت ایک کامیاب نظام اس لیے ہے کہ اس میں عوام بیدار مغز ہوتے ہیں۔وہ حکمرانوں اور سیاستدانوں کے اعمال پر نظر رکھتے ہیں۔ان میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ کارکردگی کی بنیاد پر لیڈروں کو پرکھتے ہیں۔ جو کارکردگی نہیں دکھاتا‘وہ اس کو بدل دیتے ہیں۔عوام محب نہیں‘محتسب ہوتے ہیں۔
پاکستان میں جمہوریت کو اگر کامیاب ہونا ہے توعوام کو لیڈر کے احتساب کی روایت کو مضبوط بنانا ہو گا۔مذہب یاسیاست میں اگر کلٹ بننا شروع ہو جا ئیں تو پھر سیاست کو بر بادی سے کوئی نہیں روک سکتا۔جمہوریت عوام کی پرکھنے کی صلاحیت کو ابھارتی ہے۔عوام کو اپنے اس حق سے کبھی دست بردار نہیں ہو نا چاہیے۔لیڈر کو اس کی اچھی کارکردگی پر سراہا جا ئے اور ساتھ ہی اسے یہ احساس بھی دلایا جائے کہ اگر وہ کارکردگی نہ دکھا سکا تو وہ عوام کی نظروں سے گر جا ئے گا۔یہی عوامی رویہ جمہوریت کو ایک قابلِ اعتماد نظامِ سیاست بناتا ہے۔
آج ہمارے راہنما مطمئن ہیں کہ وہ کچھ بھی کرگزریں‘عوام ان کے ساتھ ہیں۔وہ ان کی ناکامیوں کا ذمہ دار کسی مشیر کوٹھیرادیں گے۔ جس دن لیڈر نے جان لیا کہ اس کے ساتھ عوام کا تعلق حقیقت پسندانہ ہے نہ کہ رومانوی‘ اس دن سیاست بدلنا شروع ہو جا ئے گی۔